سپریم کورٹ کا فیصلہ اور منقسم رائے!
سپریم کورٹ کی طرف سے پاناما لیکس کا فیصلہ سنایا جا چکا اور اس کی اس قدر جگالی ہو چکی کہ اب اس کو مزید چبائے جانا بے وقوفی ہو گی، تاہم پچھلے دِنوں میرے ذہن میں ایک لفظ ’’کاش!‘‘ بار بار ابھر اور بار بار ڈوبا۔ میری آرزو تھی کہ یہ فیصلہ اتفاق رائے سے ہوتا۔ اگر تین جج صاحبان نے اپنا وزن ایک پلڑے میں ڈال دیا تھا تو باقی دو فاضل جج صاحبان کو بھی چاہئے تھا کہ وہ قومی یکجہتی کے وسیع تر مفاد کی خاطر اور سٹرٹیجک مضمرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی ذاتی رائے ضرور دیتے،لیکن آخر میں وہی استدلال کرتے جو باقی تین ججوں نے کیا تھا۔ اس طرح جو جے آئی ٹی بنتی،کسی حتمی فیصلے کا سارا بوجھ اسی پر آتا اور رائے عامہ تقسیم ہونے سے بچ جاتی۔ اتنے حساس اور اہم فیصلے کا ’’منقسم‘‘ ہو جانا میرے نزدیک پاکستانی عوام کے مستقبل کے لئے کوئی نیک فال نہیں تھی۔۔۔اس کے برعکس دوسری صورت یہ تھی کہ جسٹس کھوسہ اور جسٹس گلزار نے جو آخری نتیجہ نکالا اور استدلال کیا تھا، باقی تین جج صاحبان بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے اور کہتے کہ نواز شریف کو چلے جانا چاہئے۔ ایسی صورت میں یہی ہوتا ناں کہ مسلم لیگ(ن) اپنے میں سے کسی دوسرے رکن اسمبلی کو وزیراعظم چُن لیتی جو عین آئینی بات ہے۔ حکومت تو بچ جاتی اور جیسا کہ ہمارے ہاں اکثر ہوتا رہا ہے،آج کا فاتح کل کا مفتوح بن جاتا ہے اور آج کا مغلوب کل کا غالب بن کے سامنے آ جاتا ہے۔ جب نواز شریف کو جدہ بھیج دیا گیا تھا تو کسے معلوم تھا کہ وہ پھر آ کر ایک بڑا مینڈیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور ان سے بھی پہلے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ اگر 17اگست1988ء کا حادثہ رونما نہ ہوتا اور C-130 میں رکھی آموں کی پیٹی نہ ’’پھٹتی‘‘ تو کسے خبر تھی کہ بے نظیر بھٹو اپنے والد کی کرسی سنبھالنے میں کامیاب ہو جاتیں ! اسی لئے کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی بھی چیز حرفِ آخر تصور نہیں کی جاتی۔ سیاسی آفتاب اِدھر ڈوبتے ہیں تو اُدھر طلوع ہو جاتے ہیں۔ یہ کوئی ایسی انہونی بات نہیں ہوتی۔
تاہم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور پاناما لیکس کے مقدموں کو دو برابر پلڑوں میں نہیں رکھا جا سکتا۔ دونوں ترازو مختلف تھے اور دونوں پلڑے بھی مختلف تھے۔ میرے نزدیک 20اپریل کا یہ ’’منقسم‘‘ فیصلہ پاکستان کے مستقبل کے لئے کوئی نیک شگون نہیں کہا جا سکتا۔ جسٹس کھوسہ نے540 صفحات پر مشتمل اِس فیصلے میں جو اختلافی نوٹ لکھا ہے، وہ 192صفحات پر مشتمل ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان کا استدلال اور ان کی رائے کل فیصلے کا 40فیصد حصہ کہی جا سکتی ہے۔ حزبِ اختلاف اس استدلال کو لے کر جب اگلے الیکشن میں جائے گی تو یہ منقسم فیصلہ2018ء کے انتخابی نتائج کو اور بھی منقسم کر دے گا۔اگرچہ اس تقسیم کو جمہوریت کا حسن بھی قرار دیا جا سکتا ہے،لیکن اس ’’حسن‘‘ کو دیکھتے دیکھتے اور بھگتتے بھگتتے ہم پاکستانیوں کو70برس ہو چکے ہیں اور پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔۔۔ کاش اس فیصلے کے بعد پاکستانیوں کی چوتھی نسل تو ایسی ہوتی جو کہہ سکتی کہ پاکستان کی آبادی کی غالب اکثریت کا ارمان بھی ایک ہے اور امیدیں بھی یکساں ہیں۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اِس لحاظ سے بھی تاریخی قرار پائے گا کہ اس کی رد سے پاکستانی عوام کی رائے اس قدر منقسم کر دی گئی اور عوامی آدرش اس کے نتیجے میں ایسی تفریق و انتشار کا شکار ہو گیا کہ اب اس کو قومی امنگوں کا ترجمان بنانے کے لئے کسی ایسے مسیحا کی ضرورت ہو گی جس کا ظہور جلد نہیں ہوا کرتا۔ کئی بار میرے ذہن میں یہ خیال بھی آیا کہ کاش نواز شریف رضا کارانہ مستعفی ہو جاتے اور الیکشن اس شرط پر لڑتے کہ چونکہ عدالت کے فیصلے نے ان کو نااہل قرار نہیں دیا اور وہ اب بھی صادق اور امین ہیں اور اُس وقت تک رہیں گے جب تک 2018ء کا الیکشن ان کو کلیتاً مسترد نہیں کرتا۔ اگر 2018ء کے الیکشن میں ان کی پارٹی جیت جاتی ہے تو ان کی اُس نااہلیت کا ایک مضبوط بطلان سامنے آ جاتا ہے جو دو ججوں کے اختلافی نوٹس نے پیدا کر دیا ہے۔
