تعلیمی ادارے بھی کھل گئے، ماسک اتارے پہنے جا رہے ہیں، ٹرانسپورٹ میں احتیاط ختم!
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری 32 سال کے ہو گئے اور اے پی سی والے روز ان کی سالگرہ تھی اس پر انہوں نے مبارک باد لی، مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف نے ٹویٹر پر دعائیہ پیغام بھیجا، ادھر پیپلزپارٹی والوں نے بھی حوصلہ دکھایا اور سالگرہ منائی، لاہور میں سنٹرل پنجاب پیپلزپارٹی نے جلسہ منعقد کیا اور کیک کاٹا، حاضری بہت معقول تھی اور قریباً سبھی راہنما موجود تھے۔ صدارت چودھری اسلم گل نے کی قمر زمان کائرہ اور دیگر راہنماؤں نے خطاب کیا۔ لاہور میں سیاسی سرگرمیاں بالکل ٹھنڈی ہیں، جماعت اسلامی کی طرف سے اس ہفتہ کے دوران موٹروے کے حوالے سے مال روڈ پر دھرنا دیا گیا۔ اس سے مرکزی امیر سراج الحق نے مرکزی خطاب کیا اور انتظامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، جماعت اسلامی کے علاوہ سول سوسائٹی کی طرف سے بھی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
پنجاب کا صوبائی دارالحکومت اور زندہ دلوں کا یہ شہر اب اپنی جولانی پر ہے اور یہاں کے شہری اپنی روزمرہ کی مصروفیات پرانی ڈگر پر لے آئے ہیں، ان کو کورونا کا کوئی خوف نہیں، حالانکہ بار بار یہ ہدائت کی جا رہی ہے کہ اس وباء میں کمی ہوئی ہے اور ایک حد تک کنٹرول ہو گیا، لیکن یہ ختم نہیں ہوئی، اس لئے حفاظتی اقدامات پر عمل جاری رکھا جائے، لیکن مجموعی طور پر عمل نہیں ہوتا، بازاروں، گلیوں اور پارکوں وغیرہ میں ماسک اور سماجی فاصلے والی ہدائت پر عمل نہیں ہوتا۔موٹرسائیکل سوار بدستور بلاماسک پوری پوری فیملی کے ساتھ بھی سفر کرتے ہیں۔ چوراہوں پر بھکاری پہلے کی طرح آزادی سے اپنا دھندا جاری رکھے ہوئے ہیں اسی طرح پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی کوئی پابندی نہیں، ویگنوں والے خود ماسک نہیں پہنتے وہ مسافروں کو کیسے روکیں گے، سپیڈو اور بس سروس کے لئے زیادہ لوگ باہر سے ماسک پہن کر آتے اور اندر اتار دیتے ہیں۔ میٹروبس اور سپیڈو میں کھڑے ہو کر بھی سفر کیا جا رہا ہے۔ یہی صورت حال مارکیٹوں اور بڑے شاپنگ سنٹروں کی بھی ہے۔
این سی او سی اور وفاق کی صوبوں سے مشاورت کے بعد جو شیڈول بنا اس کے مطابق تعلیمی ادارے کھول دیئے گئے۔ یہاں طلباء اور طالبات کے لئے ماسک کی پابندی ہے، اور وہ دوران تعلیم ماسک پہنتے بھی ہیں، تاہم باہر ایسا نہیں کرتے شائد ان کو الجھن ہوتی ہے، کئی نجی تعلیمی اداروں کی شکائت بھی ملی ہے، جبکہ یونیورسٹیوں کی سطح پر کلاس رومز میں تو ماسک کا تکلف ہے لیکن اس کے باہر طلبا کی اپنی صوابدید ہے اور وہ اسی کے مطابق عمل کرتے ہیں، دوسری طرف حفاظتی اقدامات کے لئے جو تشہیر کی جاتی تھی اس میں بھی کمی آ گئی ہے حتیٰ کہ سرکاری ملازمین معہ سیکیورٹی (پولیس وغیرہ) بھی زیادہ احتیاط کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
صوبائی دارالحکومت میں شجرکاری کی جو مہم شروع کی گئی اسے تیز بارشوں نے بہت متاثر کیا اور اعلان کے مطابق ایسا نہیں ہو سکا، حتیٰ کہ جو پودے ابتدا میں لگائے گئے وہ تیز بارشوں کا پانی جمع ہونے سے گل سڑ گئے اور بعض گرین بیلٹوں سے مویشی کھا گئے ہیں،نئی مہم شروع نہ ہوئی کہ اب خزاں کا موسم شروع ہونے والا ہے۔ پی ایچ اے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے جبکہ لاہور شہر بھی کراچی والوں کی زبان میں ”کچرہ کنڈی“ بنتا جا رہا ہے کہ حکومت پنجاب اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے درمیان بعض اختلافی امور کی وجہ سے کارکردگی متاثر ہوئی اور صفائی کا کام بھی ٹھیک نہیں ہو رہا، کوڑا کرکٹ نہ اٹھانے کی شکایات عام ہیں۔
ذکر شہریوں کے مسائل کا ہے تو یہ بھی عرض کر دیں کہ آٹا اور چینی مزید مہنگی ہوئی۔ دالوں، سبزیوں اور دوسری اشیاء خوردنی کے نرخ بھی بڑھ گئے، آٹے کے نرخوں کی وجہ سے تنور والوں نے کم وزن اور پورے وزن کی روٹی اور نان کے نرخوں میں دو روپے سے پانچ روپے تک کا اضافہ کر دیا ہے۔ اس سے روز مرہ کی مزدوری والے بہت پریشان ہو گئے جبکہ سفید پوشوں کے بجٹ میں بھی اضافہ ہوا اور ان کی آمدنی خسارے میں چلی گئی اعشاریئے منفی ہو چکے ہیں۔