گولی والی سوڈے واٹر کی بوتل ہماری دلچسپی کا خاص محور تھی دو آنے میں مل جاتی تھی، 2 بوتلیں غٹا غٹ پی جاتے اور پھر دیر تک بوتلیں کھلنے کی سحر انگیز آواز سنتے

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:44
میلے ٹھیلے
میلے ٹھیلے گاؤں کی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ ہمارے گاؤں میں تو نہیں، ہاں ساتھ والے گاؤں میں ایک پیر صاحب رہتے تھے جو اپنے ڈیرے پر سالانہ میلہ لگوایا کرتے تھے۔ جسے گاؤں کے سب لوگ ضرور دیکھنے جاتے تھے- سکول کے بچے بھی کلاسوں سے بھاگ کر وہاں پہنچ جاتے تھے۔ ایک چھوٹے سے میدان میں آٹھ دس سبز کپڑے پہنے ملنگ ناچتے پھرتے تھے یا بیٹھے سر عام بھنگ گھوٹتے رہتے تھے۔ انھی میں ایک ایسا ملنگ بھی تھا جس کا رنگ بالکل سرخ و سفید تھا، سبز لباس میں ملبوس، سیاہ گہری آنکھوں اور بڑے بڑے گھنگھریالے بالوں کے ساتھ وہ کسی ملک کا شہزادہ ہی لگتا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے بارے میں ہر طرف کہانیاں پھیل گئیں کہ یہ لڑکا لاہور کا ہے اور کسی کے عشق میں مبتلا ہو کر ملنگ بن گیا ہے۔ہم سب دوست اس سے بڑے متاثر تھے اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد کسی نہ کسی بہانے اسے دیکھنے جاتے۔جہاں وہ ایک طرف بیٹھا چپ چاپ خلاؤں میں گھورتا رہتا تھا، تاہم اپنی بھنگ کا پیالہ حاصل کرنے میں اس نے کبھی سستی نہیں دکھائی تھی اور اس مشروب کی تقسیم کے موقعہ پر وہ قطار میں سب سے آگے آن کھڑا ہوتا تھا۔
وہاں گولی والی سوڈے واٹر کی بوتل ہماری دلچسپی کا خاص محور تھی جو اس وقت دو آنے میں مل جاتی تھی۔ گھر سے ماں اس دن ایک روپیہ دیتی تھیں، ہم دو بوتلیں تو خود کھلوا کر غٹا غٹ پی جاتے اور پھر وہیں دیر تک کھڑے مزید بوتلیں کھلنے کی سحر انگیز آواز سنتے رہتے جس میں پہلے ایک پٹاخہ بجتا اور پھر شو ں کی زور دار آواز سے گیس نکلتی اور دل خوش ہو جاتا۔ زیادہ تر لوگ اس کے صوتی اثرات سے محظوظ ہوتے تھے اور آس پاس ہی منڈلاتے پھرتے تھے جیسے ہی کوئی بوتل خریدتا، سب دوڑ کر ٹھیلے پر پہنچ جاتے کہ کہیں اس نظارے سے محروم نہ رہ جائیں۔
کھانے پینے کی چیزوں کی دکانیں ہوتی تھیں جن میں پکوڑوں اور جلیبیوں کے علاوہ بوندی کے لڈو اور میٹھی پھلکیاں ملتی تھیں۔ برفی بہت پسندیدہ شے تھی، مٹھائیوں کو بہت ہی شوخ نیلے، پیلے اور سرخ رنگوں میں بنایا جاتا تھا، مکھیوں کی پوری فوج اوپر بیٹھی ہونے کے باوجود کہیں نہ کہیں سے مٹھائیوں کا اصلی رنگ جھلک ہی جاتا اور لوگ کھنچے چلے آتے تھے۔ خریدار کے مطالبے پر وہ مکھیوں کا جھنڈ اڑا کر نیچے سے مطلوبہ مٹھائی نکال کر تول دیتا۔
ہاں، پنجرے میں قید ایک مردہ سی بلّی جتنا شیربھی تھا جس کو سرکس کے نام پر پیش کیا جاتا تھا۔ باہر ایک ملازم بیٹری والے سپیکر پر لوگوں کو سرکس کی طرف مائل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا۔ سرکس کی آمدنی کی مد میں جو کچھ بھی ملتا وہ صبر شکر کر کے وصول کرتا اور لوگوں کو تنبو میں جانے کا اشارہ کرتا، جہاں تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایک ملازم لکڑی کی چھڑی سے لیٹے ہوئے اس مدقوق سے شیر کو کچوکے لگاتا اور مجبور کر کے اس کی درد ناک آواز نکلواتا جسے وہ ”شیر کی دھاڑ“ کہتا تھا اور جسے سن کر لوگ اس کے اصلی شیر ہونے کا یقین کر لیتے۔
یہ سرکس جو صرف ایک شیر، ایک بندر، ایک بکری اوردو ملازموں پر مشتمل تھا غالباً دنیا کا سب سے چھوٹا سرکس تھا بلکہ سرکس کے نام پر دھبہ تھا لیکن پھر بھی دو دن کے میلے میں وہ اتنا کما لیتے تھے کہ جانوروں کے اور اپنے لیے خوراک کا انتظام کرنے کے علاوہ برے وقت کے لیے بھی کچھ بچا لیتے۔
ایک دو قوال اپنے چند ڈھولک اور باجے اٹھائے تالیاں پیٹنے والوں کے جلو میں اپنی ناقابل برداشت آواز نکال کر طلب بھری نظروں سے تماشائیوں کو دیکھتے جو کبھی کبھار چند سکے ان کے سر پر سے وار کر ان کی طرف اچھال دیتے۔ کوئی کلام سے زیادہ متاثر ہو جاتا تو پورا ایک روپیہ بھی دے دیتا۔ایک آدھ کو حال بھی پڑ جاتا جسے کچھ لوگ پکڑ کر نیچے بٹھا دیتے اور وہ رسیاّں تڑوا کر اِدھر اُدھر بھاگتا اور سر د ھنتا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس کی ذہنی کیفیت ہی ایسی تھی کہ کہیں بھی ڈھول بجتا تو وہ حال کھیلنے لگ جاتا تھا۔تاہم قوال اس کی اس حالت کا خوب استحصال کرتے اور اسے مصروف رکھنے کے لیے وہی دھن بار بار بجاتے رہتے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بْک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