اس فیصلے کے منفی اثرات میں ایک اثر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عدلیہ اور فوج کے بارے میں رائے عامہ ایک بار پھر منفی موڑ لے سکتی ہے۔ اس کے آثار ابھی سے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ عدلیہ کا نظریۂ ضرورت والا عقیدہ ایک بار پھر سامنے آ رہا ہے اور فوج کو متنازعہ بنانے کی روش کا احیاء بھی ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے۔ اعتزاز احسن نے برملا یہ کہہ دیا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی وزیر مملکت مریم اورنگزیب کے قریبی رشتے دار ہیں،اِس لئے آئی ایس آئی کی طرف سے جی آئی ٹی کے لئے جو آفیسر نامزد کیا جائے گا،اس کی نامزدگی شفاف تصور نہ کرنے کی وجوہات ظاہر و باہر ہوں گی۔ جب ڈان ٹی وی کے ٹاک شو میں اینکر نے اعتزاز احسن کو کہا کہ فوج کی غیر جانبداری کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے تو اس کے جواب میں اعتزاز احسن کا یہ فقرہ میرے اُسی شک کا غماز تھا جس کا ذکر مَیں نے سطور بالا میں کیا اور کہا ہے کہ فوج کو متنازعہ بنانے کی روش کا احیاء پھر سے ہونے کا اندیشہ ہے۔اعتزاز احسن نے اینکر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور کہا:’’آپ کس دُنیا میں رہ رہے ہیں؟۔۔۔ مفادات کے تصادم کا نام آپ نے بھی سنا ہے؟‘‘۔۔۔ اور پھر اگلے ہی سانس میں یہ اضافہ بھی کیا کہ:’’ڈی جی آئی ایس پی آر گزشتہ 24گھنٹوں سے میری کردار کشی کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں(اپنے ٹویٹ میں) کہ مَیں غلط ہوں اور افواجِ پاکستان کی Integrity پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔اگر وہ سچے ہیں تو مجھے جھوٹا ثابت کرنے کے لئے اِس بات کی تردید کریں کہ مریم اورنگزیب، ڈی جی آئی ایس آئی کی قریبی رشتہ دار نہیں!‘‘
اعتزاز احسن کے اِس بیان کے بعد جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی کی طرف سے جو نمائندہ بھی نامزد کیا جائے گا، اس کی غیر جانبداری پر مہر تصدیق ثبت کرنے میں مشکل پیش آئے گی۔ ہو سکتا ہے کہ آئی ایس آئی(یعنی فوج) اس جے آئی ٹی میں شمولیت ہی سے انکار کر دے کہ جب تک ڈی جی اور وزیر اطلاعات اپنے عہدوں پر متمکن رہیں گے ’’متصادم مفادات‘‘ کی صورتِ حال باقی رہے گی!۔۔۔جہاں تک نظریۂ ضرورت کے بعد عدلیہ کی ساکھ کے دوبارہ مجروح ہونے کا معاملہ ہے تو اس کا کھلا ثبوت بھی قوم کو مل چکا ہے۔ جب پاناما لیکس کیس چل چکا تھا اور فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا تو ان 57دِنوں میں فریقینِ مقدمہ (بالخصوص استغاثہ سے) بار بار پوچھا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کا جو فیصلہ بھی آیا کیا آپ اس سے متفق ہوں گے؟کسی ایک سیاست دان نے بھی یہ نہیں کہا تھا کہ اُسے سپریم کورٹ کے فیصلے پر کوئی اعتراض یا شک ہو گا۔
قارئین کو عمران خان، شیخ رشید اور سراج الحق کی درجنوں ایسی یقین دہانیاں یاد آ رہی ہوں گی کہ: ’’سپریم کورٹ کا فیصلہ جو بھی آئے گا، وہ منظور ہو گا! منظور ہو گا!! منظور ہو گا!!!‘‘۔۔۔لیکن ہفتے اور اتوار کی شب دادو(سندھ) میں پی ٹی آئی کے جلسے میں عمران خان اور شیخ رشید کی تقاریر آپ نے سنیں۔ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کے اعلان کے صرف55گھنٹے بعد(20اپریل دن کے دو بجے سے لے کر22اپریل رات کے 9بجے تک) ان سب لوگوں کے قبلے اور کعبے تبدیل نہیں ہو گئے؟۔۔۔ فیصلے کی قبولیت کی بار بار کی یقین دہانیوں کا یہ انجام کس بات کا غماز ہے؟ ابھی28اپریل کو پی ٹی آئی کا جو جلسہ اسلام آباد میں ہو گا اور جس میں مُلک کے ہر حصے سے لوگوں کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے اور اس کے بعد 30اپریل کو جو جلسہ کراچی میں ہونے جا رہا ہے، کیا اس کو انتظامیہ روک سکے گی؟ یہ وہی صورتِ حال ہو گی کہ سانپ کے منہ میں چھپکلی آ گئی ہے۔ اگر نگلتا ہے تو جان جاتی ہے اور اگلتا ہے تو آن جاتی ہے!۔۔۔یہی اندیشہ تھا جس کا ذکر مَیں نے سطور بالا میں کیا ہے کہ عدلیہ کے اس فیصلے نے پوری قوم کو منقسم کر دیا ہے اور مستقبل کو غیر یقینی کیفیت میں گرفتار کر دیا ہے۔ یہ صورتِ حال مُلک کی سلامتی اور یکجہتی کے لئے جتنی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے اس پر اگر قارئین کی رائے منقسم ہو تو پھر اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے!