کمیشن کی تشکیل کے لئے پیش رفت

کمیشن کی تشکیل کے لئے پیش رفت
کمیشن کی تشکیل کے لئے پیش رفت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیراعظم نواز شریف کی لندن سے آمد کے ساتھ ہی وہ افواہیں بھی دم توڑ گئیں جن کے مطابق انہیں ایک ڈیڑھ ماہ بعد وطن واپس آنا تھا۔ افواہ سازی کے اس کارخانے میں یہ افواہ بھی زوروں پر تھی کہ شاید وہ وطن ہی واپس نہ آئیں۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی کابینہ کے ایک اہم وزیر، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے یہ کہہ کر تو سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا کہ وزیراعظم جلد آنے والے نہیں، دیر لگ سکتی ہے ۔یہ دورانیہ انہوں نے قریباً ڈیڑھ ماہ بتایا جس سے ن لیگ کے چاہنے والوں کو حیرت بھی ہوئی اور پریشانی بھی اور اب وزیراعظم کی پاکستان آمد کے ساتھ ہی تمام ایسی افواہیں دم توڑ گئی ہیں جنہوں نے ملک میں ہیجان کی سی کیفیت پیدا کر رکھی تھی اور مقتدر حلقوں میں اس مسئلے کو لے کر گہری تشویش پائی جاتی تھی۔


وزیراعظم سے پہلے عمران خان بھی لندن یاترا کے بعد پاکستان پہنچے اور ایک بار پھر بیان بازی کا وہی سلسلہ شروع کر دیا جس کے لیے وہ مشہور ہیں۔ پہلے کی طرح اب بھی نواز شریف اُن کا ہدف ہیں۔ وہ ہر قیمت پر چاہتے ہیں کہ نواز شریف رخصت ہوں اور عنانِ اقتدار اُن کے پاس آ جائے۔ وہ وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہوں اور تبدیلی کا وہ نعرہ جو وہ کافی عرصہ سے لگا رہے ہیں۔ پورے پاکستان میں نافذ العمل ہو لیکن جب اس نعرے پر غور کرتے ہیں تو خیبر پختونخوا میں جہاں تحریک انصاف کی اپنی حکومت قائم ہے۔ ابھی تک ’’تبدیلی‘‘ کی کوئی واضح لہرنہیں چلی۔ کرپشن بھی ہو رہی ہے اور تبدیلی کے جس سفر کی بات عمران خان کرتے ہیں وہ بھی عملی طور پر کہیں نظر نہیں آ رہی۔ ترقیاتی منصوبے رکے ہوئے ہیں۔ اُن کے لیے مخصوص فنڈز بھی خزانوں میں پڑے ہیں۔ نوکریاں نہیں مل رہیں اور غربت و افلاس کا بھی وہی حال ہے جو سابقہ حکومتوں کے ادوار میں ہم دیکھا کرتے تھے۔ عمران خان، نواز شریف پر تنقید تو بہت کرتے ہیں۔ بطور اپوزیشن لیڈر یہ اُن کا حق بھی ہے لیکن بے جا تنقید نے انہیں کہیں کا نہیں رکھا۔ اُن کے فیصلے بھی مثبت نہیں ہوتے۔ اچھے لیڈر کی نشانی ہوتی ہے کہ وہ کوئی بھی فیصلہ سوچ سمجھ کے کرتا ہے لیکن شاید عمران خان کے ہاں سوچ کا فقدان ہے وہ فیصلہ پہلے کرتے ہیں، سوچتے بعد میں ہیں۔ اس حوالے سے کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ اسلام آباد دھرنے میں انہوں نے جتنے یوٹرن لیے اُس کی مثال کم از کم ہماری سیاسی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ حال ہی میں انہوں نے پاناما لیکس کو لے کر لاہور میں نواز شریف کے ذاتی گھر کے گھیراؤ کی بات کی اور اس پر بضد ہو گئے کہ نواز شریف کی لاہور والی اقامت گاہ پر یہ دھرنا ہر صورت ہو گا لیکن جیسے ہی وہ لندن سے واپس پاکستان لوٹے اور انہیں معلوم ہوا کہ دیگر سیاسی جماعتیں اس ’’گھیراؤ‘‘ کے لیے اُن کا ساتھ دینے پر راضی نہیں جن میں پیپلز پارٹی، ق لیگ اور اے این پی بھی شامل ہیں تو عمران خان کو باور کرنا پڑا کہ وہ اپنی جماعت کے کارکنوں کے ہمراہ جاتی عمرہ گئے تو انہیں زبردست طریقے سے منہ کی کھانی پڑے گی۔

