شیخوپورہ: 20 روز میں 10 خواتین قتل
سماج کے نام نہاد ٹھیکیداروں کی طرف سے بڑی ڈھٹائی سے کہا جاتا ہے کہ ہم معاشرتی اقتدار و احیاء کے تحفظ کے امین ہیں اور ہماری کوششوں سے معاشرہ بہتری اور بھلائی کی جانب گامزن ہے ، ارباب اختیار معاشرتی ترقی کے دعوؤں میں بے شرمی کی ساری حدیں پھلانگ کر بھی کہتے ہیں کہ معاشرہ مثبت سمت میں آگے بڑھ رہا ہے، نام نہاد اصلاح کا ر کہتے ہیں ہمارا یہ اٹھایا گیا ایشو فلاں فلاں مثبت تنائج مرتب کرنے کا سبب ثابت ہوا ہے اب سوال یہ ہے کہ ان دعوؤں اور بیانات کی حقیقت کیا موجودہ معاشرتی صورتحال سے کسی طرح مطابقت رکھتی بھی ہے یا بات فقط دکھلاوا اور طفل تسلیوں تک محدود ہے لہذاٰ حقائق نہایت خوفناک اور دل دہلادینے والے ہیں ، خصوصاً خواتین کے قتل کے بڑھتے واقعات تشویش کا دائرہ پھلانگ کر خوف اور عدم تحفظ کے فروغ تک جاپہنچے ہیں ، خواتین کا عزت و احترام پہلے ہی خال خال دکھائی دے رہا ہے اور اوپر سے خواتین کے بے دریغ قتل کے بڑھتے سفاکانہ واقعات معاشرے کی بے حسی اور لاقانونیت پروان چڑھنے کی دلیل ہیں اور حالت یہ ہے کہ اس قبیح جرم کی شرح گزرتے وقت کیساتھ ساتھ تیزی سے بڑھ رہی ہے، خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی غیر سیاسی تنظیموں کے اعداد و شمار بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے ارد گرد معاشرے میں پائے جانیوالے وہ ذہنی مریض جو خواتین کو عزت و توقیر دینے کی بجائے انہیں تذلیل کا نشانہ بنانا بہادری سمجھتے ہیں جو غیرت کا لیبل لگا کر قانون میں ہاتھ میں لیتے اور حواء کی بیٹیوں کو جان لیکر اپنی جھوٹی انا کو تسکین دیتے ہیں،فقط شیخوپورہ ہی کی بات کریں تو صورتحال انتہائی لرزہ خیز اور خوفناک ہے صرف رواں ماہ ہی پر اس حوالے سے نظر ڈالی جائے تو ماہ اپریل میں اب تک 10سے زائد خواتین کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، حالیہ چند نوں میں رونما ہونیوالے دلخراش واقعات کا مختصر احوال یہ ہے کہ تھانہ شرقپور کے علاقہ چک 23جنوبی میں پہلے شوہر سے طلاق لیکر دوسری جگہ پسند کی شادی کرنے کے واقعہ کے بعد شیخ اکبر نے اپنے بیٹوں اور سابقہ داماد سے ملکر اپنی بیٹی کو گلہ دبا کر ہلاک کردیا ، پتہ چلا کہ نصرت بی بی کی شادی 2014میں نوجوان تنویر سے ہوئی مگر گھریلو جھگڑوں کے باعث یہ شادی زیادہ دیر چل نہ سکی اور خاتون نے طلاق لیکر ڈھامکے کے رہائشی محبوب سے پسند کی شادی کرلی جس کی بناء پر خاتون کے اہلخانہ ناراض تھے جبکہ نوجوان محبوب کے مطابق اسکے سسر اکبر اور مطلوب وغیرہ نے میرے گھر پر دھاوا بول کر ہمیں تشدد کا نشانہ بنایا اور جان بچا کر بہن کے گھر پناہ لینے کی خاطر گئی مقتولہ کا پیچھا کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا،تاہم ذرائع نے یہ انکشاف کیا کہ نصرت بی بی کواکبر علی اور مطلوب وغیرہ نے نہیں بلکہ خود اسکے شوہرمحبوب نے قتل کیا ہے اور حقائق چھپانے کی خاطر الزام باپ بیٹے پر لگا کر خود مدعی بن گیا جبکہ مقتولہ اسکے ساتھ نہیں رہ رہی تھی بلکہ اسے وہ گزشتہ روز دارالامان لاہور سے لایا تھا جہاں وہ جان کے خطرہ کے باعث عدالتی حکم پر پناہ لئے ہوئے تھی، اسی طرح تھانہ فیکٹری ایریا کے علاقہ مدینہ کالونی میں 8 ماہ قبل شادی کرنے والے مبینہ ملزم عمران نے اپنی 19سالہ بیوی کلثوم پر تشدد کرنے کے بعد پھندہ لگاکر قتل کردیا اورواقعہ کو خود کو کشی کا رنگ دے دیا، ملزم کا بیوی سے