مہنگائی اور بے راہ روی……دو بڑے چیلنج!
حکومت کے لئے مہنگائی اور بے راہ روی دو بڑے چیلنج ہیں، جن کے خاتمے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات نہ کئے گئے تو معاشرے میں بگاڑ مزید بڑھ جائے گا،جس کو سنبھالنا ممکن نہیں ہو گا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ حکومت ان کے سدباب کے لئے سنجیدہ بنیادوں پر اقدامات نہیں کر رہی، صرف چرب زبانی سے کام لے کر حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کیا جارہا ہے،
پاکستان میں مہنگائی کے ساتھ ساتھ رشوت، کرپشن، بے راہ روی، نفرت، لاقانونیت، غنڈہ گردی، بدمعاشی، فحاشی، شراب نوشی، منشیات اور نشے کا استعمال سمیت دیگر جرائم میں بھی روز بروز اضافہ ہورہا ہے، برائی کو برائی بھی نہیں سمجھا جا رہا،جس کی وجہ سے جرائم میں اضافہ ہونا فطری امر ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک سگریٹ نوشی معاشرتی برائی سمجھی جاتی تھی، اب یہ سٹیٹس سمبل بن چکی ہے، اگر بادی النظر میں دکھا جائے تو ان برائیوں کی بڑھتی ہوئی بڑی وجہ مہنگائی ہے۔
اشیائے صرف کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ جس نے عوام کی ایک بڑی تعداد کو ذہنی انتشار میں مبتلا کر دیا ہے، جس معاشرے میں ایسے مسائل بڑھتے ہیں، وہاں لوگ نشہ آور چیزوں میں سکون تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ملک میں مہنگائی کے سبب ہی رشوت، چور بازاری، کرپشن اور بے راہ روی بڑھ رہی ہے۔ لوگ اپنی روزمرہ ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لئے جائز ناجائز طریقے اختیار کر رہے ہیں۔ اس وقت عوام کی ایک بڑی تعداد کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
ملک میں ایک طرف مہنگائی میں اضافہ ہوا رہا ہے، دوسری طرف روپے کی قدر کم ہونے سے فی کس آمدنی میں کمی واقع ہوئی ہے، صرف گھی، چینی اور آٹے کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے عام آدمی کا گھریلو بجٹ بْری طرح متاثر ہوا ہے۔ 2018 ء میں چینی 55 روپے کلو فروخت ہو رہی تھی،جو اب 110 روپے فی کلو میں دستیاب ہے۔چکی کا آٹا، جو 30، 35 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت ہو رہا تھا وہ 80 روپے کلو ہے۔ گھی کا ایک لیٹر کا پیکٹ جو لوگ180روپے میں خرید رہے تھے،وہ 340 روپے میں خریدنے پر مجبور ہیں۔
حکومت کے تین سالہ دور میں مہنگائی ایک عفریت کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق اگست 2018ء میں چینی کے پچاس کلو بیگ کی قیمت 2600 روپے تھی،جو اگست 2021ء کے اختتام تک 5000تک پہنچ گئی۔ اگست 2018ء میں مل آٹے کے 20 کلو تھیلے کی قیمت 740 روپے تھی جو اگست 2021ء کے اختتام تک 1150 روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔ اسی طرح گھی و خوردنی تیل کے پانچ لیٹر کی قیمت اگست 2018ء میں 850 روپے تھی وہ اگست 2021ء کے اختتام تک 1750 روپے سے تجاوز کر گئی۔ گذشتہ تین سال میں مجموعی طور پر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں ہونے والا اضافہ اوسطاً پینتالیس فیصد سے زائد بنتا ہے۔صرف آٹے، گھی اور چینی کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کو لیا جائے تو یہ تقریباً 50 فیصد تک ہے۔ مہنگائی کے تناسب میں خاص طور پر دسمبر 2020ء کے بعد سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
