بادشاہ نے سال بھر کے اندر ہی اندر رازداری سے انتقام لینے کے لیے پوری طرح سامان جنگ تیار کر لیا۔ فہرست منگا کر دیکھی اور ہر کارخانے میں کوچ کا حکم بھیج دیا۔ آٹھویں دن خود سوارہو کر جب علاقہ پشاور میں پہنچا تو ایک پیر مرد کہنہ سال نے کہ غوری خاندان میں سے تھا اور بادشاہ کی صحبتوں میں بے تکلف۔ عرض کی کہ اس مہم میں تو جنگ عظیم کا سامان نظر آتا ہے مگر کھلتا نہیں کہ ارادہ کدھر کا ہے۔ بادشاہ نے ایک آہ سرد بھر کے کہا کہ اے مرد مسلم عجب ہے کہ اس سن و سال اور زیادہ تجربہ کے باوجود تیرا یہ سوال ہے۔ کیا اگلے برس کی شکست تجھے یاد نہیں کیا وہ صدمہ اسلام کی عزت کے لیے کچھ چھوٹا تیر ہے۔ پھر قبا کے بند کھولے اور کہا کہ دیکھ اس دن سے آج تک نہ میں نے کپڑے بدلے ہیں نہ حرم سرامیں بستر پر سویا ہوں۔ اس بوڑھے مرد نے دعائے خیر دی اور کہا کہ اگر یہ ارادہ ہے تو اب مصلحت وقت کے بموجب کام کرنا چاہئے یعنی جوسردار کہ غضب سلطانی میں دربار سے بند ہوئے ہیں انہیں پھر دربار میں بلا کر انعام دیجئے اور ترقی کے وعدوں سے ان کے دل بڑھائیے کہ جان لڑا کر پہلے داغ کو دھوئیں چنانچہ مشورہ قبول کیا گیا اور ملتان میں آخر چند مقام کئے دربار عام کرکے وہاں سب سرداروں کو بلایا اور یہ کہا کہ اے مسلمانو! گزشتہ سال میں جو داغ دامن اسلام پر آیا وہ سب پر روشن ہے۔ اور تدارک اس کا ہر مومن مسلمان پر واجب ہے۔ وہ لوگ اگلی ندامت کے سبب سے کچھ کہہ نہ سکے۔ مگر سب نے تلواروں پر ہاتھ رکھ کر سامنے سر جھکا دیئے۔ غرض وہاں سے مکمل اطمینان کے ساتھ روانہ ہو کر ل اہور پہنچا۔ اور قوائم الملک رکن الدین کو کہ تدبیر اور تقریر میں بے مثل تھا، ایلچی کرکے خط کے ساتھ دہلی روانہ کیا۔ خط کا مضمون یہ تھا کہ
’’میں بموجب حکم اپنے بڑے بھائی کے کہ وہ میرے باپ کی جگہ ہے اور خراسان سے پنجاب تک مسلمانوں کا بادشاہ ہے فوج لے کر اس طرف آتا ہوں، رائے پرتھی راج، کہ راجگان ہندوستان میں مہاراجہ ہے اسے لکھا جاتا ہے کہ اسلام کی اطاعت کرکے اتفاق کا طریقہ قائم کرے تاکہ خلق خدا کی آسائش میں خلل نہ پڑ جائے۔ ورنہ ملک خدا کا ہے اور حکم خدا کا ، تلوار دونوں کافیصلہ کرے گی۔‘‘
یہ مراسلہ راجہ کی نظر سے گزرا تو بہت پیچ و تاب کھایا اور خفاہو کر ادھر تو ایک جواب کہ پتھر اور لوہے سے سخت تھا لکھ کر روانہ کیا۔ اور ادھر راجگان ہندوستان کو جمع کرکے تین لاکھ راجپوتوں کا لشکر جن کی تلواروں سے خون ٹپکتا تھا۔ ہمراہ لے کر چلا۔ پہلے فتح کے بھروسے پر بہت سے راجہ بہادرانہ رفاقت کا دم بھرتے مدد کو آئے۔ سلطان شہاب الدین بھی ادھر سے آگے بڑھا نہر سرسوتی کو درمیان میں ڈال کر دونوں لشکر اتر پڑے۔
سینتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پرتھی راج نے اول ایک خط اس مضمون کا لکھا کہ:
