رمضان المبارک، مولوی ستار اور یوسف صاحب کی یادیں !!!
عمومی طور پر ہم جیسے "پردیس" میں رہنے والوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ گاؤں میں کون کون سی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں اور کون اس دنیا سے چلا گیا ہے، ہمیں عید تہوار پر ہی گاؤں جانے کا موقع ملتا ہے، چھٹیاں کم ہونے کی وجہ سے کوشش ہوتی ہے کہ فیملی کے ساتھ ہی وقت گزارا جائے، ایسے میں بچپن کے دوست، گاؤں کی اہم شخصیات اور بزرگوں سے ملاقاتیں نہیں ہوپاتیں۔ جب کئی مہینے بعد واپس گاؤں آتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ فلاں شخصیت اس دنیا میں نہیں رہی، فلاں شخص اتنا عرصہ پہلے فوت ہوگیا، بعض لوگوں کے دنیا سے چلے جانے کا کئی سال بعد پتہ چلتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں میں ہمارے مولوی ستار بھی ہیں جن کے دنیا سے جانے کا پتہ مجھے کچھ روز پہلے ہی چلا۔ بڑے بھائی رئیس احمد نے بتایا کہ مولوی ستار کا انتقال ہوئے دو سے تین سال ہوچکے ہیں۔ یہ خبر ایک بڑا صدمہ تھی کیونکہ مولوی ستار ایک ایسی شخصیت تھے جن کے ذکر کے بغیر ہمارے گاؤں کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔
گاؤں کی مرکزی جامع مسجد غوثیہ کے کئی دہائیوں تک امام رہنے والے مولوی ستار ہر لحاظ سے ایک شاندار شخصیت تھے۔ بالخصوص ان میں برداشت کا جتنا مادہ تھا اتنی برداشت آج تک کسی میں نہیں دیکھی ۔ گاؤں میں کسی بھی بچے کو اس وقت تک شریر نہیں سمجھا جاتا تھا جب تک وہ مولوی ستار کے ساتھ رمضان المبارک میں کوئی نہ کوئی شرارت نہیں کرلیتا تھا۔ بچے انہیں اتنا تنگ کرتے تھے لیکن ان کی زبان سے کبھی شکوہ نہیں سنا۔ وہ بچوں کو دھمکاتے بھی تھے لیکن کبھی انہیں مسجد آنے سے نہیں روکتے تھے۔
مولوی ستار امامت کے ساتھ ساتھ ایک زبردست نعت خواں بھی تھے۔ وہ پروفیشنل نعت گوئی نہیں کرتے تھے لیکن سحری میں جب تک ان کی کوئی نعت نہیں سن لیتے تھے روزہ ادھورا لگتا تھا۔ اس سال ان کی بہت یاد آ رہی ہے اور سوچ رہا ہوں کہ گاؤں میں مولوی ستار کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس رکھا جائے جس میں صرف ان کی مخصوص نعتیں ہی پڑھی جائیں۔ مولوی ستار جب " سئیو نام محمد ﷺ والا لگدا بہت پیارا نی" یا پھر "بیڑا محمدﷺ والا لیندا پیا تاریاں، جس نے مدینے جانا، کر لو تیاریاں" پڑھتے تھے تو ایک الگ ہی روحانی سکون ملتا تھا۔
مولوی ستار باضابطہ عالم دین نہیں تھے اسی لیے جمعہ وغیرہ کے بیانات کی ذمہ داری استادِ محترم یوسف سلامی صاحب کی ہوتی تھی۔ ان کی ذات تو راجپوت ہے لیکن ان کی تیسری نسل ٹیچنگ کے شعبہ سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ان کا پورا گھرانہ ہی "ماسٹر" کے نام سے مشہور ہوگیا ہے اور یہ "ماسٹر" کا لفظ ایک لحاظ سے ان کی قوم بن گیا ہے۔ تقسیم کے بعد سے ہی ان کے گھرانے نے پورے گاؤں کو فیض یاب کیا ہے۔
یوسف صاحب کے والد ماسٹر اسحاق مرحوم (میرے والد صاحب کے استاد)، ان کے بھائی طالب حسین مطلوب مرحوم (میرے پرائمری کے استاد) اور غلام حسین شاکر (میرے والد کے کلاس فیلو) کے علاوہ بھی ان کے گھرانے کے کئی لوگ اس مقدس شعبے سے وابستہ ہیں۔ یوسف صاحب مگر انتہائی درویش منش تھے، دورانِ سروس اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ اپنے مرشد خانے سے وابستہ رہے۔ سکول میں روزانہ اسمبلی کے دوران بچوں کو اسلامی مسائل سمجھاتے، مڈل حصے کے بچوں کو جو سنِ بلوغت کو پہنچ رہے ہوتے تھے انہیں پاکیزگی کے مسائل وغیرہ بھی یوسف صاحب ہی بتایا کرتے تھے۔ عید کے موقع پر قربانی کے مسائل ہوں یا فطرانہ کی ادائیگی کا طریقہ کار ، پورے گاؤں کو اس بارے میں ایجوکیٹ کرنے کی ذمہ داری یوسف صاحب کی ہی تھی۔ یہاں تک کہ ٹوائلٹ کے بعد ہاتھ صابن سے دھونے کے حوالے سے آگہی مہم بھی یوسف صاحب نے ہی چلائی تھی۔ ان کی اس مہم سے پہلے بہت کم لوگ تھے جنہوں نے کبھی صابن سے ہاتھ دھوئے ہوں گے، اکثر لوگ تو پرانے طریقے یعنی مٹی سے کام چلایا کرتے تھے۔ انہوں نے صرف سکول میں کتابیں ہی نہیں پڑھائیں بلکہ زندگی بہتر طریقے سے گزارنے کے سبق بھی دیتے رہے۔
اب یہ دونوں شخصیات ہی اس دنیا میں نہیں رہیں تو سوچتا ہوں کہ گاؤں کی آنے والی نسل کو وہ سادگی اور اپنائیت کہاں سے سیکھنے کو ملے گی، آج کل کے بچوں کی شرارتیں کون ہنس کر برداشت کرے گا یا سکول کی اسمبلی میں بچوں کو زندگی بہتر کرنے کے گُر کون سکھائے گا؟
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.