انگریز اور برٹش انڈین آرمی (1)
انگریز نے 1857 ء کی جنگ آزادی کو غدر اور بغاوت کا نام دیا تھا۔ بہت قریب تھا کہ ہندوستانی فوج، برطانوی فوج کو شکست دے کر بہادر شاہ ظفر کو تختِ دہلی پر سرفراز کر دیتی اور 1526ء میں بابر نے ابراہیم لودھی کو شکست دے کر مغلیہ خاندان کی جو بنیاد رکھی تھی وہ ساڑھے تین سو برس کے بعد پھر سے زندہ ہو جاتی۔
لیکن گوروں کو جس چیز نے شکست سے بچایا وہ پنجاب اور صوبہ سرحد کے وہ انڈین ٹروپس تھے جن کو گوروں نے ٹرینڈ کیا تھا…… یہ تاریخ بڑی سبق آموز ہے۔
اگست 1947ء میں جب انگریز یہاں سے رخصت ہوا تو اس نے اس خطہ ء ارض (دہلی تا پشاور) پر بھی 90برس تک حکومت کی۔ برٹش انڈین آرمی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ پاک آرمی اسی برٹش انڈین آرمی کا حصہ تھی جس کو پاکستان نے نئے سرے سے اٹھایا، اسے ایک جدید فوج میں تبدیل کیا اور اس کو جوہری اور میزائیلی قوت سے ہمکنار کیا۔ اب ماشاء اللہ پاکستان آرمی جنوبی ایشیاء کی ایک قابلِ لحاظ جوہری قوت بن چکی ہے اور انڈین آرمی کی دھونس سے یکسر آزاد ہے۔ جب 1947ء کے اوائل میں ہنوز برصغیر تقسیم نہیں ہوا تھا تو قائداعظم نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور دوسرے کئی لوگوں کو وارننگ دی تھی کہ اگر پنجاب اور بنگال کو تقسیم کیا گیا تو انتقالِ آبادی کے وقت بہت خون خرابہ ہوگا۔
لیکن ان کے اس انتباہ پر کوئی توجہ نہ دی گئی اور کہا گیا کہ یہ ایک دور کی کوڑی ہے۔
یونٹوں اور اداروں کی ترتیبِ نو (Reconstitution) بڑی ہد تک بڑے اچھے طریقے سے انجام پائی۔ دونون طرف الوداعی دعوتیں دی گئیں اور جذباتی تقریریں کی گئیں۔ آفیسرز اور جوان، جرمنوں اور جاپانیوں کے خلاف شانہ بشانہ اور یک جان ہو کر لڑتے رہے تھے اور خطرات و مشکلات اور کامیابیوں اور ناکامیوں کا سامنا بھی متحد ہو کر کیا تھا۔
افسروں اور جوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد پنجاب کے ان علاقوں میں بستی تھی جہاں خاصی گڑبڑ ہوئی تھی اس لئے کسی ایک قوم کی طرف داری ایک فطری امر تھا۔ لیکن یہ بات ہمیشہ ان کے کریڈٹ میں جائے گی کہ انہوں نے کسی بھی خوف و رعایت کے بغیر اپنے فرائض منصبی ادا کئے۔دونوں اطراف میں رحمدلی اور سنگدلی کے حامل واقعات رونما ہوئے۔ اس تحریر کا مقصد بعض ایسے واقعات کو ریکارڈ پر لانا ہے جن میں انسانیت اور انسان دوستی نے برصغیر کو تشدد کی بے رحم موجوں کو پھیلنے اور قتل و غارت گری کی بے ہنگم توسیع سے محفوظ رکھا۔
قائداعظم اور مسٹر لیاقت علی نے بار بار اس بات پر زور دیا تھا کہ مسلح افواج کی ترتیب نو جلد از جلدکی جائے۔ لیکن اس موقف کو یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ ترتیب نو کا عمل برسوں پر محیط ہوتا ہے اور اگر اس عمل میں جلدی کی گئی تو اس سے مسلح افواج کے کمزور ہو جانے کاخطرہ ہوگا اور امن و امان کا ایک ایسا مسئلہ پیدا ہو جائے گا جو برصغیر کی تقسیم پر انداز ہوگا۔
اندریں حالات جب پنجاب میں خونریزی کا آغاز ہوا تو مسلح افواج میں ترتیب نو کا عمل جاری تھا۔ اس ترتیب نو میں تقریباً تین ماہ لگ گئے۔ لیکن جونہی یہ عمل انجام کو پہنچنے کے قریب آیا اور دونوں ملکوں کی افواج اپنی اپنی حکومتوں کے کنٹرول میں آ گئیں توتشدد اور جبر وجور کے واقعات کو قابو میں لانے میں بہت مدد ملی…… ذیل کی سطور میں چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں:
1/2 پنجاب بٹالین 77(پیرا) بریگیڈ، (فرسٹ انڈین ائربورن ڈویژن) کا حصہ تھی۔ جون 1947ء میں 77بریگیڈکوئٹہ سے روانہ ہو کر ملتان آ گیا اور ’پنجاب باؤنڈری فورس‘ کا حصہ بن گیا۔ 1/2 پنجاب منٹگمری (ساہیوال) چلی گئی۔اس میں دو پنجابی مسلمان کمپنیاں، ایک سکھ کمپنی اور ایک ڈوگرہ کمپنی تھی۔ 77(پیرا) بریگیڈ کا کمانڈر بریگیڈیئرپر انجپائی (Pranjpye) تھا اور 1/2پنجاب کا کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل گوربچن سنگھ کلا تھا۔ میجر شریف سیکنڈ ان کمانڈر تھا اور میجر آفتاب الفا کمپنی کا کمانڈر تھا جو ایک مسلمان کمپنی تھی۔
