عالمی یوم’’ارتھ‘‘ ۔۔۔اور چند یادیں،ملکوں کی!
دنیا بھر میں کل ’’ارتھ ڈے‘‘ منایا گیا ، یہ یوم بھی اقوام متحدہ کی طرف سے متعین کردہ ہے اور اس سال اس کا موضوع خصوصی طور پر ماحولیات ہے اور یہ ماحول جسے خود انسانوں نے غیر فطری طریقے اختیار کرکے خراب کیا اور آج کے حالات میں دنیا بھر میں موسم میں بہت زیادہ تبدیلیاں آچکی ہیں، طوفانوں، آندھیوں، سیلابوں اور شدید برف باری کا سامنا ہے،گرمی کی شدت بڑھ رہی ہے اور سردموسم کی مدت کم ہو رہی ہے، سائنس دانوں کے مطابق اگر حالات سدھارے نہ گئے تو اس کرۂ ارض کو بچانے میں ناکام رہیں گے۔۔۔ذکر ماحول اور موسم کا ہوا توکہنے دیجئے کہ اللہ نے ہم پر کرم کیا ہے اور تپش سے کچھ عرصہ محفوظ رہنے کا اہتمام کردیاہے، صوبے اور ملک کے دوسرے حصوں میں بادل اورتیز ہواؤں کے ساتھ بارش اور بوندا باندی نے درجہ حرارت میں کم از کم چھ سے دس درجے تک کمی کردی اور اب ہمارے بھائیوں نے اسے خوشگوار موسم قرار دے دیا ہے۔ کہنے کی اجازت دیجئے کہ موسم کے اثرات انسانی مزاج پر بھی پڑتے ہیں، آج سیر صبح کے وقت بادل چھائے ہوئے تھے، اریب قریب کہیں بارش بھی تھی، ہوا ٹھنڈی تھی، وہیں چلنے میں بھی مزہ آرہا تھا، پھر وہ وقت بھی آیا جب ہم تیار ہو کر دفتر کے لئے نکلے تو باہر بوندا باندی جاری تھی، اس سے پہلے تیز چھینٹے پڑچکے اور ہوا بھی جھکڑ کی صورت میں چلی، یوں درخت بھی دھلے دھلے نظر آئے او ر موسم واقعی خوشگوار محسوس ہوا۔
جب ماحول میں ایسی تبدیلی ہو تو پھر مزاج اچھا نہ ہونے کی کوئی وجہ ہی نہیں، معمول کے مطابق باہر نکلے ، ٹیکسی کے لئے کوشش کی،ناکامی ہوئی، اتنے میں ہمارے ہمسائے آگئے اور انہوں نے موٹر سائیکل پر لفٹ دے کر مین وحدت روڈ کے بس سٹاپ پر پہنچا دیا، ٹھنڈی اور من بھاتی ہوا اور قطرہ قطرہ مینہ نے سماں باندھا ہوا تھا، اتنے میں پنجاب سپیڈ وبس آگئی، ہم عرض کردیں کہ صوبائی حکومت کی طرف سے دی گئی اس سہولت سے ہم بھرپور استفادہ کررہے ہیں، آنا جانا اسی بس سے ہے جو ٹھنڈی ہوتی ہے اور اطمینان سے پہنچا دیتی ہے جو فاصلہ بس سٹاپ سے دفتر یا دفتر سے گھر تک طے کرنا ہوتا ہے اس کے لئے رکشا سے مستفید ہوتے ہیں، کم کرائے میں سہولت سے سفر کرتے ہیں۔بتانا یہ مقصود تھا کہ ارتھ ڈے اور ماحولیات کے موضوع والے روز قدرت نے یہ سماں پیدا کردیا اور سورج کی تپش سے جھلسے لوگ شکر بجا لائے، اسی حوالے سے مزاج بھی متاثر ہوا اور ہمیں توکچھ پرانے کردار یاد آگئے، لکھنا تو سید فیصل صالح حیات کی گھر کو واپسی پرتھا لیکن قدرت اللہ چودھری صاحب نے موقع پاکر قریباً سب کچھ لکھ دیا، ہمیں اب انتظار کرنا ہوگا کہ سب کچھ تو نہیں لکھا گیا، ہماری پٹاری میں بھی کچھ ہے، انشاء اللہ بتادیں گے۔
آج تو ہمیں اپنے اس شہر کے دو ملک یاد آرہے ہیں، ملک غلام نبی تو مہاجر اور امرتسر سے تشریف لائے تھے، جبکہ ملک محمد اختر کا تعلق پرانے شہر لاہور سے تھا، دونوں ہی پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے، 70 کی دہائی والے انتخابات میں صوبائی اور قومی اسمبلی میں منتخب ہو کر اقتدار مل جانے پرصوبائی وزیر تعلیم اور وفاقی وزیر قانون ہوئے۔ یہ یاد رہے کہ ہر دو کا پہلا تعلق مسلم لیگ ہی سے تھا کہ قیام پاکستان سے پہلے اور بعد ہر ایک مسلم لیگی ہی تو خاندان تھا، یوں ہم بھی خاندانی طور پر مسلم لیگی ہیں کہ ہمارے والد بزرگوار نے مسلم لیگ نیشنل گارڈ میں شامل ہوکر تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا تھا، ذکر دو ملک صاحبان کا تھا، ملک غلام نبی بہت کھلے ڈلے تھے اور بے باک گفتگو ہی نہ کرتے، بلکہ موچی دروازہ اور گوالمنڈی کی زبان بھی بولتے تھے، ذوالفقار علی بھٹو سے شکایت کی گئی تھی کہ وہ گالیاں دیتے ہیں۔ یہ مشہور ہے کہ بھٹو صاحب نے ایک محفل میں ملک غلام نبی سے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے؟ تو وہ برجستہ بولے:کون۔۔۔۔۔۔ کہتا ہے، اسے سامنے لائیں، اس پر بہت زور دار قہقہہ پڑا، ان ملک صاحب کا ایک واقعہ تو ہماری آنکھوں کے سامنے کا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں ان کا چیمبر تھا، ہم بھی گپ شپ کے لئے چلے جاتے تھے۔ ایک روز وہ ملنے والوں کو نمٹا رہے تھے۔ اطلاع ملی کہ باہر طالب علم احتجاج کر رہے اور وہ ان (وزیر تعلیم) سے ملنا چاہتے ہیں۔ ملک غلام نبی نے کہا! بُلا لو! نوجوان طالب علموں کا ایک وفد آ گیا، سلام دعا کے بعد ملک صاحب نے ان کے مطالبات پوچھے، نوجوان پُرجوش تھے، وہ مطالبے دہراتے رہے۔ ملک غلام نبی نے ان کی بعض باتوں کو درست قرار دیا اور بعض کے حوالے سے صاف صاف کہہ دیا کہ ایسا نہیں ہو سکتا، نوجوان ذرا زور سے بولے،ملک صاحب نے ان کو تحمل کے لئے کہا کہ سچ کہا ہے تو ایسا نہ کریں، جب وہ بولتے چلے گئے تو ملک صاحب یکایک کھڑے ہوگئے اور اچانک ایک ایسی حرکت کی کہ ہم سب ہکا بکا رہ گئے۔۔۔ہم لکھ نہیں سکتے، تہذیب اجازت نہیں دیتی، خود یہ سمجھئے اور الجھئے ویسے جو آپ نے سوچا وہ غلط ہے، اس کے الٹ ہوا تھا طلباء پریشان ہو گئے اور مطالبات ہی بھول گئے، اس کے بعد ملک غلام نبی نے تحمل کے ساتھ ان سے کہا کہ’’ہم جو بھی معقول بات ہے، مان لیں گے، بلکہ جانئے کہ مان لی گئی، اب غیر معقول یا بے قاعدہ مطالبے کو آپ ترک کر دیجئے، یوں فریقین میں معاہدہ طے پا گیا۔
ملک اختر شہر دار تھے، س کو ش بولتے تھے۔ اسمبلی جانے تو شپیکر شر کہہ کر بات کا آغاز کرتے اور اراکین محظوظ ہوتے تھے۔ وہ پہلے وزیر تھے جنہوں نے وزارتی پروٹوکول خوب خوب انجوائے کیا، پورے لاہور میں جب بھی گاڑی کے ہوٹر کی آواز آتی تو لوگ پکارتے ملک اختر آ گئے،انہوں نے یہ ہوٹر خوب خوب انجوائے کیا تھا، ان کے بعد 2002ء والی کابینہ میں سینیٹراور وزیر دفاع راؤ سکندر اقبال(مرحوم) نے یہ ہوٹر بازی کی اور بڑا پروٹوکول لیا اور شہر میں دھوم مچائے ر کھی، تب دونوں حضرات کے اس عمل کو اچھا نہیں جانا جاتا تھا اور شہری پریشانی کا اظہار کرتے تھے، یہ 1976ء دسمبر یا پھر جنوری1977ء کا واقعہ ہے۔ ایک روز ہم لاہور میونسپل کارپوریشن کے ایڈمنسٹریٹر سعید احمد(مرحوم) کے پاس بیٹھے تھے کہ ہوٹروں کی گونج میں ملک محمد اختر وفاقی وزیر قانون تشریف لے آئے، انہوں نے بعض ترقیاتی کام کروانا تھے، ہم نے موقع سے فائدہ اٹھا کر پوچھا:’’ملک صاحب! الیکشن کب کروا رہے ہیں، جواب تھا ہم کوئی بیوقوف ہیں کہ ایسا کریں۔ ایک الیکشن ہوا ملک دو ٹکڑے ہو گیا، اب عام انتخابات کرا کے کچھ اور کرانا مقصود ہے؟ اور پھر یہ سچ ہوا، بھٹو نے انتخابات کرائے اور پیپلزپارٹی کا اقتدار ختم ہو گیا۔