اس شرمندگی سے بچنے کے لیے اسلام آباد میٹنگ میں اپنے رہنماؤں اور کارکنوں سے خطاب کے دوران بالآخر انہیں کہنا پڑا کہ انہوں نے ابھی تک جاتی عمرہ کے گھیراؤ یا وہاں جانے کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔ پیپلز پارٹی اور ق لیگ پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ وہ پانامہ لیکس کے حوالے سے شفاف تحقیقات ضرور چاہتی ہیں لیکن جاتی عمرہ کے گھیراؤ کے حق میں نہیں۔ ایسی صورت حال میں عمران خان خود کو تنہا محسوس کرنے لگے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر جاتی عمرہ کی طرف مارچ کرتے ہیں تو وہ اس ’’مارچ‘‘ میں اکیلے ہی ہوں گے اور سیاسی تنہائیاں اُن کا پیچھا کریں گی۔ شاید اُن کے دیگر سینئر ساتھیوں نے بھی یہی سیاسی مشورہ دیا ہو کہ بہتری اس میں ہے کہ جو بھی قدم اٹھایا جائے، سوچ سمجھ کر اٹھایا جائے ورنہ سیاسی تنہائی ہو گی اور ساتھ ساتھ سیاسی ناکامی بھی۔عمران خان چونکہ ابھی تک ڈی چوک کے دھرنے کی ناکامی کا صدمہ نہیں بھولے اسی لیے مزید صدمات سے بچنے کے لیے انہوں نے ایک ’’پوزیشن‘‘ لے لی ہے۔ یہ پوزیشن اگرچہ بہت ’’مشکوک‘‘ ہے لیکن پھر بھی کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اچھا ہی کیا۔ ورنہ نہ اِدھر کے رہتے نہ اُدھر کے۔ عزت بڑی چیز ہوتی ہے۔ ڈی چوک کے دھرنے کی طرح جاتی عمرہ میں بھی عزت گنوا دیتے تو کیا ہوتا؟


اب بحث یہ نہیں ہے کہ ’’جاتی عمرہ‘‘ میں کیا ہو گا؟ تحریک انصاف اُس کو فوکس کرتی ہے یا پاناما لیکس کو لے کر احتجاج کا کوئی اور راستہ ڈھونڈتی ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ نواز شریف کے لیے یہ ایک مشکل وقت ہے۔ نجی چینلز پر اس حوالے سے روز پروگرام ہو رہے ہیں۔ نواز شریف مخالف لوگ ٹاک شوز میں شامل ہو کر نواز شریف کے خلاف خوب اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ یہ آزاد میڈیا کا ہی کمال ہے کہ پرائم منسٹر کے خلاف اتنا کچھ کہا جا رہا ہے، ایسی لغو زبان استعمال ہو رہی ہے کسی بھی مہذب معاشرے میں جس کا تصور ممکن نہیں۔ کئی اصحاب کی جانب سے الزام ثابت ہونے سے پہلے ہی انہیں مجرم ٹھہرا دیا گیا ہے۔ تحقیقات سے پہلے یہ کہنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ سب کچھ درست ہے اور الزامات سچے ہیں۔آئین و قانون کے مطابق صرف الزامات کی بنیاد پر کسی کو مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دنیا بھر میں یہی قانونی و آئینی روایات ہیں۔ پاناما لیکس پر بہت شور اٹھا ہوا ہے۔ اب تو اپوزیشن کا یہ مطالبہ بھی پورا ہو گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی نگرانی میں کمیشن بنایا جائے۔ اب اپوزیشن نئے پینترے بدل رہی ہے۔

مزید :

کالم -