کیا عثمان بزدار کے ساتھ چودھری سرور بھی جائیں گے؟

کیا عثمان بزدار کے ساتھ چودھری سرور بھی جائیں گے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کے استعفیٰ کے ساتھ ہی وفاقی کابینہ کے ردو بدل کے حکومتی فیصلے نے ملکی سیاست میں ایک نئی بحث کا بھی آغاز کر دیا ہے اور چہ میگوئیوں کا بازار گرم ہے،ہر ایک سیاست دان چاہے اس کا تعلق حکومتی جماعت سے ہو یا پھر اپوزیشن سے وہ موجودہ حکومتی فیصلے پر طبع آزمائی کرتا ہوانظر آتا ہے،کوئی اسے قابلِ تحسین تو کوئی اسے مزید اور بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ قراردے رہاہے ۔ حکومت کا موقف ہے کہ وزراء کی تبدیلی کا فیصلہ ان کی کارکردگی کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔اگر حکومت نے واقعی کارکردگی کی بنیاد پر وزراء کی تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے تو یہ پاکستانی سیاست میں یقیناًپہلی بار ہوا ہے کہ کسی بھی جمہوری حکومت نے اقتدار کے پہلے 9ماہ میں اپنے وزراء سے صرف اس بنیاد پر وزارتیں واپس لی ہوں کہ وہ وزارتی امور کی انجام دہی میں کماحقہ عہدہ برآ نہیں ہو سکے۔سیاسی پنڈتوں کے مطابق وزراء کی تبدیلی آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں بھی بہت جلد دیکھنے کو ملے گی اوراب تو یہ شبہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شاید اب وزیراعلیٰ پنجاب سردار محمد عثمان بزدارکے ساتھ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کو بھی تبدیل کردیا جائے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ سیاسی پنڈتوں کی دور اندیشی کس حد تک سچ ثابت ہوتی ہے یا پھر یہ باتیں اور افواہیں اسی طرح محض باتیں ہی رہیں گی؟تحریک انصاف کی حکومت شروع دن سے آج تک تنازعات کی زد میں ہے اس کی بہت ساری وجوہات میں سے بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ حکومتی کابینہ میں شامل افرادکا ایک دوسرے پر اعتماد کا فقدان ہے، جس کے باعث حکومت کے اندرونی مسائل کم ہونے کی بجائے ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید بڑھتے جارہے ہیں انہی بڑھتے ہوئے مسائل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم لیگ (ن)اور پاکستان پیپلز پارٹی کو نہ صرف ایک بار پھر سیاست چمکانے کا موقع مل رہا ہے،بلکہ وہ عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کسی حد تک کامیاب بھی ہورہے ہیں،اگر وزیراعظم عمران خان اسی طرح بڑھتے ہوئے عوامی مسائل کو حل کر نے کی بجائے لیت و لعل سے کام لیتے رہے تو یہ نہ صرف ان کا آخری اقتدار ہو گا، بلکہ شاید وہ اپنا حکومتی دورانیہ بھی پورا نہ کرسکیں ؟
سینئر سیاست دان مخدوم جاوید ہاشمی نے موجودہ سیاسی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ عمران خان چار ماہ کے دوران مستعفی ہوجائیں گے، کیونکہ وہ پارلیمانی نظام کے نہیں صدارتی نظام کے حامی ہیں اور ملکی تاریخ کی منفرد پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کا چہرہ نہیں بلکہ مشرف، پی پی اور (ق) لیگ کے چہرے نمایاں نظرآرہے ہیں سابق وزیر خزانہ اسد عمر کا استعفیٰ ایک دن کی بات نہیں، حفیظ شیخ آئی ایم ایف کا ملازم ہے،جو پاکستان کا ہی رہنے والانہیں ایک ایک کا نام لوں تو عمران خان کا مستقبل نظر آ جائے گا، آج جو خلفشار کابینہ میں ہے وہ قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے