دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول ،جو زندگی بدل سکتا ہے ۔۔۔ آٹھویں قسط

دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول ،جو زندگی بدل سکتا ہے ۔۔۔ آٹھویں ...
دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول ،جو زندگی بدل سکتا ہے ۔۔۔ آٹھویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میدان حشر

ہم دونوں ایک دفعہ پھر تیزی سے چل رہے تھے۔ عرش کی حدود سے نکلتے ہی ایک انتہائی گرم اور حبس زدہ ماحول سے واسطہ پڑا۔ لگتا تھا کہ سورج نو کروڑ میل سے سوا میل کے فاصلے پر آکر دہکنے لگا ہے۔ ہوا بالکل بند تھی۔ لوگ پسینے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ پانی کا نام و نشان نہ تھا۔ مجھ پر جام کوثر کا اثر تھا وگرنہ اس ماحول میں تو ایک لمحہ گزارنا ناممکن تھا۔ مگر میں دیکھ رہا تھا کہ ان گنت لوگ اسی ماحول میں بدحال گھوم رہے تھے۔ چہروں پر وحشت، آنکھوں میں خوف، بال خاک آلود، جسم پسینے سے شرابور، وجود مٹی سے اٹا ہوا، پاؤں میں چھالے اور ان چھالوں سے رستا ہوا خون اور پانی۔ یاس و ہراس کا یہ منظر میں نے زندگی میں پہلی دفعہ دیکھا تھا۔ ہر طرف افراتفری چھائی ہوئی تھی۔ ہر کسی کو اپنی پڑی ہوئی تھی۔ میری نظریں کسی ایسے شخص کو تلاش کررہی تھیں جسے میں جانتا ہوں۔ پہلی شخصیت جو مجھے نظر آئی وہ میرے اپنے استاد فرحان احمد کی تھی۔ انہوں نے دور سے مجھے دیکھا اور تیزی کے ساتھ میری نگاہوں سے اوجھل ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ میں نے صالح سے کہا:
’’انھیں روکو! یہ میرے استاد ہیں۔ میں ان سے بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول ،جو زندگی بدل سکتا ہے ۔۔۔ ساتویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مگر اس نے مجھے ان کی طرف بڑھنے سے روک دیا اورتاسف آمیز لہجے میں بولا:
’’دیکھو عبد اللہ! اپنے استاد کی رسوائی میں اور اضافہ مت کرو۔ اس وقت یہاں کوئی شخص اگر خوار و خراب ہورہا ہے تو سمجھ لو اس کے ساتھ عدل ہوچکا ہے۔ وہ خدائی کسوٹی پر کھوٹا سکہ نکلا، اسی لیے اس حال میں ہے۔‘‘
میں نے تڑپ کرکہا:
’’مگر ہم نے تو خداپرستی اور آخرت کی سوچ اور اخلاق کی ساری باتیں انہی سے سیکھی تھیں۔‘‘
’’سیکھی ہوں گی‘‘، صالح بے پروائی سے جواب دیتے ہوئے بولا:
’’مگر ان کا علم ان کی شخصیت نہیں بن سکا۔ دیکھو! خدا کے حضور کسی شخص کا فیصلہ اس کے علم کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ اس کے عمل، سیرت اور شخصیت کی بنیادی حیثیت ہوتی ہے۔ علم صرف اس لیے ہوتا ہے کہ شخصیت درست بنیادوں پر تعمیر ہوسکے۔ جب تعمیر ہی غلط ہو تو یہ علم نہیں سانپ ہے:
علم را برتن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود
(علم ظاہر تک رہے تو سانپ ہے اور دل میں اترجائے تو دوست بن جاتا ہے)