اکثر جھگڑا رہتاجبکہ گزشتہ روز اس نے بیوی کو قتل کرکے پھندہ لگا کر خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کی جبکہتھانہ بھکھی کے علاقہ چونگی پھاٹک کے قریبی کھیتوں میں سفاک شوہر نے بیوی کو بہانے سے بلاکر تیزدھار آلہ سے شہہ رگ کاٹ کرفرار ہوگیا،خاتون کو زخمی ہسپتال میں منتقل کیا گیا لیکن وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان بحق ہوگئی، چونگی پھاٹک کی رہائشی مقتولہ نسیم بی بی کی شادی فاروق آباد کے رہایشی عباس نامی شخص کے ساتھ ہوئی جس کے بطن سے ایک بیٹے نے جنم لیا ملزم عباس کو یہ شبہ تھا کہ اسکی بیوی نسیم بی بی کاعلاقہ کے رہایشی کسی شخص سے ناجائز مراسم ہیں گزشتہ روز میکے آئی نسیم بی بی کو اس نے کھیتوں میں بلا کر شہہ رک کاٹ ڈالی، جوئیانوالہ کے علاقہ خانپور نہر چیچوں کی ملیاں پاور ہاوس کی جالیوں میں لڑکی کی نعش پھنس گئی جس کو دیکھتے ہی متعلقہ تھانہ کی پولیس کو اطلاع کردی گئی جنہوں نے نعش تحویل میں لے کر ضروری کاروائی کے لیے ڈیڈ ہاوس منتقل کردی جس کے قتل کی بابت یہ بات سامنے آئی کہ اسے بدچلنی کے شبہ میں اسکے سگے بھائی نے موت کے گھاٹ اتارا اور نعش نہر میں بہادی، اسی طرح تھانہ ہاؤسنگ کالونی کے علاقہ لاہور روڈ چوہدری ملزکے قریب سے 40سالہ خاتون کی نعش برآمدہوئی اطلاع ملنے پر ریسکیو 1122اہلکاروں نے تحویل میں لیکر ضروری کاروائی کے بعد نعش پولیس کے حوالے کردی، پتہ چلا کہ مذکورہ نعش فریاد نامی محنت کش کی بیوی جمیلہ بی بی کی ہے جو ساہوکی ملیاں کی رہائشی تھی جسے اسکے سوتیلے 17سالہ بیٹے اعجاز نے گولی مار کر ہلاک کیا اور فرار ہوگیا، تھانہ صفدر آباد کے علاقہ قلعہ میرزمان میں زندگی کی بازی ہار جانیوالی خاتون کے حوالے سے بھی کہا گیا کہ اس نے خود کشی کی ہے مگر یہ بات سامنے آنا کہ نوجوان جمشید جواں سالہ دوشیزہ کائنات ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور لومیرج کرنا چاہتے تھے اہلخانہ کے انکار پراس نے موت کو گلے لگالیا تاہم ایک ایسا معاشرہ جو غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کو بہادری تصور کرتا ہے ایسے میں ممکن ہے کہ کائناب بی بی بھی اسی جبر کا نشانہ بنی ہو اور پھر ہمیشہ کی طرح یہ جرم بھی کل کلاں نام نہاد عزت و غیرت کا شاخسانہ ثابت ہو البتہ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس سے شادی کے خواہش مند نوجوان جمشید نے بھی زہر نگل کر خود کشی کرلی جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ دوشیزہ اور نوجوان کی ہلاکت کی تفتیش جاری ہے کہ دونوں نے خود کشی کی یا انہیں قتل کیا گیا، خاتون کی ہلاکت کا یہ دیگر واقعہ یوں سامنے آیا کہ تھانہ صدر کے علاقہ عمونکے گاؤں کے قریبی گندم کے کھیت سے32سالہ نامعلوم خاتون کی تشدد نعش برآمدہوئی ،پولیس نے نعش کو ضروری کاروائی کے لیے مردہ خانہ منتقل کرنے کے بعد نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے ،ابتدائی اطلاعات کے مطابق مذکورہ نامعلوم خاتون کو تشدد کرکے قتل کیا گیااور نعش کھیتوں میں پھینک دی گئی، اسی طرح جنڈیالہ روڈ ریلوے پھاٹک کے قریب پٹری کراس کرنے والی نامعلوم خاتون ٹرین کی زد میں آکر جان بحق ہوگئی حادثہ کی اطلاع ملتے ہی ریسکیو1122کے اہلکار جائے حادثہ پر پہنچ گئے جنہوں نے نامعلوم خاتون کی ہلاکت کی تصدیق کرنے کے بعد نعش متعلقہ تھانہ کی پولیس کے حوالہ کردی مگر کہا یہ جارہا ہے کہ اگر