میجر آفتاب الفا کمپنی کے ساتھ ضلع اوکاڑہ میں امن و امان کا ذمہ دار تھا۔ جونہی آفتاب اوکاڑہ پہنچا، اس نے شہرکے معززین کو اکٹھا کیا اور کہا:
”میرا صرف ایک مشن ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی خوف و رعایت کے بغیر امن وامان برقرار رکھوں“۔
بیشتر لوگوں نے آفتاب کا ساتھ دیا لیکن بعض چہرے خاموش رہے۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ آفتاب کے خیالوں کا ساتھ نہیں دے رہے۔
چند روز بعد 1/2پنجاب فیروزپور چلی گئی۔ الفا کمپنی، فاضلکا۔ مکتسر۔ بٹھنڈہ روڈ پر امن وامان کے قیام پر متعین کی گئی۔ 14اگست 1947ء کو سکھ اور ہندو پناہ گزین، فاضلکا میں اکٹھے ہونا شروع ہوئے۔ مقامی مسلمانوں نے درخواست کی کہ ان کو بھی ایک سیکٹر میں اکٹھا کردیا جائے۔ دو روز بعد سب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (SDM) فاضلکا نے آفتاب کو کہا کہ وہ مسلمان لیڈروں سے مل لیں۔ ان لیڈروں نے درخواست کی کہ ان کو پاکستان پہنچایا جائے۔ چنانچہ یہ کام تین دن میں مکمل کیا گیا اور سارے مسلمانوں کو براستہ سلیمانکی، پاکستان پہنچا دیا گیا۔
ایک دن صبح صبح ایک جوان (سپاہی) آفتاب کے پاس آیا اور کہا: ”صاب! ایک سویلین سکھ آپ سے بات کرنا چاہتا ہے“…… فاضلکا سے ایک میل شمال کی جانب سکھوں کے ایک جتھے نے جن کی تعداد ایک درجن تھی، آفتاب کو روک لیا۔ یہ سکھ گھڑ سوار تلواروں اور نیزوں سے مسلح تھے۔ جتھے کے لیڈر نے کہا: ”میجر صاحب! میں فلاں گاؤں کا نمبردار ہوں۔ ہم نے اپنے علاقے کے مسلمانوں کو اپنی حفاظت میں یہاں تک پہنچا دیا ہے۔ مہربانی کرکے ان سے پوچھئے ان کو کوئی تکلیف تو نہیں دی ہم نے؟“
مسلمانوں نے یک زبان ہوکر ان سکھوں کا شکریہ ادا کیا۔
اگست 1947ء کے آخری ایام تھے کہ میجر آفتاب نے ایک اور پنجاب بٹالین جوائن کرلی۔ اس بٹالین کی ایک کمپنی ستمبر 1947ء کے آغاز میں 5000غیر مسلم پناہ گزینوں کو عارف والا اور پاک پتن کے درمیان اپنی حفاظت میں لے کر آ رہی تھی۔ ریلوے لائن کی ایک پٹڑی کے قریب آفتاب نے دیکھا کہ ایک درجن مسلح فوجی فائر پوزیشن میں لیٹے ہوئے ہیں۔ آفتاب ان کے پاس پہنچا اور ان کو وارننگ دی کہ اگر ان کی طرف سے کوئی فائرنگ ہوئی تو وہ خاموش نہیں رہے گا۔ جب آفتاب اپنی جیپ کی طرف واپس جا رہا تھا تو اس نے ایک گولی چلنے کی آواز سنی۔ وہ گولی ایک ریفیوجی کے سر پر لگی۔ آفتاب کے آدمیوں نے فوری جوابی فائر کھولا تو فائرکرنے والے بھاگ گئے۔
عارف والا ہی میں کئی مقامی مسلمانوں نے اس غیر مسلم قافلے کی تلاشی کی درخواست کی۔ آفتاب نے جواب دیا: ”جوبھی آگے بڑھا، ہم اس کو قتل کر دیں گے“…… اس کے بعد اس کانوائے کو کسی نے ہاتھ لگانے کی جرائت نہ کی۔
جون 1947ء میں میجر حق نواز 5/6راجپوتانہ رائفلز کا سیکنڈ ان کمانڈ تھا۔ اس بٹالین میں دو کمپنیاں ہندو جاٹوں کی تھیں، ایک ہندوراجپوتوں کی اور ایک کمپنی پنجابی مسلمانوں کی۔5/6 راجپوتانہ رائفلز، امن و امان کی برقراری کے لئے رڑکی سے امرتسر جا رہی تھی۔ جب بٹالین امرتسرپہنچی تو شہر شعلوں کی لپیٹ میں تھا اور لاشیں گلیوں میں جا بجا بکھری ہوئی تھیں۔شہر (امرتسر) میں ایک کمپنی بھیجی گئی۔ کئی بار فائر کھولنا پڑا اور دو دن کے اندر صورتِ حال قابو میں آگئی۔
5/6راجپوتانہ رائفلز کے کمانڈنگ آفیسر نے شہر کے سرکردہ افراد کو بلایا۔ اب ان کو صبرآگیا تھا۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ ”بندے دے پُتر“ بن کر رہیں گے۔ (جاری ہے)