جب میرے والد بھٹو صاحب کا نشانہ بنے
ایک قاری نے مجھ سے سوال پوچھا کہ آپ میر شکیل الرحمان کا دفاع کیوں کر رہے ہیں؟ اس سوال نے مجھے مضطرب کر دیا۔ میں تو انصاف کے ایک بنیادی اصول کا دفاع کر رہا تھا کہ کوئی بھی شخص جرم ثابت ہونے تک معصوم تصور کیا جائے گا، جب تک وہ ملزم ہے اس کے ساتھ مجرم جیسا سلوک نہیں کیا جائے گا اور یہ اصول ہر کسی پر لاگو ہوتا ہے۔اس کلیدی اصول کی بنیاد ایک اور کلیدی اصول پر ہے کہ ”کسی ایک بے گناہ کو پھانسی پر لٹکانے سے بہتر ہے کہ 100مبینہ قصور واروں کو رہا کر دیا جائے، کیونکہ بعد ازاں اگر معلوم ہو گیا کہ وہ شخص بے گناہ تھا تو وہ دنیا میں واپس نہیں آ سکے گا۔ اسی طرح اگر کسی بے گناہ شخص کی زندگی کا ایک مہینہ قید میں گزرے تو وہ مہینہ کوئی کیسے واپس لا سکتا ہے؟ یہ انصاف کے وہ بنیادی اصول ہیں جو عالمگیر ہیں۔ افسوسناک امر ہے کہ ملزم سے جبراً ثبوت نکلوانے کے لیے اسے مجرم فرض کر لینے کی عادت طویل عرصے سے چلی آ رہی ہے اور اس میں حالیہ عدلیہ کا ہاتھ نہیں ہے بلکہ عدلیہ تو خود ایسے احمقانہ قوانین کی شکار ہے۔
چنانچہ حکومت کو سچ بولنے والوں کی آواز بند کرنے کی بجائے احتساب کے قوانین پر نظرثانی کرنی چاہیے اور نیب کی تعمیر نو کرنی چاہیے، اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔ اگر یہی روش چلتی رہی تو ایک دن حکومت اور اس کے عمال کے کردار تبدیل ہوسکتے ہیں اور آج جو دوسروں کو زیرعتاب رکھے ہوئے ہے، کل خود زیرعتاب ہو گا۔میں خود اس ریاستی عتاب کا ذاتی تجربہ رکھتا ہوں۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے میرے والد الطاف گوہر کو تیسری بار گرفتار کیا کیونکہ بھٹو کو ”ڈان“ میں شائع ہونے والے میرے والد کے ایڈیٹوریلز پسند نہیں تھے۔ پولیس کی ایک بھاری نفری ہمارے گھر آئی اور گیٹ توڑ کر اندر داخل ہو گئی۔ اس کے بعد مرکزی دروازہ توڑا اور کہا کہ الطاف گوہر خود کو ہمارے حوالے کر دیں۔ پولیس کے ساتھ ایک مجسٹریٹ بھی آئے تھے اور ہوم سیکرٹری سندھ اپنی کار میں بیٹھے اس سارے آپریشن کی نگرانی کر رہے تھے۔ہم نے پوچھا کہ وارنٹ گرفتاری کہاں ہیں؟ تو مجسٹریٹ نے جو جواب دیا،وہ عدلیہ کی ناگفتہ بہ حالت کو کھول کر بیان کر گیا۔ انہوں نے کہا کہ ”میں خود یہاں موجود ہوں، وارنٹ کی کیا ضرورت ہے۔“ اس مجسٹریٹ کو بعد میں ترقی دے دی گئی اور نجانے وہ کس عہدے پر فائز ہو گئے۔
ہم نے اپنے گھر کے باہر دو پولیس ٹرک کھڑے دیکھے، جن کے متعلق ہمیں بعد میں بتایا گیا کہ ان میں ہتھیار تھے جنہیں ہمارے گھر میں رکھ کر ان کا الزام میرے والد پر عائد کیا جانا تھا لیکن فیملی کی موجودگی اور کرنل یعقوب کے آ جانے کی وجہ سے وہ اس سازش کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔ اللہ ان کی مغفرت کرے، کرنل یعقوب اچانک آ گئے تھے اور گھر کے باہر کھڑے رہے۔ پولیس والوں نے ہمارے چوکیدار مستی خان کو زدوکوب کیا اور اسے اٹھا کر کہیں لیجانے کی کوشش کی تاہم ہمارے شور مچانے پرانہوں نے اسے چھوڑ دیا۔ پھر انہوں نے میرا پورٹ ایبل ٹائپ رائٹر،چند کاغذ اور ایک بریف کیس اٹھا لیا۔ ہم بھانپ گئے کہ وہ اس ٹائپ رائٹر کے ذریعے کوئی احمقانہ تحریر ٹائپ کرنا چاہتے ہیں اور اسے ہمارے بریف کیس میں ڈال کر الطاف گوہر کے خلاف ایک اور الزام گھڑنا چاہتے ہیں۔ ایک بار پھر ہماری مزاحمت نے انہیں اس کام سے روک دیا۔ یہ ماجرا دیکھ کر مجسٹریٹ جھنجھلاہٹ کا شکار ہو گیااور انہوں نے ایس ایچ او، جس کا نام کیانی تھا، کو کہا کہ ”جاؤ اور اپنی ڈیوٹی کرو!‘یہ سنتے ہی ایس ایچ او دوڑتا ہوا سیڑھیاں چڑھا اور الطاف گوہر کے بیڈروم کا دروازہ لات مار کر توڑ دیا۔ میں اس گھناؤنی تفصیل میں نہیں جاؤں گا کہ کس طرح میرے اور میرے کزن بابر کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا گیا۔ میری والدہ، چھوٹی بہنوں اور انکل تجمل سمیت ہمیں صبح تک اپنے ہی گھر میں محبوس رکھا گیا۔ میں ایک پولیس اہلکار کی مدد سے اس نظربندی سے فرار ہو گیا جو دراصل ہمارے ساتھ ہمدردی رکھتا تھا۔
اس سارے واقعے کا ایک اور دلچسپ پہلو چند روز بعد سامنے آیا جب میں اس وقت کے اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار کے آفس میں گیا۔ وہاں یحییٰ بختیار کے ساتھ ایڈووکیٹ جنرل سندھ بھی موجود تھے جن کا نام میمن تھا۔ غالباً ان کا پہلا نام عبدالحفیظ تھا۔ ان کے ساتھ ان کے کلرک بھی موجود تھے۔ انہیں عدالت کی طرف سے حکم دیا گیا تھا کہ آدھے گھنٹے میں بھارتی اور افغانی پاسپورٹس پیش کریں جن پر میرے والد ملک سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ شراب کی ایک بوتل اور 400ڈالر بھی پیش کیے جائیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کر رکھا تھا کہ انہیں ہمارے گھر سے کچھ فحش لٹریچر اور قابل اعتراض مواد بھی ملا ہے جس کا تعلق وہ مجھ سے جوڑ رہے تھے کیونکہ میں الطاف گوہر کا نوجوان بیٹا تھا۔ بہرحال یحییٰ بختیار اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ نقلی پاسپورٹ بنانے میں مصروف تھے۔ کیا آپ اس بات کو ہضم کر سکتے ہیں کہ اٹارنی جنرل آف پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرل آف سندھ جعلی پاسپورٹ بنا رہے تھے؟ میرے ان کے آفس میں جانے کی وجہ ہمارے عظیم اور بے مثال وکیل منظور قادر تھے۔