عمران خان چاہیں تو ایک منٹ میں اسمبلیاں تحلیل کرسکتے ہیں کچھ نادیدہ قوتوں کا اپنا ایجنڈہ ہوتا ہے،جو سیاست دانوں کو اقتدار دینا نہیں چاہتے،ان کا کہنا تھا کہ 90فیصد کابینہ عمران خان کو پسند نہیں کرتی، بلکہ نفرت کرتی ہے، کابینہ سازی بڑا عمل ہو تا ہے، لیکن ابھی تک پوری قوم مہنگائی کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے اور مشکل ترین حالات میں دو وقت کی روٹی بھی ان کے لئے مشکل ہو گئی ہے اور کاروبار ختم ہوچکے ہیں، جبکہ حالیہ بارشوں کی وجہ سے خوبصورت فصلیں تباہ ہو چکی ہیں شائد مجھے بھی گندم خرید کر کھانی پڑے۔
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بھی سینئر سیاست دان مخدوم جاوید ہاشمی کی طرح وزیراعظم عمران خان کے جلد مستعفی ہونے کی پیشین گوئی کردی ہے ان کا موقف ہے کہ حکومت نے بجلی، گیس ،میڈیسن ،پٹرولیم مصنوعات اور روز مرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کرکے غریبوں سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے، جس پر پیپلز پارٹی کی قیادت چپ نہیں بیٹھے گی اور بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں بھرپور احتجاج کرے گی ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ حکمران اپنی ناکامی کا سارا ملبہ سابق حکمرانوں پر ڈالنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ اب جنوبی پنجاب کی دو اہم سیاسی شخصیات نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کے مستعفی ہونے کی پیشین گوئی کردی ہے ،اب یہ کب پوری ہوگی ،اس کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا ۔
وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسد عمر کی تبدیلی پر لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان وزیر اعظم ہیں اور وزیرا عظم ہی رہیں گے ،وہ کپتان ہیں اور تمام ممبران کی ٹیم کا حصہ ہیں۔ انہوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ کون کہان کھیلے گا اور کس سے کیا ذمہ داری لینی ہے ،جو بھی اسد عمر کی جگہ لے گا انہیں چیلنجز کا سامنا رہے گا ۔حکومت نے ملک کے مستقبل کے لئے مشکل فیصلے کئے مزید بھی کرنا ہوں گے ۔صدارتی نظام پر ان کا موقف تھا کہ صدارتی نظام کے حوالے سے قیاس آرائیاں ہیں اور صدارتی نظام کی باتیں بے معنی ہیں، صدارتی نظام کیسے آ سکتا ہے،اس کے لئے آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی،جس کے لئے دو تہائی اکثریت چاہئے۔کسی نے کوئی ایسی موومنٹ دیکھی ،جس سے لگے کہ ملک میں صدارتی نظام کے لئے کام ہو رہا ہے۔
جنوبی پنجاب میں جہاں مقتدر واپوزیشن سیاست دان پریس کانفرنسوں میں ایک د وسرے کو طعن وتشنیع کانشانہ بنانے اور پیشین گوئیوں میں مصروف ہیں وہاں پر تباہ کن بارشوں سے فصلوں کا بے پناہ نقصان ہوا ہے کاشتکار،کسان ابھی تک پریشان ہیں اور اس بات پر حکومت سے سخت نالاں ہیں کہ کسی بھی قسم کی ریلیف کے لئے کوئی عملی قدم اٹھانا تو دور کی بات زبانی کلامی جمع خرچ اوربیان تک بھی نہیں دیا جاسکا ، یقیناًیہ ایک لمحہ فکریہ ہے، عوام نے جہاں تبدیلی کے دیگر کئی عوامل کو برداشت کر لیا ہے اب عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو ہے تاہم مستقبل قریب میں صورت حال کس طرف جاتی ہے عوام اس سین کے لئے پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے۔

مزید :

ایڈیشن 1 -