آسمان پر ہلکا سا بے ر ونق چاند نیند کی جھپکیاں لے رہا ہے، ہوا ریت کو تھپکیاں دے رہی ہے،ہلکے نیلے آسمان پر ستارے ٹمٹمائے جا رہے ہیں  

آسمان پر ہلکا سا بے ر ونق چاند نیند کی جھپکیاں لے رہا ہے، ہوا ریت کو تھپکیاں ...
آسمان پر ہلکا سا بے ر ونق چاند نیند کی جھپکیاں لے رہا ہے، ہوا ریت کو تھپکیاں دے رہی ہے،ہلکے نیلے آسمان پر ستارے ٹمٹمائے جا رہے ہیں  

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:136
خیمے گاڑدئیے گئے ہیں۔ چاچا اور گاموں لکڑیاں اکھٹی کرنے چلے گئے ہیں۔ حضور بخش کھانا بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔ مشتاق اس کی مدد کر رہا ہے۔ مکس سبزی بنائی جائے گی۔ باس سستانے خیمہ گاہ میں چلے گئے ہیں۔ نین اور میں ڈوبتے سورج کو کوہ سلمان کے پیچھے اترتے اور سندھو کے پانیوں پر اترتا ہلکا ہلکا اندھیرا دیکھ رہے ہیں۔یہ جولائی کی ایک تاروں بھری رات ہے۔ آسمان پر ہلکا سا بے ر ونق چاند جیسے نیند کی جھپکیاں لے رہا ہے۔ ہوا ریت کو تھپکیاں دے رہی ہے۔ ہلکے نیلے آسمان پر ستارے حور صحرائی (نین)کی آنکھوں کی مانند ٹمٹمائے جا رہے ہیں۔       
کمال یہ ہے کہ سندھو کے کنارے مچھلی کی بجائے مکس سبزی کا کھانا۔ بہر حال مقصد اس سے بڑا ہے سندھو کی سیر، ڈولفن کا درشن اور مہمان پرندوں کی یاترا۔
 سالن تیار ہوا تو روٹیاں بیلنے کا کام شروع ہے۔ رات نے پڑاؤ ڈال لیا ہے۔اندھیرے نے ہر شے کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے۔بس ستارے رات کو روشن کرنے میں مصروف ہیں ان کی محفل آسمان کی وسعتوں پر سجنے کو تیار ہے۔ آسمان صاف اور تازہ ہوا خنک ہے۔ چندا ماموں بھی اس محفل کو رونق بخشنے والے ہیں۔ جیسے جیسے رات اس ویران جزیرے میں اتر رہی ہے خاموشی ڈراؤنی ہو نے لگی ہے۔ خاموشی میں اگر آواز ہے تو سندھو کی لہروں کی یا ہوا کی جو درختوں سے ٹکرا کر سیٹی بجا رہی ہے مگر اس سیٹی میں خوف ہے۔ کھانے کے بعد چائے کا دور ختم ہوا تو ہمارے ناخدادریائی موسیقی کی محفل سجانے کی تیاری میں ہیں۔ موسیقی کے آلات میں کچا گھڑا، سٹیل کا تھال اور گڑوی ہیں۔چاچا کی آواز گونجی وہ سرائیکی کا ایک دوہڑہ گا رہا ہے جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے؛”نہ ہم زمین کے مالک ہیں نہ مال مویشی رکھتے ہیں۔ ہم تو ٹوکرے بنانے والے ہیں۔ ہم لئی کی نرم شاخوں سے ٹوکرے بناتے ہیں۔“
 پھر یوں ہوا کہ مشتاق نے تھال تھاما اور لگا بجانے۔ مجھے بھی کالج کے دن یاد آئے تو لکڑی کاتختہ بنا طبلہ جسے میں بجانے لگا ہوں کہ کالج کے دنوں میں مرحوم عتیق گاتا تھا اور میں ڈیسک کو بطور طبلہ بجاتا تھا۔ عتیق بھی پچھلے برس اس فانی دنیا کو چھوڑ کر اپنے ابدی گھر چلاگیا ہے اور دوستوں کے دلوں کے داغوں میں ایک اور داغ کا اضافہ کر گیا ہے۔ اللہ اُس کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین۔
دریائی موسیقی شہر سے دور، انسانی بستیوں سے پرے، دریا کی لہروں پر ہی گائی اور سنائی جاتی ہے۔ دریا واسیوں کی مخصوص موسیقی۔ سادہ، حقیقت کے قریب اور خالص۔ مغربی موسیقی کے چار سر ہیں جبکہ ہماری روایتی موسیقی کے سات اور دریائی موسیقی کے کئی سر ہیں۔ یقین کریں ان تین آلات کی موسیقی خون کے رویں رویں اور نس نس میں اترتی محسوس ہو تی ہے۔ تصور کریں چاندنی رات، ستاروں سے سجا آکاش، خاموشی، تنہائی،دریا کا کنارا، لہروں کا جل ترنگ، کھلے آسمان تلے دریائی موسیقی کی محفل،نین کا ساتھ، سادہ اور خالص لوک گیت، آپ اس سرور کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے ہیں۔یہ بات بھی ذہن میں محفوظ کر لیں عظیم سندھو کے کوزہ گر بھی مشہور ہیں ایسے ہی ایک کوزہ گر کو اس دریا نے موسیقی کا ایسا وردان دان کیا، سروں کی کہکشاں اُس کے گلے میں اتار کر اُس کو امر کر دیا ہے۔اس گمنام کوزہ گر نے خواجہ فرید  ؒ کا کلام ایسا گایا کہ ملک کے کونے کونے میں مشہور ہو گیا۔ اس کوزہ گر کو سارا ملک  ”پٹھانے خاں“ کے نام سے جانتا ہے۔ پٹھانے خاں نے ایک انٹر ویو میں کہا تھا؛
”میں کب سے گا رہاہوں مجھے یاد نہیں ہے۔ یتیمی، غربت اور زندگی کو قریب سے دیکھا ہے۔  ان کیفیات نے میری آواز میں درد نمایاں کر دیا ہے۔سرائیکی وسیب کی وجہ سے خواجہ فرید ؒ سے خصوصی عقیدت ہوئی۔ خواجہ فریدسے عشق، سرائیکی زبان سے محبت اور سندھو کے جل ترنگ کا حصار،میں ان تینوں میں بندھ گیا ہوں۔ سرائیکی اور خواجہ کے کلام میں ایمان سچائی اور انسانیت کا درس ہے جبکہ میری سوز و آواز میں سندھو کا جل ترنگ۔“(جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بْک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -