پاکستان کو درپیش مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں؟؟  

پاکستان کو درپیش مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں؟؟  
پاکستان کو درپیش مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں؟؟  

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 اس وقت ہمارا پیارا وطن جن گوناگوں مسائل میں گھرا ہوا ہے ان سے نکلنے کی ابھی تک کوئی راہ نظر نہیں آ رہی ہے، بالخصوص معاشی صورتحال انتہائی گھمبیر ہے۔ صبح شام دیوالیہ ہونے کی باتیں ہوتی ہیں ہماری معیشت کا دیا دوسرے ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی شرائط اور انہی کے تیل سے ٹمٹما رہا ہے اور وہ جب چاہیں تیل کی جگہ پانی دے کر یا پھونک سے یہ دیا گل کرسکتے ہیں، ہمارا ملک سیاسی طور پر عدم استحکام اور متحارب گروپوں کی سخت محاذ آرائی کی صورتحال سے دو چار ہے۔ ہر سیاسی جماعت اور اس کی قیادت کا دعوی ہے کہ ہمیں موقع دیا جائے ہم مسائل حل کریں گے، مگر ابھی تک مسائل میں اضافہ ہی ہو رہا ہے مہنگائی اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے، تجارتی خسارہ اور کرنٹ اکاونٹ خسارہ بھی قابو سے باہر ہے. اس وقت ایک طرف پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں جو حکومت میں ہیں سے کچھ لوگ امید لگائے ہوئے ہیں تو دوسری طرف عوام کی ایک بہت بڑی تعداد ایک بار پھر عمران خان سے توقعات باندھے ہوئے ہے جنہوں نے پہلے نئے اور دو نہیں ایک پاکستان بنانے کا فارمولا پیش کیا تھا پھر اقتدار میں آ کر ریاست مدینہ کی بات کی اور اب اقتدار سے نکالے جانے پر حقیقی آزادی کا نعرہ دیا ہے. اب سوال یہ ہے کہ اگر اسی موجودہ سیاسی قیادت میں سے ہی کسی نے ملک کو مسائل سے نکالنا ہے تو پھر ملک کو ان حالات تک لایا کون ہے؟  چلو فرض کرنے کی حد تک یہی سمجھ لیتے ہیں کہ ان مسائل کا سبب فوجی جنرلز ہیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب وہ واقعی نیوٹرل ہو چکے ہیں؟ یہ والے نیوٹرلز نہیں کہ ہم عمران کے ساتھ ہیں نہ پی ڈی ایم کے ساتھ یا پھر آدھے آدھے دونوں کے ساتھ، بلکہ نیوٹرلز سے میری مراد یہ ہے کہ کیا وہ واقعی سیاسی مداخلت سے مکمل کنارہ کشی اختیار کر چکے ہیں اور جو بھی سول حکومت قائم ہوگی اسے اپنی مرضی سے اندرونی اور بیرونی پالیسیاں بنانے میں مکمل آزادی ہوگی؟ بادی النظر میں تو ایسا نہیں لگتا. اگر ایسا ہوتا تو پھر دونوں متحارب سیاسی دھڑے مڑ مڑ کر انہی کی طرف کیوں دیکھ رہے ہیں اور انہی سے مدد کیوں مانگ رہے ہیں؟. تو پھر ملک انہی کے حوالے ہی کیوں نہ کر دیا جائے؟ مگر اس میں بھی مشکل یہ ہے کہ امریکہ کے اندر ڈیموکریٹک پارٹی برسراقتدار ہے اور وہ پاکستان میں مارشل لاء کی حمایت نہیں کر سکتے اور باقی دنیا بھی ہمیں آمریت کے طعنے دے گی اور ہماری فوجی و اقتصادی امداد روک لے گی.

