کم بخت کو اپنی کوئی ہم جماعت پسند آ گئی ہے، اس پہ ایسے ڈورے ڈالے ہیں کہ کہتا ہے شادی کروں گا تو اسی سے ورنہ نہیں کروں گا

مصنف:یاسمین پرویز
قسط:14
”صبح رضیہ آپا آئی تھیں۔“ ثمینہ نے اس کے چہرے کے تاثرات کو پڑھے بغیر سلسلہ¿ کلام جاری رکھا اور اسے ہمیشہ کی طرح آج بھی اپنے آپ پہ جبر کر کے اس کی بات سننی پڑی۔
”انہوں نے بتایا کہ ان کے اکلوتے بیٹے نے اپنی بچپن کی منگیتر سے شادی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ کم بخت کو اپنی کوئی ہم جماعت پسند آ گئی ہے۔ اس نے اس پہ ایسے ڈورے ڈالے ہیں کہ کہتا ہے شادی کروں گا تو اسی سے ورنہ نہیں کروں گا۔ بھلا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا یہ مقصد تو نہیں کہ انسان خودسر اور گستاخ ہو جائے اور بغاوت پہ اتر آئے۔“ آخری فقرے نے جمال کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا اور وہ خاموش نہ رہ سکا۔
”نظریاتی اختلاف کو گستاخی اور خودسری پر محمول نہیں کیا جا سکتا۔ انسان اگر روحانی موت کو قبول کرنے سے انکار کر دے تو اسے بغاوت نہیں بلکہ جرأت مندی کہتے ہیں۔ اس لیے کہ انسان اس طرح اپنے آپ کو ہی نہیں دوسروں کو بھی دھوکہ دینے سے بچ جاتا ہے۔ رضیہ آپا جذباتی لگاﺅ اور ذہنی وابستگی میں امتیاز نہیں کر سکتیں۔ اسی لیے وہ اپنے بجائے اپنے بیٹے کو قصور وار سمجھتی ہیں۔“ جمال کے چہرے پہ کرب کے سائے اُبھر آئے اور لہجے میں اپنا دُکھ سمٹ آیا تھا مگر ثمینہ کی سطحی نگاہیں، کرب اور دکھ کی ان پرچھائیوں کو نہ دیکھ سکیں۔ اس نے شکایت بھرے لہجے میں اسے مخاطب کیا ”آپ تو خواہ مخواہ ہی اس کی حمایت کرنے لگے۔ رضیہ آپا تو اپنے بیٹے کے دامن میں خوشیاں بھرنا چاہتی ہیں، وہ اس کی خوشیوں کی قاتل تو نہیں۔“
”انسان کا ذہن اگر صلیب پہ چڑھا دیا جائے تو کیا یہ قتل نہیں؟“ اس نے اپنے پھیلے ہوئے دکھ کو لفظوں میں سمیٹنا چاہا۔
”خدا جانے آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟“ ثمینہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے حیران اور سوالیہ نگاہوں سے اسے تکنے لگی اور اس لمحے اس کا جی چاہا وہ اس سے کہہ دے کہ تم میری باتوں کو کبھی نہیں سمجھ سکو گی.... رضیہ آپا بھی اپنے بیٹے کی باتوں کو کبھی نہ سمجھ پائیں گی.... جب تک ہمارے تاریک ذہن، شعور و آگہی کی روشنی سے منور نہیں ہوتے ہم ایک دوسرے کے دل کی بات کبھی نہیں سمجھ سکیں گے، کبھی نہیں۔ نہ ہم اپنی ذات کے حصار سے نکلیں گے نہ اجنبیت کی دیواریں گریں گی۔ مگر وہ خاموش رہا۔
”آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟“ ثمینہ پریشان سی ہو گئی۔
”بس تھکاوٹ ہے۔“ اس نے اپنی اس اندرونی کیفیت کو چھپانا چاہا جس کی پرچھائیاں اس کے چہرے پہ پڑ رہی تھیں۔
”آپ چل کر آرام کیجیے.... چلیے میں آپ کے لیے چائے بنا کر لاتی ہوں۔“
ثمینہ باقی ماندہ کام چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی اور وہ تھکے تھکے قدموں سے اپنی خوابگاہ کی طرف چلا آیا۔ لباس تبدیل کر کے بستر پہ دراز ہوتے ہوئے وہ سوچنے لگا ہمارے ہاں کی عورتیں تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ذہنی طور پر کس قدر پسماندہ ہوتی ہیں۔ خصوصاً شادی کے بعد وہ اپنی سوچ کا دائرہ اتنا محدود کر لیتی ہیں کہ یوں لگتا ہے جیسے ان کا سفر صرف ہمسفر کی تلاش تک محدود ہوتا ہے۔ ہمسفر کو پا کے ان کے قدم یوں رک جاتے ہیں جیسے اگر وہ ایک قدم بھی آگے بڑھیں تو ان کی ساری مسافت رائیگاں چلی جائے گی۔ سوچ کی اس آگ میں جھلستے ہوئے جب فوزیہ کا چہرہ اس کی نگاہوں کے سامنے آیا تو اسے یوں محسوس ہوا جیسے یکایک مینہ برسنے لگا ہو اور اس کے تپتے ہوئے وجود سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آ ٹکرائے ہوں۔ اس نے عالم بے خودی میں پاس رکھے ریڈیو گرام کو آن کر دیا۔
(جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)