گزشتہ تین سال میں ڈالر کے مقابلے میں پاکستانیوں کی آمدنی بہت زیادہ کم ہوئی ہے۔ اس عرصے میں ڈالر کی قیمت میں ستر فیصد اضافہ ہوا۔عالمی سطح پر ان چیزوں کی قیمتوں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں 20 سے 25 فیصد اضافہ ہوا ہے لیکن پاکستان میں اس اضافے کا اثر د و گنا سے بھی زیادہ ہوا اور ان کی قیمتیں 60 سے 70 فیصد تک بڑھ گئیں، جس کی سب سے بڑی وجہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہے، کیونکہ پاکستان پام آئل کے ساتھ اب گندم اور چینی بھی ملکی درآمد کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ ادویات کی قیمتوں میں تو گزشتہ ڈھائی تین سال میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ عام آدمی بیماری کی صورت میں دوائی بھی نہیں خرید سکتا۔
ایک طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی، دوسرے روپے کی کم ہوتی قدر، تیسرے آمدنی کے محدود ذرائع، اوپر سے کورونا وبا کے باعث کاروبار زندگی بھی بری طرح متاثر ہوا ہے، جس کے باعث عوام کی ایک بڑی تعداد بے راہ روی کی طرف مائل ہو رہی ہے، مہنگائی نے اخلاقی قدروں کو بھی پامال کر دیا ہے، بدمعاشی اور غنڈہ گردی جو پہلے محدود ہوا کرتی تھی، اس میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔بے راہ روی کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا کا بے وجہ استعمال، تعلیم کی کمی اور مذہب سے دوری ہے، اس کے ساتھ ساتھ رشوت، کرپشن، لاقانونیت، نفرت، راتوں رات امیر بننے کی خواہش ہمارے نوجوانوں کو بے راہ روی کی طرف تیزی سے دکھیل رہی ہے، سب سے اہم یہ کہ ہم اپنے بچوں اور بچیوں کی اخلاقی تربیت پر بھی وہ توجہ نہیں دے رہے، جب تک میں اپنے بچے کی اخلاقی تربیت پر خود توجہ نہیں دوں گا تو وہ کیسے سدرھے گا؟
آج ہمارے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سرشام گلی محلوں میں چوک چوراہوں پر دکھائی دیتی ہے۔ ان میں سے بعض تو ابھی نوعمر ہیں، یہ نوجوان گروپوں اور ٹولیوں کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں،ان کی ایک بڑی تعداد غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہوتی ہے، ان میں سے کئی تو ایسے ہیں جن کے والدین بھی ان سے خوفزدہ ہوتے ہیں، جس کے باعث یہ زیادہ بے خوفی سے مجرمانہ سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں،لمحہ فکریہ ہے کہ ان ٹولیوں میں اب کچھ لڑکیاں بھی شامل ہوتی جا رہی ہیں، جس کے باعث معاشرہ بگاڑ کی جانب بڑھ رہا ہے، جس کی ایک جھلک گزشتہ دنوں مینار پاکستان پر بھی دکھائی دی۔اس کے سد ِباب کے لئے قومی سطح پر سخت ترین لائحہ عمل بنائے جانے کی ضرورت ہے۔
سردست تو یہ کیا جائے کہ ان نوجوانوں کی بلا وجہ گلی محلوں میں پھرنے یا بیٹھنے پر پابندی عائد کی جائے نیز والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کی اخلاقیات پر خصوصی توجہ دیں، حکومت بھی مہنگائی کے تدارک کے لئے سنجیدہ کوششیں کرے اور عوام کے ذرائع آمدنی بڑھانے کے لئے زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی اقدامات کرے بالخصوص رشوت، کرپشن، چور بازاری، لاقانونیت، غنڈہ گردی شراب نوشی، منشیات اور مختلف اقسام کے بڑھتے ہوئے نشے کے تدارک کے لئے خصوصی اقدامات کرے تاکہ عام آدمی کا معیار زندگی بلند ہو اور اسے ذہنی سکون مل سکے،اسی طرح معاشرہ خوشحالی کی جانب گامزن ہو گا۔جزاکم اللہ خیرا کثیرا