صحافت پر حملہ

صحافت پر حملہ
صحافت پر حملہ
کیپشن: dr m. aslam

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


”حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہو گیا ہے“....جمعہ کی شام کو موبائل فون پر جب ڈاکٹر زاہد یوسف نے یہ خبر دی تو مجھے سینے میں دل باقاعدہ ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔ انتہائی دکھ کے عالم میں ٹی وی آن کیا تو جیو اس افسوسناک واقعے کی خبر دے رہا تھا۔ بتایا جا رہا تھا کہ کس طرح حامد میر کراچی ایئرپورٹ سے روانہ ہوئے۔ اور چند منٹ بعد جب ان کی کار شاہراہ فیصل پر چڑھنے کے لئے آہستہ ہوئی تو ایک آٹومیٹک ہتھیار سے ان کی گاڑی پر بے دریغ فائرنگ ہوئی۔ ڈرائیور کے اوسان خطا نہیں ہوئے اور اس نے گاڑی کو دوڑا دیا۔ حامد میر کے جسم میں گولیاں لگ چکی تھیں۔وہ خون میں لت پت ہو گئے تھے ،مگر انہوں نے موبائل فون پر اپنے قریبی ساتھیوں کو اس واقعے کے متعلق بتایا۔ وہ کلمہ طیبہ کا ورد کر رہے تھے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ ڈرائیور گولیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے گاڑی کو لے کر ہسپتال پہنچ گیا اور زخموں سے چور حامد میر کو ڈاکٹروں کے سپرد کر دیا۔ جنہوں نے ان کی جان بچانے کے لئے جدوجہد شروع کر دی۔ حامد میر حوصلے میں تھے۔ آپریشن تھیٹر جاتے ہوئے انہوں نے ڈاکٹر عامر لیاقت کو دیکھ کر آہستہ سے ہاتھ اٹھایا اور اپنی مخصوص مسکراہٹ چہرے پر لانے کی کوشش کی۔
حامد میر پاکستان کے معروف صحافی ہیں۔ بہت کم عمر میں اپنی محنت، ذہانت اور عزم صمیم کے ساتھ وہ عزت کمائی ہے جو کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔ ان کی جرات پاکستانی صحافت میں ایک ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکی ہے، مگر حامد میر میرے لئے اس لئے خاص نہیں ہے کہ وہ ایک بڑا صحافی ہے۔ مجھے اس سے اس لئے محبت ہے کہ وہ میرے اس استاد کا بیٹا ہے جس کی شفقت اور مہربانیوں کا احسان چکانا ممکن نہیں ہے۔ جو میرا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھتے تھے اور جن سے میں نے زندگی اور سیاست کے دوسرے رخ کو دیکھنے کا ہنر سیکھا ہے۔ آج بھی میرے لئے جذباتی ہوئے بغیر ان کا تذکرہ کرنا ممکن نہیں ہے۔
حامد میر پر حملے کی خبر میرے لئے بہت اذیت ناک تھی۔ مجھے اپنی زندگی کا وہ دن یاد آیا جب پہلی مرتبہ میں نے موت کے دکھ کو حقیقی معنوں میں محسوس کیا تھا۔ برسوں پہلے وہ ایک معمول کا دن تھا جب استاد محترم وارث میر کی موت کی خبر ملی تھی۔ اس سے پہلے میں نے دوسروں کو مرتے دیکھا تھا۔ بہت سے جنازوں میں شرکت کی تھی۔ افسردہ چہرہ بنا کر فاتحہ خوانی کے لئے ہاتھ بھی اٹھائے تھے۔ زندگی کے بے ثبات ہونے پر درس سنے ہی نہیں خود تقریریں بھی کی تھیں، مگر جب پروفیسر وارث کی میت کو قبر میں اترتے دیکھا تو زندگی میں پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ موت کا صدمہ کتنا شدید ہوتا ہے۔