اس واقعہ کو خودکشی کے ہٹ کر قتل کی نگاہ سے بھی دیکھا جائے تو چشم کشاء حقائق سامنے آنے کی توقع ہے ، ایک سفاکانہ واقعہ تھانہ صدر مریدکے کے نواحی گاؤں چوہے والی کے قریب بھی رونما ہوا جس میں دوسگی بہنوں کو انکے شوہروں نے گاڑی سے کچل ڈالا اور خواتین کو تڑپتا چھوڑ کر بچے گاڑی میں ڈال کر فرار ہوگئے واقعہ کے وقت دونوں سگی بہنوں کے ہمراہ انکے تین بچوں سمیت معمر ماں بھی موجود تھی جسے بھی دوبو ں بیٹیوں کی طرح شدید چوٹیں آئیں تاہم اہل علاقہ نے تینوں ماں بیٹیوں کو تشویشناک حالت میں تحصیل ہیڈ کوارٹرمریدکے منتقل کیا جوآخری اطلاعات تک شدید زخمی ہونے کے باعث ہسپتال ہی میں زیر علاج تھیں ، زخمی خواتین کے اہلخانہ کے مطابق سید خادم شاہ نے اپنی دونوں بیٹیوں مریم اورزینب کی شادی اپنی سالی کے دونوں بیٹوں فریاد اورگلفام سے کی جو حافظ آباد روڈ کی آبادی اجنیانوالہ میں اپنے شوہروں کے ہاں رہائش پذیر رہیں اور ایک بہن کے ہاں ایک اور دوسری کے ہاں دو بچے پیدا ہوئے مگر لڑائی جھگڑوں سے تنگ کر دونوں بہنیں تقریباپانچ سال قبل والدین کے ہاں لوٹ آئیں اور اس وقت سے وہ جیسے تیسے اپنے تینوں بچوں سمیت سر چھپائے بیٹھی تھیں کہ گزشتہ رات دونوں کے شوہر دیگر ساتھیوں کے ہمراہ آئے اور سسرالیوں کے ہا ں ہلہ بول دیااور گھر میں موجود افراد کو شدید تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے مریم کی چھ سالہ بیٹی فضیٰ اورزینب کی دونوں بچوں پانچ سالہ علی حسن اور تین سالہ بیٹی عائشہ کو زبردستی گاڑی میں ڈالکر لے جانے لگے جن کو روکنے کے لیے دونوں خواتین اور انکی معمر والدہ گاڑی کی طرف بھاگے تو مذکورہ ملزمان نے انہیں گاڑی کے نیچے کچل ڈالا اور بچوں کو لیکر فرار ہوگئے یہ واقعات یقیناًاجتماعی معاشرتی ضمیر جھنجھوڑنے کا ذریعہ ہیں مگر معاشرتی بے حسی کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ فیصل آباد روڈ کھاریانوالہ کے نواحی قصبہ لنگوال میں خاتون نے درخت پر چڑھ کر گلے میں پھندہ لگا کر خودکشی کرنے کی کوشش کی جو سادہ لوح ہونے کے باعث خود پر ہونیوالے ذہنی و جسمانی تشدد سے عاجز آچکی تھی بہرحال واقعہ کی اطلاع پا کر ریسکیو 1122 کے اہلکار موقع پر پہنچ گئے جنہوں نے خاتون کی خود کشی کی کوشش ناکام بنادی اور ایک دختر حوا ء کی جان جاتے جاتے بچی، بلاشبہ اخبارات و جرائد اور پرنٹ میڈیا کے توسط سے حکومتی شخصیات ، ارباب اختیار اور متعلقہ اداروں سمیت عام عوام تک بھی ایسے تمام دلخراش واقعات کی ساری خبریں پہنچتی ہیں مگر لگتا ہے ایسے واقعات کو کبھی سنجیدہ نہیں لیا گیا یہی وجہ ہے کہ خواتین کے قتل کے بڑھتے واقعات کی روک تھام کیلئے کوئی موثر حکمت عملی ابھی تک سامنے نہیں آئی، اکا دکا واقعات کو وقتی طور پر اٹھایا جاتا ہے اور پھر کچھ دیر کے شور وغل کے بعد تمام چیزیں منظر نامے سے اوجھل ہوتی چلی جاتی ہیں ، کہنے کو قوانین بھی موجود ہیں مگر عملدر�آمد کا فقدان پایا جاتا ہے، جس معاشرے میں ماؤں بہنوں بیٹیوں کی زندگیاں اپنے پرائی کسی سے محفوظ نہ ہوں وہ معاشرے نہ صرف اخلاقی تباہی کا شکار ہوتے ہیں بلکہ آگے بڑھنے کے راہیں بھی کھو بیٹھتے ہیں، صورتحال اس قدر تشویشناک ہے کہ غیرت کے نام پر خواتین کو قتل تو کردیا جاتا ہے مگر تحقیق تک کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی اور معاملہ فہمی کی بجائے قتل جیسے قبیح جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