’’میری اس فوج بے شمار کا حال سالار لشکر اسلام کو تو معلوم ہوا ہوگا مگر اس کے علاوہ اور بھی ہندوستان سے برابر فوجیں چلی آتی ہیں۔ ایک ایک راجپوت وہ منچلا بہادر ہے جس کی تلوار کی کابل و قندھار تک پناہ نہیں۔ یہ چند نامراد بھوکے افغان زادے جنہیں تو لوٹ کھسوٹ کا لالچ دے کر گھروں سے یہاں لایا ہے تجھے چاہئے کہ ان کی جوانی اور ان کے ماں باپ کے بڑھاپے پر رحم کرکے یہیں سے لوٹ جائے۔ ہمیں جوانمردی کی قسم ہے کہ پیچھا نہ کریں گے اور اگر یہ منظور نہیں تو دیکھ لے کہ آتشبازی کے سامان بے شمار ہیں۔ جنگی ہاتھی کچھ اوپر تین ہزار تک ہیں اگر اس تحریر پر خیال کیا توبہتر ہے ورنہ یاد رہے کہ ایک جاندار اس میدان سے جیتا لوٹ کر نہ جائے گا۔‘‘
سلطان شہاب الدین اس موقع پردھیما ہوا اور اس کے جواب میں مصلحتاً یہ لکھا کہ
’’راجہ نے جو نیک صلاح و مشورہ دیا۔ عین شفقت اورمہربانی ہے مگر سب پر ظاہر ہے کہ اس لشکر کشی میں مجھے کچھ اختیار نہیں بھائی کے حکم سے اس مہم کا بوجھ سر پرلیا ہے جب تک وہاں سے حکم نہ آئے میں کچھ نہیں کر سکتا۔ اس قدر مہلت ہو کہ وہاں سے جواب آجائے۔ البتہ اس وقت صلح اس عہد پر ہو جائے گی کہ ملک پنجاب مقام سرہند تک ہمارے پاس رہے۔ باقی کل ہندوستان تمہارا۔‘‘
جب یہ نرم جواب راجہ کے پاس پہنچا تو اہل دربار ہنسنے لگے اور لشکریوں میں فتح کی سی خوشیاں ہوگئیں بلکہ خوشی سے ڈیرے ڈیرے نے ناچ رنگ شروع کردی۔ یہاں شہاب الدین نے سر شام فوج کوکمر بندی کا حکم دے کر خیمے ڈیرے سب قائم رکھے اور راتوں رات کئی کوس کا چکر دے کر دریا پار اتر گیا۔ صبح کو راجہ کے لشکر میں ابھی کوئی بستر پر تھا کوئی اشنان کوگیا تھا کہ اچانک پہلو میں ایک بلائے ناگہانہ ظہور میں آئی۔ ہیبت سے سوتے جاگتے اچھل پڑے اور تمام فوج میں کھلبلی پڑ گئی۔ وہ لشکر بے شمار ایسا دریا تھا کہ ایک طرف کی ہل چل کی دوسری طرف خبر بھی نہ ہوتی تھی مگر راجہ نے اس وقت ہوش و حواس کو برقرار رکھا اور ذرا بھی نہ گھبرایا اور ایک فوج تیار کرے لشکر اسلام کے سامنے کی اور باقی لشکر انبوہ کو سمیٹ کرپھر میدان میں لا جمایا۔ ادھر شہاب الدین غوری نے فوج کے چار حصے کرکے چار سپہ سالاروں کے ماتحت قائم کر دیئے کہ باری باری سے جائیں اور اس لشکر کثیر کے مقابل میں جان لڑائیں۔ راجپوت بہادر بھی ا س میدان میں دائیں بائیں سے درست ہو کر اس خوبصورتی سے اور انتظام سے لڑکے کہ مسلمانوں کے دل چھوٹ چھوٹ ہوگئے۔ تب شہاب الدین بمصلحت وقت شکست کی صورت جیسی بنا کر پیچھے ہٹا۔ دشمن نے پیچھا کیا اور جب جمعیت لشکر ان کی بے انتظام ہوئی تو دوسرے غول سے تازہ دم حملہ کیا مگر جمعیت ہندوؤں کی بے شمار تھی اس لئے اس سے بھی مطلب حاصل نہ ہوا۔ جب ٹھیک دوپہر ہوئی تو رائے پرتھی راج ایک سو پچاس راجہ اور مہاراجہ کو لے کر ایک درخت کے سایہ میں آیا۔ سب نے تلواروں کے قبضوں پرہاتھ رکھ کر قسم کھائی اور ایک ایک پیالہ شربت پی، پان کا بیڑہ منہ میں، تلسی کی پتی زبان پر رکھ ، کیسر کے ٹیکے پیشانوں پر دئے۔ اور شہاب الدین بھی بارہ ہزار افغان لشکر خاص جن کے سروں پر فولادی خود جواہرات کے مرصع دہرے ہوئے تھے انہیں لے کر جلدروانہ ہوا۔ اوّل خود تاج شاہی اوتار کر کفن سر سے باندھا۔ پھر شمشیر اصفہانی گھسیٹ کر میان اس کا توڑ کر پھینک دیا ۔ بادشاہ کا یہ حال دیکھتے ہی سب نے اپنے اپنے خود،خورجیوں میں ڈال کر سروں پر کفن لپیٹ لئے اور تلواریں کھینچے، داڑھیاں منہ میں لئے۔ اس طرح جوش میں آکر نعرہ تکبیر بلند کرکے ایسا حملہ کیا کہ یا تواپنی جگہ جمے کھڑے تھے یا پب مارتے ہی خاص راجہ کے قلب لشکر میں جا کر دھواں دھار ہوگئے اور جو جو افغان سر لشکر ادھر ادھر لڑے رہے تھے وہ بھی دائیں بائیں زور دے کر دشمن پر گرے۔ ایسا گھمسان کا رن پڑا کہ دم کے دم میں ہزاروں کا کھیت رہا۔ اگرچہ راجپوت تلواروں نے بڑی ہمت کی اور بہادری کے خوب جوہر دکھائے مگر انجام کار شکست کھائی کھانڈے راؤ میدان جنگ میں بہادری کا حق ادا کرکے زندگی کے بوجھ سے سبکدوش ہوا۔
رائے پتھورا دریائے سرسوتی کے کنارے گرفتاربدست لشکر سلطانی ہو کر مارا گیا۔ دشمن کی تمام فوج پریشان ہوگئی اور فتح یاب سپاہی شام تک قتل و غارت میں ہاتھ رنگتے رہے۔ بادشاہ نے راتوں رات لاہور اور غزنی فتح نامہ روانہ کرکے اس کے دوسرے دن لشکر کا انتظام کیا اور آگے اجمیر کو روانہ ہوا۔ بعد ازاں اجمیر کو جو راجہ کا دارالسلطنت تھا فتح کرتا ہوا اس اطراف میں رعب بٹھاتا ہوا دہلی میں آیا مگر ادھر ہی کے جن راجاؤں نے بادشاہت تسلیم کی تو ان راجاؤں کو تاج بخشیاں کرتا، کچھ جگہ مسلمان حاکموں کو مقرر کرتا ہوا دہلی میں آکر اپنی طرف سے قطب الدین ایبک جو اس وقت فوج شاہی کا سردار اعظم تھا شہر میں نائب سلطنت کرکے دہلی سے لاہور اور لاہور سے غزنی پہنچا۔(جاری ہے)
انتالیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پٹھانوں کی تاریخ پر لکھی گئی کتب میں سے ’’تذکرہ‘‘ ایک منفرد اور جامع مگر سادہ زبان میں مکمل تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔خان روشن خان نے اسکا پہلا ایڈیشن 1980 میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب بعد ازاں پٹھانوں میں بے حد مقبول ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ پٹھان بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے آباو اجداد اسلام پسند تھے ۔ان کی تحقیق کے مطابق امہات المومنین میں سے حضرت صفیہؓ بھی پٹھان قوم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہودیت سے عیسایت اور پھر دین محمدیﷺ تک ایمان کاسفرکرنے والی اس شجاع ،حریت پسند اور حق گو قوم نے صدیوں تک اپنی شناخت پر آنچ نہیں آنے دی ۔ پٹھانوں کی تاریخ و تمدن پر خان روشن خان کی تحقیقی کتاب تذکرہ کے چیدہ چیدہ ابواب ڈیلی پاکستان آن لائن میں شائع کئے جارہے ہیں تاکہ نئی نسل اور اہل علم کو پٹھانوں کی اصلیت اور انکے مزاج کا ادراک ہوسکے۔