وارث میر صاحب کے انتقال کا سانحہ اتنا اچانک تھا کہ اس پر یقین نہیں آتا تھا۔ دو روز قبل وہ میرے دفتر تشریف لائے تھے۔ ہمارے اس وقت کے دفتر کے افسر اعلی ان کے نیازمند تھے اور اکثر اس امر کا گلہ کرتے تھے کہ میر صاحب انہیں ملنے کے لئے کیوں نہیں آتے، مگر وارث میر صاحب ہمیشہ کہتے تھے کہ اس دفتر میں میں صرف اسلم ڈوگر سے ملنے آتا ہوں۔ مجھے اکثر وارث میر صاحب کے گھر جانے کا اتفاق ہوتا تھا۔ ان سے طویل نشستیں ہوتی تھیں۔ وہ سچے مسلمان اور پکے پاکستانی تھے۔ وہ پاکستان کو ایک ترقی یافتہ جدید مسلم ریاست دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ اجتہاد پر ایمان رکھتے تھے۔ وہ ماضی کے کنویں میں قید نہیں تھے۔ ان کی نظریں دنیا بھر میں ہونے والے جدید فکری اور نظری رجحانات پر تھیں۔ وہ عالمی سطح پر ہونے والے سیاسی تجربات سے استفادہ کرنے پر زور دیتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح پاکستان کو ایک جدید ریاست بنایا جا سکتا ہے۔ قائد اعظمؒ اور اقبالؒ ان کے آئیڈیل تھے اور وہ فکر اقبال اور کردار قائداعظم سے قومی ترقی کے لئے نئی راہیں تلاش کرنے کے متعلق غوروفکر کرتے رہتے تھے۔ وہ اکثر کہتے تھے کہ پاکستان کو ایسے مصنوعی دانشوروں سے خطرہ ہے جودرحقیقت ”دولے شاہ کے چوہوں“ جیسے ہیں اور جن کے سروں کو بچپن میں جکڑ کر ان کے دماغوں کو مفلوج کر دیا گیا ہے۔
ایک مرتبہ انہوں نے عورت کے پردے کے متعلق ایک طویل مضمون لکھا جو کئی قسطوں میں روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔ ان کے اس مضمون پر بہت سے لوگ ناراض تھے اور اکثر کوئی نہ کوئی دانشور اس پر غصہ نکالتا ہوا نظر آتا تھا۔ ایک دن میں نے برادرم خالد ہمایوں سے کہا کہ یہ لوگ ان کے خلاف تقریریں کر رہے ہیں، مگر ان کے علمی مضمون کا علمی جواب کیوں نہیں دیتے....وارث میر کو تحقیق کا جنون تھا۔ ان کے گھر میں ان کی لائبریری ہزاروں کتابوں سے بھری ہوئی تھی۔ کبھی ان کے گھر جانے کا تفاق ہوتا توکتابوں کے ہجوم میں وہ ایک عالم مستی میں کچھ نہ کچھ لکھتے نظر آتے۔ ان کی لائبریری میں ہی پہلی مرتبہ حامد میر سے ملاقات ہوئی۔ اس وقت حامد غالباً انٹرمیڈیٹ کا طالب علم تھا اور وہ ایک کتاب لینے آیا تھا۔ میر صاحب نے حامد کو کتاب دے دی اور پھر جب ڈرائنگ روم میں ہم چائے پینے کے لئے بیٹھے تو انہوں نے اس تشویش کا اظہار کیا کہ حامد نے مضامین لکھنے شروع کر دیئے ہیں اور یہ قومی روزناموں میں شائع بھی ہو رہے ہیں۔ میر صاحب نے کہا کہ میں حامد کے ساتھ گپ شپ لگا¶ں اور اسے سمجھا¶ں کہ وہ مضامین لکھنے سے پرہیز کرے۔ میر صاحب کو اپنی تحریروں کی وجہ سے زندگی میں بے پناہ مشکلات پیش آئی تھیں وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا بھی ان حالات کا شکار ہو۔
 وارث میر صاحب کو اس وقت عدالتوں اور کچہریوں کا تجربہ ہو چکا تھا کیونکہ ان کے بیٹے فیصل میر کو قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسا دیا گیا تھا۔ انہوں نے اس دوران ایک مرتبہ کہا تھا کہ لکھنے والا جب ایسے ذاتی مسائل کا شکار ہوتا ہے تو لکھنا تو درکنار اکثر اس کا ذہن کچھ سوچنے سے انکار کر دیتا ہے۔ جو لوگ خود راہ شہادت پر ذوق و شوق سے چلتے ہیں وہ بھی اپنے بچوں کی سلامتی کے متعلق فکر مند ہوتے ہیں۔ اولاد سے محبت کا یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو کسی نہ کسی انداز میں ہر انسان میں پایا جاتا ہے۔ وارث میر صاحب کی عدم موجودگی میں ایک مرتبہ ان کے ڈرائنگ روم میں حامد سے قدرے تفصیلی گپ شپ ہوئی۔ وہ بہت پرجوش تھا۔ مجھے یاد ہے کہ دوران گفتگو پاکستان کا تذکرہ ہوا تو وہ اپنی نشست سے اٹھ کر میرے پاس آ کر بیٹھ گیا اور سمجھانے لگا کہ پاکستان سے محبت کے تقاضے کیا ہیں۔ مجھے حامد میر میں مستقبل کا عظیم اخبار نویس تو نظر نہیں آیا، مگر میں یہ ضرور سمجھ گیا کہ اسے ”سمجھانا“ کم از کم میرے بس میں نہیں ہے۔ وارث میر صاحب اپنے دوسرے دوستوں کو بھی کہتے رہے کہ وہ حامد میر کو سمجھائیں کہ وہ صحافت سے دور رہے ۔ آج وارث میر زندہ ہوتے تو اپنی اس خواہش کے پورا نہ ہونے پر بہت خوش ہوتے۔
جیو نے جب ایک حساس ادارے اور اس کے سربراہ پر الزامات کی بارش شروع کی تو کچھ دیر بعد سوشل میڈیا اور دوسرے ذرائع ابلاغ پر کچھ لوگوں نے حامد میر کو ”غدار ابن غدار“ کہنا شروع کیا تو بے اختیار میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں سوچنے لگا کہ آخر ہم کب تک اپنے سے مختلف انداز میں سوچنے والوں پر غداری کے لیبل چسپاں کرتے رہیں گے۔ حامد میر اس وارث میر کا بیٹا ہے جس کی حب الوطنی پر شبہ کرنا گناہ کے مترادف ہوگا۔ سقوط ڈھاکہ کے وقت وارث میر کی سوچ عام دانشوروں سے مختلف تھی۔ وہ قومی امور میں سیاست اور جمہوریت کو موقع دینے پر یقین رکھتے تھے، مگر اس دور میں سیاسی معاملات کو فوجی طاقت سے حل کرنے کا نسخہ تجویز کرنے والے دانشور کوئی دوسری بات سننے کے لئے تیار نہیں تھے۔ پاکستانی فوج کو ایک خطرناک صورت حال میں ڈال دیا گیا تھا۔ سقوط ڈھاکہ کے سانحے کے بعد اندرا گاندھی نے ببانگ دہل کہا کہ اس نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے اور مسلمانوں سے ان کی ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ لے لیا ہے۔
آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ 1970ءمیں قومی سطح پر یہ غلطی ہوئی تھی کہ فوج کے ذریعے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کا غلط فیصلہ کیا گیا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن نے بنگلہ دیش کا نام اس وقت لینا شروع کیا تھا جب ڈھاکہ میں بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس کو ملتوی کرکے فوجی آپریشن شروع کیا گیا تھا۔ اس وقت جو لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ فوجی آپریشن کے ذریعے ملک کو بچا لیا گیا ہے، آج ان کی حب الوطنی پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس وقت جب وارث میر جیسے لوگ سیاسی حل کی ضرورت پر زور دیتے تھے تو انہیں باقاعدہ شک کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ وارث میر کی طرح حامد میر کے ساتھ بھی اختلاف کیا جا سکتا ہے، مگر ان کے اسلام اور پاکستانیت پر کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔
عامر میر جذباتی اور پرخلوص نوجوان ہے۔ اس نے تحقیقی و تفتیشی جرنلزم میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ اس سانحے پر جب جیو نے عامر میر سے رابطہ قائم کیا تو اس نے پاکستان کے ایک حساس ادارے اور اس کے سربراہ پر الزامات لگانے شروع کر دیئے۔ یہ ایک بھائی کا ردعمل تھا۔ ٹی وی پر اس کے غصے اور جذبات سے بھری ہوئی گفتگو سنتے ہوئے مجھے میوہسپتال کے اپنے ایک ڈاکٹر دوست یاد آ گئے جنہوں نے بتایا تھا کہ میڈیکل کے عملے کے لئے سب سے مشکل مرحلہ کسی مریض کے لواحقین کو یہ اطلاع دینا ہوتا ہے کہ ان کا عزیز اس جہان فانی سے کوچ کر گیا ہے۔ اکثر مریض کے لواحقین غم و غصے میں اطلاع دینے والے کی پٹائی شروع کر دیتے ہیں۔ حامد میر پر حملے کے واقعے پر عامر میر کے جذبات کو سمجھا جا سکتا ہے، مگر عامر میر کے بیان کی بنیاد پر آئی ایس آئی اور ان کے سربراہ کے خلاف جو مہم شروع ہوئی اس کی پاکستان کی صحافت میں مثال نہیں ملتی۔ کئی گھنٹے تک تصویر کے ساتھ حساس ادارے کے سربراہ پر الزامات کی بارش ہوتی رہی۔ ہمارے دوست شہزاد احمد اس پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ جب ممبئی کے دھماکے ہوئے تو اس وقت بھارتی میڈیا آئی ایس آئی پر الزام لگا رہا تھا، مگر اس وقت بھی آئی ایس آئی کے سربراہ کی تصویر کو اس انداز سے نہیں دکھایا جا رہا تھا۔ سوشل میڈیا پر اس کا بہت سخت ردعمل تھا۔ وہ لوگ جو حامد میر پر حملے پربہت دکھی تھے وہ بھی پاک فوج پر حملوں کو برداشت نہیں کر رہے تھے۔ کوئی الزام ثابت ہونے سے پہلے میڈیا ٹرائل ہو رہا تھا۔ بھارتی اور عالمی میڈیا کو ایسا مواد فراہم کیا جا رہا تھا جس کی بنیاد پر پاکستان اور اس کے ادارے سخت تنقید کی زد میں آ گئے تھے۔ 1940ءکے عشرے میں امریکی پریس کمیشن نے ایک نتیجہ اخذ کیا تھا کہ آزاد پریس ذمہ دار ہوتا ہے۔ اگر پریس ذمہ دار نہیں ہوگا تو وہ آزاد بھی نہیں رہے گا۔ میڈیا کی طاقت سے انکار ممکن نہیں ہے، مگر طاقت میڈیا میں نہیں ،بلکہ سچ میں ہوتی ہے اور اگر سچ آپ کے ساتھ نہ ہو تو آپ تیزی سے تنہا ہو جاتے ہیں۔ چند گھنٹوں بعد ہی متعلقہ ادارے کی انتظامیہ کو اندازہ ہو گیا کہ سوشل میڈیا پر خلق خدا کیا کہہ رہی ہے۔ اور دیگر چینل کس انداز سے کوریج کے انداز کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
پاکستان میں ہر شخص کو حامد میر پر قاتلانہ حملہ پر دکھ ہے، مگر ان کے ادارے نے معاملہ کو متنازعہ بنا دیا۔ اس نے ایک ایسی حکمت عملی اختیار کی تھی جسے بعد میں خود اسے تبدیل کرنا پڑا۔ برسوں سے پاکستان اور اس کے مستقبل پر مغرب میں بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ لارنس زائرنگ، سٹیفن پی کوہن جیسے دانشور مدتوں سے بری خبریں دے رہے ہیں، مگر پاکستان کی تباہی کے متعلق بہت سی پیشین گوئیوں نے پورا ہونے سے انکار کر دیا ہے۔
برطانوی صحافی اور ماہر تعلیم اناٹول لیویںنے اپنی حالیہ کتاب Pakistan Hard Country میں پاکستان کو نئے انداز سے دیکھا ہے۔ اسے بحرانوں کے باوجود اس ملک کی بقا نظر آ رہی ہے۔ اکثر مغربی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پاکستان اس وقت تک محفوظ ہے جب تک اس کی فوج مضبوط اور متحد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی طاقتوں نے فوج کے خلاف سازشوں کے انبار لگا دیئے ہیں۔ پاکستانی فوج ہمیشہ کانٹے کی طرح دشمنوں کو کھٹکتی رہی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان نے 1967ءکی عرب اسرائیل جنگ کے بعد سوربون یونیورسٹی پیرس میں یہودیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ”بین الاقوامی صیہونی تحریک کو کسی طرح بھی پاکستان کے بارے میں غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان دراصل ہمارا اصلی اور حقیقی نظریاتی جواب ہے۔ پاکستان کا دینی و فکری سرمایہ اور جنگی و عسکری قوت و کیفیت آگے چل کو کسی وقت بھی مصیبت کا باعث بن سکتی ہے۔ ہمیں اس کا حل سوچنا چاہیے۔ ہندوستان سے دوستی نہ صرف ہمارے لئے ضروری ہے ،مگر ہمیں اس تاریخی عناد سے فائدہ اٹھانا چاہیے جو ہندوپاکستان اور اس میں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف رکھتا ہے۔ تاریخی عناد ہمارا سرمایہ ہے لیکن ہماری سٹرٹیجی ایسی ہونی چاہیے کہ ہم بین الاقوامی دائروں کے ذریعے ہندوستان سے روابط رکھیں“۔ (یروشلم پوسٹ 19 اگست 1967ئ)
دنیا کے کسی ملک میں فوج اور اس کے اہم ادارے کو اس انداز سے تنقید کا نشانہ بنانے کی مثال نہیں ملتی۔ امریکی فوج کے ابوغریب سے لے کر افغانستان تک بے شمار سکینڈل بے نقاب ہوئے ہیں ،مگر مغربی میڈیا امریکی محکمہ دفاع پینٹا گان کی ان ہدایات پر سختی سے عمل کر رہا ہے کہ جنگ میں ہلاک یا زخمی ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد تو بتائی جاسکتی ہے۔ ان کے نام نہیں بتائے جاتے ۔ نہ ہی امریکی میڈیا ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تدفین کی کوریج کرتا ہے اور نہ ہی فوجیوں کے لواحقین کے انٹرویو نشر کئے جاتے ہیں۔ امریکی میڈیا سمجھتا ہے کہ اس سے دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما امریکی فوجیوں کے مورال پر اثر پڑے گا۔
امریکہ میں آزادی صحافت کو حقیقی طور پر آئینی تحفظ ہے، مگر امریکی میڈیا نے کبھی ان سرخ لکیروں کو عبور کرنے کی کوشش نہیں کی جو قومی مفاد کے مطابق غیر تحریری طور پر طے کر لی گئی ہیں۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی کے متعلق میڈیا پر جتنی بھی تحقیق ہوئی ہے اس سے عام طور پر یہی نتیجہ نکلا ہے کہ خارجہ امور میں امریکی میڈیا امریکی حکومت کی عمومی طور پر تائید کرتا ہے۔پاکستان میں فوج کے سیاست میں حصہ لینے کو پسند نہیں کیا جاتا،مگر پاکستانی قوم اس امر سے آگاہ ہے کہ مادر وطن کے لئے فوج جانوں کے کیسے کیسے نذرانے پیش کرتی رہی ہے۔ سوویت یونین کو افغانستان سے نکالنے میں آئی ایس آئی نے کیساتاریخی کردار ادا کیا تھا۔ سیلاب، زلزلے، قدرتی آفات میں فوجی جوان کس طرح اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر متاثرین کی خدمت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ وہ فوج ہے جس سے پاکستانی محبت کرتے ہیں۔ افراد سے غلطیاں ہو سکتی ہیں، مگر اداروں کے خلاف مہم نہیں چلانی چاہیے۔ پاکستان بھر میں حامد میر پر حملے کی مذمت کی جا رہی ہے اور ان کی جلد صحت یابی کے لئے خشوع و خضوع سے دعائیں کی جا رہی ہیں۔اور وزیراعظم میاں نواز شریف کی اس بات پر یقین کرنے کو دل چاہ رہا ہے کہ حامد میر پر حملے میں جو بھی ملوث ہوا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔پاکستان میں انصاف کو ایک اور موقعہ دینے سے انکار نہیں کرنا چاہیے؟

 

مزید :

کالم -