ویسے بھی ہم لگ بھگ 30 برس تک براہ راست فوجی قیادت کو بھی بھگت کر دیکھ چکے ہیں وہ اپنی چھاؤنیوں کے اندر تو بہترین نظام بنا سکتے ہیں مگر ملک کا نظام بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے. یا بنانا نہیں چاہتے کہ سول اور فوجی کا فرق ختم نہ ہو جائے. تو پھر ہمارے مسائل کا حل کیا ہے؟  اگر پوری دنیا کے حوالے سے غور کیا جائے تو حل یہی  نظر آتا ہے کہ قوموں کی ترقی کا راز عوام کو اختیار دینے میں ہی ہے. یعنی جمہوریت کو نہ صرف تسلیم کیا جائے بلکہ اس کی روح کے مطابق اسے رائج بھی کیا جائے. ہمارے ملک میں مگر مشکل یہ ہے کہ یہاں جمہوری جماعتیں نہیں ہیں. ہمارے ہاں  شخصیات کو ہی جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے. سیاسی جماعتوں کے اندر تمام بڑے فیصلے مرکزی قیادت ہی کرتی ہے جو خود ہی غیر منتخب ہوتی ہے. پھر اوپر سے نیچے تک نہ کوئی درست رکنیت سازی ہوتی ہے نہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوتے ہیں. کسی جماعت کی کوئی باقاعدہ یوتھ ہے نہ تعلیمی اداروں میں تنظیم سازی اور نہ کوئی مثالی بلدیاتی نظام ہے. اور ابھی تک کوئی بھی سیاسی جماعت ایسی تنظیم سازی پر مائل بھی نظر نہیں آتی ہے پھر میری نظر میں تو یہی حل ہے کہ فوجی قیادت اس ملک پر رحم کرے کیونکہ ان کے پاس طاقت بھی ہے اور ساری سیاسی قیادت ان کے سامنے ڈھیر بھی ہو جاتی ہے. اگر کوئی زیادہ اکڑے تو اس کے ساتھ شہباز گل والا سلوک بھی کیا جا سکتا ہے. اب فوجی قیادت صرف اور صرف ملکی مفاد کے ایجنڈے پر ساری سیاسی قیادت کو  صدارتی ہاوس میں اکٹھے بٹھائے اور ان کو کانوں سے پکڑ کر بتائے کہ اس ملک کے حالات پر غور کرو تم اور تمہاری نسلیں ہم اور ہماری نسلیں بھی مغرب اور امریکہ جا کر گزاہ کر سکتے ہیں مگر باقی ساڑھے بائیس کروڑ عوام نے کہاں جانا ہے؟  لہٰذا اپنی اناؤں اور اپنے مفادات کو مستقل طور پر نہیں تو عارضی طور پر ہی پس پشت ڈال کر بندے دے پتر بنو اور آو سب مل کر اس ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالیں، اپنی معیشت اور اپنے وقار کے لیے کوئی مستقل پالیسی تشکیل دیں۔ عوام کی رائے بھی لیں اور عوام کو بااختیار بنا کر انہیں ذمہ داریاں دیں. ملک میں انصاف کا نظام بنائیں اور ملک سے سیاسی بھگڈر کو ختم کر کے اعتماد کی فضا قائم کریں. اب اس کالم کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ یا قیادت ملک اور عوام کے ساتھ مخلص ہو جائے تو وہ منصفانہ گفت و شنید سے یا بزور بازو سیاسی قیادت سے کام لیکر اس ملک کو مسائل سے نکال سکتی ہے. شرط بس مخلص ہونا ہے. صرف اپنے مفادات یا اپنے ادارے سے ہی نہیں بلکہ ملک اور عوام سے بھی۔راقم نے اپنے گزشتہ کالم میں تجویز دی تھی کہ سیاستدان آپس میں بات کریں اور اس کا آغاز وہ سیاستدان کریں جنہوں نے زیادہ مصائب کا سامنا کیا ہے. مگر اس کی امید نہیں ہے۔

مزید :

رائے -کالم -