یہی تمھارے استاد کے ساتھ ہوا ہے۔ وہ ایک اچھے مصنف تھے۔ باتیں بھی اچھی کرتے تھے۔ مگر ان کی سیرت و کردار ان کی باتوں کے مطابق نہ تھی۔ درحقیقت تمھارے استاد سانپ پال رہے تھے۔ آج علم کے ان سانپوں نے انہیں ڈس لیا ہے۔ آج یہاں جب تم لوگوں کو دیکھو گے تو انہیں ان کے ظاہر اور ان کی باتوں کے مطابق نہیں پاؤ گے، بلکہ ان کی شخصیت ٹھیک ویسے ہی نظر آئے گی جیسا کہ وہ اندر سے تھے۔ یاد رکھو! خدا لوگوں کو ان کے ظاہر اور ان کی باتوں پر نہیں پرکھتا۔ وہ عمل اور شخصیت کو دیکھتا ہے۔ خاص کر اہل علم کا احتساب آج کے دن بہت سخت ہوگا۔ جو باتیں دوسرے لوگوں کے لیے عذر بن جائیں گی، عالم کے لیے نہیں بن سکیں گی۔‘‘
’’مگر انہوں نے بڑی قربانیاں دی تھیں۔‘‘، میں نے ہار نہ مانتے ہوئے کہا۔
’’ہاں مگر ان کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں مل گیا۔‘‘، صالح نے جواب دیتے ہوئے کہا:
’’علم کی غلطیاں معاف ہوسکتی ہیں، مگر شخصیت اور عمل کی کمزوری آج کے دن اسی حال میں پہنچائے گی جس میں تمھارے استاد مبتلا ہوئے ہیں۔ خیر ابھی تو یہ دن شروع ہوا ہے، دیکھو آخر تک کیا ہوتا ہے۔‘‘
میں صدمے کی حالت میں دیر تک گم سم کھڑا رہا۔ میں ایک یتیم شخص تھا جس کا کوئی رشتہ ناطہ نہ تھا۔ میرے لیے جو کچھ تھے وہ میرے استاد تھے۔ انہوں نے میری سرپرستی کی، مجھے علم سکھایا، میری شادی کروائی، اور زندگی میں ایک مقصد دیا۔ جو شخص میرے لیے باپ سے زیادہ مقدم تھا، اسے اس حال میں دیکھ کر مجھے ایک شاک (Shock) لگا تھا۔ میں اس کیفیت میں اپنے ماحول سے قطعاً لا تعلق ہوگیا۔
میرے سامنے ان گنت لوگ بھاگتے، دوڑتے، گرتے پڑتے چلے جارہے تھے۔ فضا میں شعلوں کے دہکنے کی آواز کے ساتھ لوگوں کے چیخنے چلانے، رونے پیٹنے اور آہ و زاری کرنے کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ لوگ ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ رہے تھے، گالیاں دے رہے تھے، لڑ جھگڑرہے تھے، الزام تراشی کررہے تھے، آپس میں گتھم گتھا تھے۔
کوئی سر پکڑ کے بیٹھا تھا۔ کوئی منہ پر خاک ڈال رہا تھا۔ کوئی چہرہ چھپارہا تھا۔ کوئی شرمندگی اٹھارہا تھا۔ کوئی پتھروں سے سر ٹکرارہا تھا۔ کوئی سینہ کوبی کررہا تھا۔ کوئی خود کو کوس رہا تھا۔ کوئی اپنے ماں باپ، بیوی بچوں، دوستوں اور لیڈروں کو اپنی اس تباہی کا ذمہ دار ٹھہراکر ان پر برس رہا تھا۔ ان سب کا مسئلہ ایک ہی تھا۔ قیامت کا دن آگیا اور ان کے پاس اس دن کی کوئی تیاری نہیں تھی۔ اب یہ کسی دوسرے کو الزام دیں یا خود کو برا بھلا کہیں، ماتم کریں یا صبر کا دامن تھامیں، اب کچھ نہیں بدل سکتا۔ اب تو صرف انتظار تھا۔ کائنات کے مالک کے ظہور کا۔ جس کے بعد حساب کتاب شروع ہونا تھا اور پورے عدل کے ساتھ ہر شخص کی قسمت کا فیصلہ کردیا جانا تھا۔
مگر میں اس سب سے بے خبر نجانے کتنی دیر تک اسی طرح گم سم کھڑا رہا۔ یکایک میرے بالکل قریب ایک آدمی چلایا:
’’ہائے۔۔۔ اس سے تو موت اچھی تھی۔ اس سے تو قبر کا گڑھا اچھا تھا۔‘‘
یہ چیخ نما آواز مجھے واپس اپنے ماحول میں لے آئی۔ لمحہ بھر میں میرے ذہن میں ابتد ا سے انتہا تک سب کچھ تازہ ہوگیا۔(جاری ہے)

دنیا میں تہلکہ مچانے والا مقبول ترین ناول ،جو زندگی بدل سکتا ہے ۔۔۔ نویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

(ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)