پاکستان میں کتب بینی کے رجحانات
عام طور پر کسی ملک کی ترقی کا معیار جانچنے کے لئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہاں تعلیمی نظام کیسا ہے اور کسی بھی تعلیمی نظام کو جانچنے کے لئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہاں کتنی لائبریریاں کام کر رہی ہیں اور کتنے لوگ اس سے استفادہ کر رہے ہیں؟ بدقسمتی سے یہ رجحان پاکستان میں بہت کم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پورے پاکستان میں جتنی کتابیں موجود ہیں، وہ امریکہ کی ایک یونیورسٹی لائبریری میں موجود ہیں۔ آج کل نئی نسل میں کتب بینی کا رجحان تقریبا ختم ہوتا جا رہا ہے، نوجوانوں اور نئی نسل کو چاہئے کہ وہ ہمارے اسلاف کے کارناموں سے واقفیت کے لئے قائداعظم محمد علی جناحؒ کے فرمودات ، علامہ اقبال کی شاعری، سرسید احمد خاں کی لکھی ہوئی تحریریں،مولانا شبلی نعمانی کے خیالات ، حالی کی شاعری ، مولانا عبدالماجد دریا بادی ،ڈاکٹر رشید احمد صدیقی، فراق گورکھ پوری، خواجہ احمد عباس ، اشفاق احمد، ممتاز مفتی ، بانو قدسیہ، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، جوش ملیح آبادی، احمد فراز، جون ایلیا، حبیب جالب، منیر نیازی، عطاء الحق قاسمی اور دیگر مشاہیر کے خطبات و کلام پڑھیں اور ان کے نظریات اور افکار کو عملی جامہ پہنائیں۔
یہ بات مسلمہ ہے کہ نئی نسل اگر دنیا کے بڑے بڑے مفکروں، دانشوروں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اور اپنے اندر وہ خصائل پیدا کرنا چاہتی ہے تو اسے کتب بینی میں دلچسپی لینا ہو گی۔ کتب بینی سے ذہن کے بند دریچے کھل جاتے ہیں، دنیا کو وسیع نظر سے دیکھنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بڑے بڑے ادیب ہمارے ہم قدم چل رہے ہیں۔ کتب بینی سے آدمی کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ کتب بینی سے انسانی دماغ کا کینوس وسیع سے وسیع تر ہو جاتا ہے اور اس پر ہم انواع و اقسام کی نت نئی تصاویر پینٹ کر سکتے ہیں اور دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ پاکستان میں ادب اپنے پورے عروج سے پُھول پھل رہا ہے۔ کتب بینی سے انسان میں الفاظ کا ذخیرہ بھی بڑھ جاتا ہے اور وہ اس سے اپنے ما فی الضمیر کو جس طرح چاہے بیان کر سکتا ہے یہ ایک قدرتی تحفہ ہے۔ ہمیں کتب بینی کی عادت ڈالنی ہو گی تاکہ ایک بہتر اور سمجھ دار معاشرے کا وجود یقینی بنایا جا سکے۔
ہمیں چاہئے کہ بچوں کو لائبریری بھی لے جائیں۔ کہتے ہیں کہ لائبریری بچے کے دماغ کی بہترین میزبان ہوتی ہے۔ ڈھیر ساری کتابیں دیکھ کر بچہ خوش ہوتا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے مزاج اور پسند کے مطابق کتابوں کا انتخاب کر کے اپنی دماغی صلاحیتیں اجاگر کر سکتا ہے۔ بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں اور کتابیں قومی ترقی کی ضامن ۔۔۔ چنانچہ اپنے بچوں کی کتابوں سے دوستی کروا کر آپ نہ صرف انہیں زندگی میں ایک بہترین دوست عطا کریں گے، بلکہ ملک و قوم کی ترقی میں ممدومعاون بن جائیں گے۔ اچھی کتابیں انسان کو مہذب بناتی اور اس کی شخصیت کو وقار عطا کرتی ہیں۔کتاب بہت اچھی ہم نشین اور رفیق ہے۔ کتاب علم سے بھرا ہوا خزانہ اور دانش مندی سے بھرا ہوا پیمانہ ہے۔ کتاب فطرت کی بخشی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے ، عقل و شعور کی صحیح طور پر راہنمائی کرنے اور انہیں پروان چڑھانے کا نہایت موثر ذریعہ ہے۔ اس سے انسان معراج کمال پاتا ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے خود کتاب کی اہمیت کم کر دی ہے۔
