افغانستان میں امن تو پاکستان میں امن
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن کا مطلب پاکستان میں امن ہے، ہمارا واحد مقصد پُرامن، خود مختار، جمہوری، مستحکم اور خوشحال افغانستان کے حصول میں مدد فراہم کرنا ہے، انہوں نے اِن خیالات کا اظہار پاکستان میں افغان سفیر نجیب اللہ علی خیل سے ملاقات کے دوران کیا۔جی ایچ کیو میں ہونے والی اس ملاقات میں افغان امن عمل، دو طرفہ سلامتی، دفاعی تعاون میں اضافہ اور دونوں برادر ممالک کے مابین موثر بارڈر مینجمنٹ پر غور کیا گیا۔
ہمارے کئی وزرائے اعظم اور ریاست کے دوسرے عہدیدار وقتاً فوقتاً مختلف مواقع پر یہ واضح کر چکے ہیں کہ اگر افغانستان میں امن ہو گا تو پاکستان پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ہمسایہ مُلک کی بدامنی ہمیں بھی اسی طرح متاثر کرتی ہے، جس طرح اس سے افغانستان متاثر ہوتا ہے۔ افغانستان کے دوسرے ہمسائے اور عالمی طاقتیں چین اور روس بھی قیامِ امن کے لئے ہر ممکن کوششیں کر رہی ہیں، اسی سلسلے میں ترکی میں چار ممالک کی ایک کانفرنس جلد ہی ہونے والی ہے، جس میں پاکستان بھی شریک ہو گا۔ان تمام کوششوں کا ایک ہی مقصد ہے، اور وہ ہے افغانستان میں امن کی راہ تلاش کرنا،اب تو امریکہ بھی واضح اعلان کر چکا ہے کہ اس کی باقی ماندہ فوج کا انخلا اگلے ماہ شروع ہو جائے گا،اور اسی سال نائن الیون تک مکمل ہو جائے گا۔ ملت افغانستان کے لئے یہ ایک یقینا خوشی کا لمحہ ہے،اس کی سرزمین پر کوئی غیر ملکی فوجی نہیں رہے گا۔ امریکہ کے خلاف افغانستان میں جو قوتیں برسر پیکار تھیں اُن کا بنیادی مطالبہ ہی یہ تھا کہ غیر ملکی افواج واپس چلی جائیں،افغان طالبان بھی یہی چاہتے تھے اور وہ طویل عرصے تک مذاکرات سے پہلے یہ شرط پورا کرنے پر ڈٹے رہے۔ پھر پاکستان کی کوششوں سے انہوں نے اپنے مطالبے میں لچک پیدا کرتے ہوئے قطر مذاکرات میں شرکت کی، اب اسی معاہدے کے تحت ہی امریکی افواج افغانستان سے واپسی اختیار کر رہی ہیں۔معاہدے سے ثابت ہو گیا کہ بسا اوقات فریقین کے موقف میں نرمی کا نتیجہ مثبت ہی نکلتا ہے۔امریکہ نے اگرچہ تاخیر ہی سے سہی، لیکن بالآخر تسلیم کر لیا کہ طالبان افغان سرزمین کی ایک ایسی زندہئ جاوید حقیقت ہیں، جنہیں نظر انداز کر کے افغانستان میں امن کا خواب نہیں دیکھا جا سکتا۔امریکہ کو جب اس کا کما حقہ‘ ادراک ہو گیا تو اُس نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے میں دیر نہیں کی۔دُنیا نے اپنے بڑے بڑے مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کئے، جنگ کے فاتح فریق کو بھی مفتوحین کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑتا ہے،امریکہ کے طالبان کے بارے میں جو خیالات تھے اس سے پوری دُنیا واقف ہے اور بیس سال تک امریکہ نے اپنے اِن خیالات کا نہ صرف پوری شدت سے پرچار کیا،بلکہ ان پر سختی سے کار بند بھی رہا،لیکن جب اس نے محسوس کیا کہ امن کی خاطر طالبان کے ساتھ بیٹھنا ناگزیر ہے تو اس نے مذاکرات کئے، اور معاہدہ بھی کیا۔ یہی معاہدہ اب افغانستان کی حکومت اور دوسری تمام قوتوں کی سیاسی دانش اور بصیرت کا امتحان بن کر ان کے سامنے موجود ہے۔اب دیکھنا ہے کہ وہ کس طرح امن کے خواہاں افغان عوام کو خوف و دہشت اور خون ریزی سے نجات دلائیں گے۔ضرورت اِس بات کی ہے کہ بین الافغان مذاکرات میں وہ تمام امور طے کر لیں، جن سے امن قائم ہوتا ہے اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا،لیکن اگر اُن کی کسی معمولی لغزش کی وجہ سے مذاکرات کامیاب نہ ہوئے اور امن و امان کی منزل جو اب سامنے نظر آ رہی ہے، دور ہو گئی تو افغان عوام اور تاریخ اُنہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
جن ممالک کو افغانستان میں امن مطلوب نہیں اُن کے منصوبے بھی ظاہر و باہر ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان میں خون کی ہولی جاری رہے اور اس افراتفری کے پردے میں وہ اپنے عزائم کی تکمیل کرتے رہیں۔پاکستان میں آج تک لاکھوں مہاجرین رہ رہے ہیں، جو1979ء میں اس وقت اپنے گھر بار چھوڑ کر پاکستان آئے تھے، جب سوویت افواج دریائے آمو عبور کر کے افغانستان میں داخل ہوئی تھیں، پاکستان دُنیا کا واحد ملک ہے، جس نے چالیس سال سے زائد عرصے تک اپنے ان افغان بھائیوں کو پناہ دیئے رکھی اور اس کے نتیجے میں بے شمار مسائل کا سامنا بھی کیا۔ متعدد بار ایسا ہوا ہے کہ افغان مہاجرین کو واپس بھیجا گیا،لیکن وہ بوجوہ پھر واپس آگئے۔اگر افغانستان میں امن قائم ہو جائے تو پھر یہ مہاجرین بھی اطمینان سے اپنے گھروں میں واپس چلے جائیں گے، اور اپنے مُلک ہی میں انہیں روزگار کے مواقع میسر آ جائیں گے۔
ان حالات میں پوری افغان قوم اور اس کے نمائندوں کا امتحان ہے کہ وہ باہمی رنجشوں کو بھول کر مذاکرات کو کامیاب بنائیں اور اپنے اپنے موقف میں لچک پیدا کریں اور وسیع تر قومی مفاد کو مدنظر رکھیں، ایسا اہتمام کریں کہ خانہ جنگی وغیرہ کے، جو خدشات مختلف حلقوں کی طرف سے ظاہر کئے جا رہے ہیں وہ دور ہو جائیں۔بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے امریکہ اب افغانستان میں رہنا نہیں چاہتا اور ایک دفعہ واپسی مکمل ہو گئی تو پھر دوبارہ آنے کے امکانات بھی محدود ہو جائیں گے۔ اب اگر افغانوں نے اپنی باہم لڑائیاں بند نہ کیں تو پھر اس کا سارا ملبہ بھی انہی پر گرے گا کسی ایک فریق کا ساتھ دینے کے لئے اب کوئی عالمی قوت اِدھر کا رخ نہیں کرے گی۔ امریکی فوج غالباً کسی دوسرے ملک میں اتنے طویل عرصے کے لئے نہیں رہی،افغان حکومت کو بھی اپنی قوت پر بھروسہ کرکے افغان عوام کا اعتماد حاصل کرنا چاہئے۔ پاکستان تو ہمیشہ امن کے قیام کے لئے کوشاں رہا ہے اور ایک بار پھر آرمی چیف نے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ افغانستان میں امن ہو گا تو پاکستان میں بھی امن ہوگا۔