’’گلوکارمحمد رفیع ہر دو گھنٹے بعد کپڑے بدل لیتے ،وہ کسی تقریب اس لئے نہیں جاتے تھے کیونکہ ۔۔۔‘‘ سدا بہار گلوکار کی وہ باتیں جو انکے مداحوں کو دم بخود کردیں گی
لاہور(ایس چودھری) محمد رفیع کے گیتوں نے اک دنیا کو ابھی تک اپنی آواز کا دیوانہ بنا رکھا ہے ۔انہوں نے ریکارڈ سازپینتالیس سو سے زائد گیت گائے تھے جن میں فلمی گیت ،غزلیں،قوالیاں ،ٹھمریاں اورہرصنف کی گائیکی موجود تھی ۔محمد رفیع نے لاہور ریڈیو اسٹیشن سے گائیکی شروع کی تھی جو بعد ازاں انہیں تیرہ سال کی عمر میں بمبئی لے گئی ۔اونچی تان میں ان جیسا کوئی گلوکار ابھی تک پیدا نہیں ہوسکا۔محمد رفیع جتنے بڑے گلوکار تھے اس اعتبار سے ان کا شہرہ بلاشبہ بہت زیادہ ہے لیکن انکی ذاتی زندگی بارے شاید ہی کوئی جانتا ہوگا کہ وہ ذاتی طور کیسے انسان تھے ۔ان کی دو بیویاں تھیں ۔ان کی پہلی بیوی نے تقسیم پاکستان کے دوران بلوے میں اپنے والدین کو قتل ہوتے دیکھا تو وہ محمد رفیع کو پاکستان چلنے کا کہتی رہیں لیکن جب وہ نہ مانے تو طلاق لیکر لاہور آگئی تھیں ۔بعد میں محمد رفیع نے دوسری شادی کی ۔پہلی بیوی سے انکے دو اور دوسری بیوی سے پانچ بچے پیدا ہوئے ۔محمد رفیع نے اپنے ساتوں بچوں کو ایک ساتھ پالا ۔انکے بچے میڈیا سے بہت دور رہے جس کی وجہ سے ان کے مالی حالات بھی مثالی نہیں رہے ۔انکی ایک صاحبزادی نسرین رفیع کی شادی ان کے چچا زاد معراج احمد کے ساتھ انیس سو اکہتر میں ہوئی تھی۔نسرین رفیع نے ایک بار ہندی جریدے کو پہلی بار اپنے والد کی ان عادتوں سے آگاہ کیا تھا جو انتہائی حیران کن شخصیت کا تاثر پیدا کرتی ہیں ۔نسرین رفیع کا کہنا ہے کہ محمد رفیع کو نئے سوٹ پہننے کا بہت شوق تھا ۔وہ ڈریسنگ میں کافی وقت لگاتے تھے اور کوئی بھی سوٹ ایک گھنٹے سے زیادہ دیر تک نہیں پہنتے تھے ۔یہ ان کا شوق تھا ۔جس کی وجہ سے اگر انہیں کسی کی شادی میں جانا پڑجاتا تو وہ جاتے ہی جوڑے کو دعائیں دیتے اور اگلے پانچ منٹ میں واپس ہوجاتے تھے ۔کسی تقریب میں جانا ان کے لئے آسان نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ ایک ہی لباس میں گھنٹوں نہیں بیٹھ پاتے تھے ۔حالانکہ وہ بہت سادہ انسان تھے ۔انہیں شوگر ہوئی تو میٹھا کھانا نہیں چھوڑتے تھے،زندگی بھر نہ سگریٹ پیا نہ شراب۔اللہ پر بھروسہ کرتے تھے اور اکثر کہتے’’ جو اللہ کرتا ہے اچھا کرتا ہے‘‘ وہ کسی کو ناں نہیں کرسکتے تھے ۔کوئی مانگتا تو جیب میں ہاتھ ڈالتے اور جتنے پیسے ہاتھ آتے دے دیتے اور کہتے’’ یہ اسکا نصیب تھا‘‘
نسرین رفیع اپنے والد کی بے حد لاڈلی تھیں،ان کا کہنا ہے کہ محمد رفیع انتہائی نرم اور خدا ترس تھے۔ایک دن وہ گاڑی میں جارہے تھے کہ دیکھا ایک شخص انتہائی گرمی کی وجہ سے سڑک کنارے کھڑا ہے ،اسکے پیر ننگے ہیں اور گرمی کی تپش سے بچنے کے لئے وہ کبھی ایک پاوں اٹھاتا ہے تو کبھی دوسرا ،انہوں نے گاڑی رکوائی اور اپنے پیروں سے چپلیں اتار کر اس شخص کو دے دیں ۔ایک بار انہوں نے بمبئی کی سڑکوں پر گانے والے مجذوب خان مستانہ کو دیکھا تو اسے گاڑی میں بیٹھا کر گھر لے آئے ،اسکو غسل کرایا ،نئے کپڑے پہنائے اور کھانا کھلاکر اس کی کٹیا میں چھوڑ آئیے۔