ہم اپنے دوستوں اور بچوں کو ایک سے ایک قیمتی تحفہ دیتے ہیں، لیکن کتاب نہیں دیتے۔ ہمیں چاہئے کہ تحفے میں بچوں اور دوستوں کو کتابیں دیں تاکہ معاشرے میں کتاب پڑھنے کا شوق پیدا ہو ۔ اس لئے کہ معاشرے اور کتابوں میں ہم آہنگی ہونی چاہئے۔ کتاب ہی معاشرے کو باشعور بنانے اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ آج کے طالب علم صرف اپنی تعلیم پیشہ ورانہ کورسز تک محدود رکھتے ہیں، وہ صرف کورس کی کتابوں کو پڑھ لیتے ہیں، اس کے بعد دوسری معلوماتی یامذہبی کتابوں کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے، جس سے ان کی ذہنی استعداد محدود رہتی ہے۔کتب بینی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے سب سے پہلے اخبار، رسالے یا پھر کتابیں خرید کر پڑھیں۔ ہر محلے میں ایک مختصر سی سہی لائبریری کا قیام عمل میں لایا جانا چاہئے، جہاں اردو، انگریزی اور عربی کی ابتدائی کتابیں میسر ہوں، پبلشروں کو چاہئے کہ اپنے بزرگوں کی بہادری، انصاف اور رواداری پر مشتمل کتابیں شائع کریں تاکہ نوجوانوں اور بچوں میں کتب بینی کا شوق پیدا ہو۔
اس دن کی مناسبت سے دنیا بھر میں کتابوں کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے مختلف تقاریب کا اہتمام ہوتا ہے۔ کتابوں کی نمائشیں، سیمینار، سمپوزیم اور اسی طرح کے دوسرے فنکشن منعقد کر کے کتب بینی کے ذوق و شوق کو پروان چڑھانے کی بھرپور کوششیں کی جاتی ہیں۔ دور جدید میں اگرچہ مطالعہ کے نئے میڈیم متعارف ہو چکے ہیں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برکت سے علم کا حصول اور اطلاعات تک رسائی کے باب میں انقلاب برپا ہو چکا ہے، مگر کتاب کی دائمی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ قائم و دائم ہی نہیں، بلکہ اس میں حد درجہ اضافہ ہو رہا ہے۔ دُنیا بھر میں کتابوں کی اشاعت اور کتب بینی کے شائقین کی تعداد ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ لاکھوں کتابیں زیور طباعت سے مزین ہو رہی ہیں ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ کتاب اور انسان کا رشتہ اتناہی قدیم ہے، جتنا کہ خود انسانی تہذیب و تمدن کا سفر اور علم و آگہی کی تاریخ۔ تہذیب کی روشنی اور تمدن کے اجالے سے جب انسانی ذہن کے دریچے بتدریج کھل گئے تو انسان کتاب کے وسیلے سے خودبخود ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو گیا۔ کتاب کی شکل میں اس کے ہاتھ وہ شاہی کلید آ گئی، جس نے اس کے سامنے علم و ہنر کے دروازے کھول دیئے۔