انہوں نے مجھے کچھ کاغذات دیئے تھے جو مجھے اٹارنی جنرل کے آفس پہنچانے تھے۔اٹارنی جنرل نے شرماتے ہوئے وہ کاغذات پکڑ لیے، لیکن درحقیقت ایسے لوگوں کے لیے شرم کوئی معنی نہیں رکھتی۔ وہ پاسپورٹ عدالت میں پیش کیے گئے جو ایک گھناؤنا مذاق تھا۔ عدالت میں جو بھارتی پاسپورٹ پیش کیا گیا وہ ایک حقیقی بھارتی شہری سے قبضے میں لیا گیا تھا۔ اس کا نام کھرچ کر میرے والد کا نام لکھ دیا گیا اور اناڑی پن کی انتہاء دیکھیں کہ اس کے بھی سپیلنگ غلط لکھے گئے۔ انہوں نے Iltaf Goherلکھا۔ افغانی پاسپورٹ پر میرے والد کی جو تصویر لگائی گئی تھی وہ اس دن کے اخبار سے کاٹ کر گوند کے ساتھ پاسپورٹ پر لگا دی گئی تھی۔عدالت کو معلوم ہو گیا کہ پاسپورٹ پر تصویر کے ساتھ لگی گوند تاحال سوکھی نہیں تھی۔ یقینا اس کے بعد بھی یحییٰ خان اٹارنی جنرل کے عہدے پر فائز رہے اور عبدالحفیظ میمن کو ترقی دے کر سندھ بلوچستان ہائیکورٹ کا جج لگا دیا گیا۔ اس وقت عدالت کا یہی نام تھا۔
جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم ہوئی تو ایک فوجی عدالت کی طرف سے مجھے ثبوت پیش کرنے کو کہا گیا۔ میرے علاوہ دیگر گواہان میں جسارت کے ایڈیٹر مرحوم محمد صلاح الدین اور جے اے رحیم شامل تھے جنہیں ایک وقت میں بھٹو کا استاد خیال کیا جاتا تھا۔ اگر یہاں میں آپ کو اس خوفناک سلوک کی روداد بھی سنا دوں جو بھٹو کے غنڈوں نے جے اے رحیم اور ان کے بیٹے سکندر کے ساتھ کیا تو میرے خیال میں میرے ایڈیٹر کے لیے یہ آرٹیکل شائع کرنا مشکل ہو جائے گا۔ اور انہوں نے جو کچھ صلاح الدین کے ساتھ کیا، اسے پنجرے میں بند رکھا گیا۔ اس مقدمے میں ایک دلچسپ واقعہ یہ ہوا کہ انہوں نے شراب کی جو بوتل عدالت میں پیش کی اور کہا کہ الطاف گوہر کے قبضے سے برآمد ہوئی ہے۔ میں نے اس بوتل میں سیاہ رنگ کے کچھ ذرات تیرتے ہوئے دیکھے تو جج سے اسے کھولنے کی درخواست کی، اور جب وہ بوتل کھولی گئی تو اس میں شراب کی جگہ چائے تھی۔ آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ الطاف گوہر کو انہوں نے زمین میں ایک سوراخ کھود کر ایک ہفتے تک اس میں بند رکھا تھا۔ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں ہیں اور ایک دن جب میں کراچی کی سول کورٹس میں گیا، وہاں ایک پولیس وین میں تہرے قتل کے ایک ملزم کو عدالت میں پیشی پر لایا گیا تھا۔ اس نے مجھے دیکھا اور بیڑیوں کے ساتھ تیزی سے میری طرف آیا۔ اس کے پیچھے پولیس والے بھی بھاگے۔ اس ملزم نے زور سے میرا نام پکارا، جیسے مجھے اچھی طرح جانتا ہو۔
وہ تیزی سے میرے قریب آیا اور ہاتھ ملانے کے بہانے میرے ہاتھ میں کاغذ کا ایک ٹکڑا دے دیا۔ میں نے بھی پولیس سے نظریں بچا کر کاغذ کا ٹکڑا جیب میں ڈال لیا۔ میں وہاں سے نکلا اور اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چل پڑا۔ لگ بھگ ایک میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد میں نے گاڑی روکی اور کاغذ کا ٹکڑا جیب سے نکال کر دیکھا۔ کاغذ اس طرح رول کیا ہوا تھا جیسے سگریٹ ہو۔ اس کاغذ پر میرے والد کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر تھی، جس میں انہوں نے لکھ رکھا تھا کہ انہیں زمین میں ایک سوراخ بنا کر اس میں رکھا گیا ہے اور انہیں وہاں سے نکالا جائے۔ وہاں سے میں ملک غلام جیلانی کے پاس گیا اور ہم دونوں جسٹس طفیل علی عبدالرحمان کے پاس گئے جو چیف جسٹس آف سندھ بلوچستان ہائی کورٹ تھے۔ وہ اس قسم کے جج تھے کہ ہر ملک میں ایسے جج ہونے چاہئیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور دانشور۔ انگریزی زبان پر انہیں بے مثال عبور حاصل تھا۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے آنے والا تمام دباؤ سہا۔ طفیل علی کو ان کے سیکرٹری کی طرف سے نوٹ دیا گیا اور انہوں نے الطاف گوہر کو فوری پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ جب الطاف گوہر کو پیش کیا گیا، تو انہوں نے گرفتاری کے وقت جو نیلا سوٹ پہن رکھا تھا وہ بھورا ہو چکا تھا اور اس سے بو آ رہی تھی۔
انہیں اتنے دن تک تاریک سوراخ میں رکھا گیا تھا چنانچہ وہ اب بھی روشنی میں دیکھ نہیں پا رہے تھے اور بول بھی نہیں سکتے تھے۔ہم نے عدالت سے ہائی کورٹ کی عمارت میں ہی انہیں نہلانے کی اجازت مانگی۔ اسی دوران ہم نے نئے کپڑوں کا انتظام کیا اور بعد میں انہیں چائے دی۔ دونوں منظور قادر اور اے کے بروہی ان کے ساتھ بیٹھ گئے اور کچھ دیر بعد وہ بولنے لگے۔اب آپ جان گئے ہوں گے کہ میں کیوں کہتا ہوں کہ ’کیسا انصاف؟‘ ان دنوں کو یاد کرنا بہت تکلیف دہ ہے۔ہم نے تمام مقدمات جیتے جو میری والدہ زرینہ گوہر کی طرف سے قائم کیے گئے۔ پہلا کیس مارشل لاء کو قانونی حیثیت دیئے جانے کے خلاف تھا جس کے تحت ذوالفقار علی بھٹو پہلے اور واحد سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے۔
یہ کیس عاصمہ جیلانی کیس کے نام سے مشہور ہوا، لیکن اس کا پورا نام عاصمہ جیلانی زرینہ گوہر کیس تھا۔ یہ کیس اس وقت کیا گیا تھا جب میرے والد کو پہلی بار گرفتار کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے اس کیس میں یحییٰ خان کو غاصب قرار دیا اور فوری طور پر مارشل لاء ختم کرنے کا حکم دیا۔ یہاں یہ ذہن میں رکھیں کہ یہی سپریم کورٹ اس سے قبل فوجی بغاوت کو قانونی حیثیت دے چکی تھی۔ذوالفقار علی بھٹو کو اگلے روز اس عدالتی حکم پر عملدرآمد کرنا پڑا تھا۔میرے والد کو جیل میں ایک طرف رہائی کے آرڈرز دیئے گئے اور ساتھ ہی ایمرجنسی ریگولیشنز کے تحت دوبارہ گرفتاری کے آرڈرز دے دیئے گئے۔
جب یہ تماشاختم ہوا اور بالآخر بھٹو اور میرے والد کی ملاقات ہوئی، تو بھٹو نے کہا ”الطاف، تم جو مقدمے قائم کرنا چاہتے ہو کر لو، لاء کورٹس کا میری کتاب میں کوئی وجود نہیں۔“بدقسمتی سے جب ان کی حکومت کا خاتمہ ہواتو انہی لاء کورٹس نے انہیں سزائے موت سنائی۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے ان سے کوئی عناد یا شکوہ نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں اس روش کا یہیں خاتمہ چاہتا ہوں۔بشکریہ”پاکستان ٹوڈے“