دہشت گرد۔۔۔افغانستان اور پاکستان کے مشترکہ دشمن

دہشت گرد۔۔۔افغانستان اور پاکستان کے مشترکہ دشمن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغان آرمی کے کور ہیڈ کوارٹر پر دہشت گردوں کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا ہے، انہوں نے اپنے بیان میں افغان سیکیورٹی فورسز اور برادر افغان قوم سے اظہار یکجہتی کیا۔آرمی چیف کا کہنا تھا دہشت گرد ہمارے مشترکہ دشمن ہیں اور ہم اُنہیں شکست دیں گے۔ دس جنگجوؤں نے افغان نیشنل آرمی کی وردیاں پہن کر مزار شریف میں واقع افغان فوج کے تربیتی کیمپ پر حملہ کیا تھا، سیکیورٹی کے لئے تعینات ایک فوجی نے جب حملہ آوروں میں سے ایک سے پوچھ گچھ کی تو اُس نے خود کو اڑا لیا،جبکہ گاڑی میں موجود دہشت گرد فوجی کیمپ کے اندرونی احاطے میں داخل ہو گئے، جہاں ان میں سے ایک گروپ نے مسجد میں نماز کی ادائیگی میں مصروف فوجیوں کو نشانہ بنایا، دوسرے گروہ نے کھانا کھانے کے مقام پر فوجی اہلکاروں پر فائرنگ کی، دس میں سے سات حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ دہشت گرد افغانستان اور پاکستان کے مشترکہ دشمن ہیں اور ہم انہیں شکست دیں گے۔ یہ عزم قابلِ ستائش ہے اور دہشت گردوں کا مقابلہ مل کر ہی پوری کامیابی سے کیا جا سکتا ہے۔پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کرنے والے افغانستان جا کر چُھپ جاتے ہیں ان کا طریق�ۂ واردات بھی کم و بیش یکساں ہے، مثلاً مزار شریف کے فوجی کیمپ پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں نے افغان فوج کی وردیاں پہن رکھی تھیں اور ایک مقام سے گزر کر جب دوسرے مقام پر پہنچے تو چیکنگ پرمامور اہلکار کو شک گزرا اِسی وجہ سے اُس نے افغان فوج کی وردی میں ملبوس اہلکار سے پوچھ گچھ شروع کر دی، جس کے بعد جنگجو نے خود کو اڑا لیا اور اُس کے باقی ساتھی دوسرے مقامات پر حملہ آور ہو گئے۔
پاکستان میں بھی اس سے ملتے جلتے انداز میں دہشت گردی کی وارداتیں ہو چکی ہیں، کئی بار ایسا ہوا کہ دہشت گرد سیکیوٹی اہلکاروں کی وردی پہن کر کسی مقام پر داخل ہو گئے اور ڈاج کر کے دہشت گردی کر ڈالی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دُنیا بھر میں دہشت گردوں کا طریقہۂ کار ملتا جلتا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افغانستان میں پاکستان دہشت گرد اکٹھے بیٹھ کر منصوبہ بندی کرتے ہوں۔ اس وجہ سے ان کا طریق کار یکساں ہے۔ اِس لئے محض کسی کو وردی میں دیکھ کر دھوکا نہیں کھانا چاہئے اور سیکیورٹی چیکنگ کے تقاضے بھی پورے کرنے چاہئیں،اِسی طرح اِس امر کا جائزہ بھی لینا چاہئے کہ سیکیورٹی کے لئے جو چیک پوسٹیں بنائی جائیں اُن میں تلاشی لینے والے اہلکار محفوظ بم پروف مقامات پر بیٹھیں اور جدید ترین طریقے سے ایسی سیکیورٹی چیکنگ ہو کہ اگر دہشت گرد عین چیکنگ کے دوران دھماکہ کر دے تو چیکنگ کرنے والے کو وہاں نقصان نہ ہو، افغانستان اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے ڈانڈے چونکہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے سرحد عبور کر کے آتے ہیں،اِس لئے بہت ضروری ہے کہ دونوں مُلک نہ صرف مل کر کارروائی کریں،بلکہ ایسی حکمتِ عملی بھی اپنائیں جس سے دونوں ممالک کی سیکیورٹی فورسز استفادہ کر سکیں۔
دونوں ممالک کے درمیان طویل دشوار سرحد واقع ہے اور افغانستان کے جو صوبے پاکستان کی سرحد سے ملحق ہیں وہاں دہشت گردوں نے اپنی کمین گاہیں بنا رکھی ہیں، اِس لئے جب تک دونوں مُلک مل کر اس عفریت کا مقابلہ نہیں کریں گے اُس وقت تک اِس پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ دونوں ممالک کے درمیان سفر کے لئے سفری دستاویزات کو ضروری قرار دیا جا چکا ہے، اب کوئی بھی شخص پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر نہ پاکستان میں داخل ہو سکتا ہے اور نہ ہی یہاں سے افغانستان جا سکتا ہے،اِس لئے سفری ضابطوں کو اگر سختی سے نافذ کیا جائے گا تو اس کا دونوں ممالک کو فائدہ ہو گا۔ حال ہی میں پاکستان کے مختلف شہروں میں دہشت گردی کی جو سنگین وارداتیں ہوئی ہیں اُن کے بارے میں ایسے ثبوت مل چکے ہیں کہ واردات کرنے والے افغانستان سے آئے اور طور خم کی سرحد پر اُنہیں ایسے لوگوں نے وصول کیا جو پشتو زبان بولتے تھے۔ پھر اِن سہولت کاروں کو اپنے ہاں ٹھہرایا اور اگلے روز اُس مقام تک بھی پہنچایا جہاں دھماکہ مقصود تھا یہ دھماکہ چار سدہ کی باچا خان یونیورسٹی میں کیا گیا تھا۔
افغانستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کے باہمی رابطوں کا سراغ ملتا ہے، اِسی لئے دونوں کے طریقِ واردات میں بھی یکسانیت ہے، اِن معلومات کی بنیاد پر جب بعض غیر ملکیوں سمیت ایسے لوگوں کے شناختی کارڈ بلاک کئے گئے جو پشتو بولتے تھے تو خیبرپختونخوا سے تعلق ر کھنے والے بعض سیاست دانوں نے اس پر احتجاج کیا اور پارلیمینٹ کے باہر بھوک ہڑتال بھی کی، لیکن انہیں ٹھنڈے دِل سے غور کرنا چاہئے تھا کہ مُلک کے کسی بھی حصے میں اگر دہشت گردی کی واردات ہوتی ہے تو اس کا تعلق کسی نہ کسی طرح ایسے لوگوں سے کیوں نکل آتا ہے، جو صوبہ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھتے اور پشتو زبان بولتے ہیں، لاہور میں دہشت گردی کی واردات کرنے والا بھی افغانستان سے آیا تھا اور اس کا مقامی سہولت کار بھی خیبرپختونخوا سے تعلق رکھتا تھا۔
پاکستان چونکہ خود دہشت گردی کا شکار ہے اور مزار شریف کے واقع سے ملتی جلتی وارداتیں پاکستان میں بھی ہو چکی ہیں مثال کے طور پر بڈھ بیر کے ایئر فورس کے کیمپ میں صبح کے وقت حملہ ہوا تھا، جب کیمپ میں رہائش پذیر لوگ فجر کی نماز ادا کر رہے تھے یا اس کی تیاری میں مصروف تھے، اِسی طرح غازی کے مقام پر ایک میس پر اُس وقت حملہ کیا گیا جب سیکیورٹی فورسز کے جوان کھانا کھا رہے تھے۔ ایسی ہی مماثلتیں مزار شریف پر حملے کے دوران نظر آئی ہیں اِس لئے اگر افغان اور پاکستانی حکام مل کر تفتیش کریں تو نہ صرف افغانستان میں وارداتیں کم ہو جائیں،بلکہ پاکستان بھی محفوظ ہو جائے،اِس لئے بہتر یہی ہے کہ دونوں مُلک متحد ہوکر کوئی ایسی سیکیورٹی فورس تشکیل دیں جو خصوصی طور پر دہشت گردوں کو ہدف بنائے، دونوں ممالک انٹیلی جنس معلومات کا بھی تبادلہ کریں اور مل کر کارروائی کریں تبھی کامیابی ممکن ہے۔

مزید :

اداریہ -