ستاروں پر کمندیں ڈالنے، سمندروں کی تہیں کھنگالنے اور پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنے کا شوق اس کے رگ و پے میں سرایت کر دیا گیا، جوں جوں یہ شوق پروان چڑھتا رہا، کتاب اس کے لئے ایک مجبوری بنتی گئی، کیونکہ یہ اسی کتاب کی کرامت تھی کہ انسان کے لئے مطالعے اور مشاہدے کے بل پر نئی منزلیں طے کرنا آسان ہوا۔ علم و فن نے اس کی ذہنی نشوونما، مادی آسائشیں اور انقلاب فکر و نظر کا سامان پیدا کیا۔ غرض کتاب شخصیت سازی کا ایک کارگر ذریعہ ہی نہیں،بلکہ زندہ قوموں کے کمال و عروج میں اس کی ہمسفر بن گئی۔ کتاب کی اس ابدی اہمیت کے پیشِ نظر زندہ قوموں کا شعار، بلکہ فطرت ثانیہ ہوتی ہے کہ وہ کتب خانوں کو بڑی قدرومنزلت دیتے ہیں۔ آج کے انفارمیشن و ٹیکنالوجی کے انقلابی دور میں امریکہ میں لائبریری آف کانگریس اور برطانیہ میں برٹش میوزیم لائبریری دو قوموں کے واسطے فکری اساس یا شہ رگ بنی ہوئی ہیں۔ یہی علم پرور ادارے ان کو خیالات کی نئی وسعتوں میں محو پرواز رکھتے ہیں، قوم و ملت کو تمام شعبہ ہائے زندگی میں منزل مقصود تک پہنچانے کے ضمن میں ان لائبریریوں کی کروڑوں کتابیں خاموشی سے راہبری اور رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔ ان قوموں کے باشعور عوام میں لائبریری تحریک کا ایک منظم سلسلہ بھی موجود ہے۔
پاکستان میں کتب بینی کے فروغ نہ پانے کی وجوہات میں کم شرح خواندگی، صارفین کی کم قوت خرید، حصول معلومات کے لئے موبائل، انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال، اچھی کتابوں کا کم ہوتا ہوا رجحان، حکومتی عدم سرپرستی اور لائبریریوں کے لئے مناسب وسائل کی عدم فراہمی کے علاوہ خاندان اور تعلیمی اداروں کی طرف سے کتب بینی کے فروغ کی کوششوں کا نہ ہونا بھی شامل ہے۔ کتب بینی کے فروغ کے لئے حکومت پاکستان اور حکومت پنجاب نے 23 اپریل 2015ء کو قومی یوم کتاب اور کاپی رائٹ ڈے کے موقع پر چھٹا قومی یومِ کتاب منانے کا فیصلہ کیا۔ قومی یوم کتاب کے حوالے سے راقم الحروف ڈائریکٹر جنرل پبلک لائبریریز پنجاب ڈاکٹر ظہیر احمد بابر نے قائداعظم لائبریری باغ جناح لاہور، پنجاب پبلک لائبریری، گورنمنٹ ماڈل ٹاؤن لائبریری، ڈائریکٹوریٹ آف پبلک لائبریریز پنجاب اور پنجاب لائبریری فاؤنڈیشن کے اشتراک سے مختلف پروگرام ترتیب دیئے ہیں جن میں بُک پریڈ، مشاعرہ، ویڈیو ڈسپلے ، تراجم، گول میز کانفرنس، تقریب رونمائی کتب اور نمائش کتب نمایاں ہیں۔
کتاب اور کتب خانوں کی افادیت اور اہمیت کو مہذب قوموں نے ہر دور میں تسلیم کیا ہے۔ عصر جدید کے اس اطلاعاتی دھماکے میں کتاب کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ حکومت پنجاب کتاب کی ترویج و ترقی کے لئے ملک میں کتب خانوں کا جال پھیلا رہی ہے ۔ اس سلسلے میں لاہور میں بھی مختلف پارکوں میں لائبریریوں کے قیام کی تجویز ہے۔ لائبریریوں کی ترقی و ترویج اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک ملک میں اس کے لئے باقاعدہ قانون موجود نہ ہو۔ کتب بینی کے رجحان میں اضافہ کرنے کے لئے حکومت کو چاہئے کہ پورے پاکستان میں لائبریریوں سے متعلق قانون سازی کرتے ہوئے تمام کارپوریشنوں، میونسپل کمیٹیوں، ضلع کونسلوں اور یونین کونسلوں تک کو ہدایت کرے کہ وہ اپنی آمدنی کاکم از کم 3فیصد لائبریریوں کی ترویج و ترقی پر صرف کریں اور لائبریری میں کام کرنے والے سٹاف کے لئے سروس سٹرکچر و سروس رولز بنائے جائیں۔