بزرگ پنشنروں کی فریاد اور پنجاب میں رولا! 

 بزرگ پنشنروں کی فریاد اور پنجاب میں رولا! 
 بزرگ پنشنروں کی فریاد اور پنجاب میں رولا! 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 ملک کے حالات ہی ایسے ہیں کہ ان کی طرف سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا تاہم اور بھی غم ہیں زمانے میں ”سیاست“ کے سوا، کے مصداق جب سے حکومت تبدیل ہوئی، مختلف شہروں سے متعدد ٹیلی فون آئے جو سب کے سب بزرگ (سینئر) شہریوں کے تھے اور یہ ریٹائر لوگ ہیں، جواپنی زندگی کا بہترین حصہ ملک و قوم کی نذر کرکے یہاں پہنچے ہیں، فون کرنے والے حضرات بڑھاپے کی پنشن والے ہیں، جن کو ساڑھے آٹھ ہزار روپے ماہوار ملتا ہے، ان کو شکوہ ہے کہ مہنگائی بڑھ جانے اور سابقہ فیصلوں کے باوجود ان کی پنشن ملک میں کم از کم اجرت کے برابر نہیں کی جا رہی، بلکہ کئی سالوں سے کوئی اضافہ بھی نہیں ہوا، حالانکہ جس فنڈ سے یہ پنشن دی جاتی ہے وہ خود ان کارکنوں اور ان کے آجروں کا جمع شدہ ہے اور اب بھی رجسٹرڈ صنعتیں اور کاروباری ادارے یہ رقم ادا کرکے اپنا فرض ادا کر رہے ہیں اور ای او بی آئی(اولد ایج بینی فٹ انسٹی ٹیوشن) کے پاس اربوں روپے جمع ہیں، جبکہ یہ فیصلہ بھی ہو چکا تھا کہ آجر اور اجیر کے حصے میں کچھ اضافہ ہوگا، اسی طرح وفاقی حکومت اپنے حصہ کی گرانٹ ادا کرے گی اور پنشن مستقل طورپر مزدور کی کم از کم سرکاری اجرت کے مطابق ہوگی لیکن ایسا ہو نہیں رہا، بلکہ اس فنڈ میں سے نہ صرف اربوں روپے خورد برد کئے گئے بلکہ اعلیٰ افسروں اور عملے کی تعداد بڑھا کر ان کو بڑی بڑی تنخواہیں اور مراعات دی جا رہی ہیں، موجودہ چیئرمین اور بورڈ آف ڈائریکٹر ان مقدمات کی پیروی بھی نہیں کر رہے جو  اربوں روپے کی خورد برد کے ہیں اور نہ ہی وفاقی حکومت سے واجبات وصول کئے جارہے ہیں۔ ایک پنشنر نے توجہ دلائی کہ ایک سابق چیئرمین جو کم از کم 5ارب روپے کی کرپشن میں ملوث ہیں، نیب کی حراست گزار کر بعدازاں سیاسی پشت پناہی کی بدولت ضمانت پر رہا ہوئے۔ قریباً تین چار ماہ قبل ان کی ضمانت عدالت سے منسوخ ہوئی تو وہ فرار ہو گئے۔ تاحال کچھ علم نہیں کہ وہ کہاں ہیں اور کیا وہ دوبارہ ضمانت کے لئے کسی بڑی مجاز عدالت سے بھی رجوع کر چکے یا نہیں۔ یوں مزدوروں اور مالکان کی خون پسینے کی کمائی خورد برد ہو رہی ہے اور جن بزرگوں کے لئے یہ فنڈ قائم کیا گیا ان کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔
ای او بی آئی کا یہ سلسلہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے شروع ہوا کہ محنت کشوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ سہولت ملے۔ چند سو ماہانہ سے شروع ہو کر یہ پنشن اب آٹھ ہزار پانچ سو روپے ماہوار ہے جو موجودہ گرانی کے دور میں بوڑھوں کے لئے بہت کم ہے جو اکثر بیمار ہونے کے سبب علاج کے لئے بھی مجبور ہیں۔ موجودہ حکمرانوں کو جو مسائل ورثے میں ملے وہ اگرچہ کافی مشکل ہیں، تاہم یہ معاملہ بھی تو چار، پانچ لاکھ افراد کی بہبود سے متعلق اور ان کی اپنی کمائی ہے، حکومت کو کم از کم اجرت کے مطابق پنشن کرنے کے فیصلے پر عمل کرنا چاہیے۔ خورد برد والی رقم برآمد کرانا اور حکام کی شاہ خرچیوں کو روکنا بھی ہوگا۔


بابوں کے دباؤ کی وجہ سے گزارش پیش کر دی۔ اگرچہ پنجاب کا معاملہ کئی رخ اختیار کر رہا ہے تو منتخب حمزہ شہباز کی حلف وفاداری پھر لٹک گئی۔ انہوں نے عدالت سے رجوع کیا تو عدالت نے حلف لینے کی ہدایت کی، اپنے فیصلے میں چیف جسٹس نے لکھا کہ گورنر حلف سے انکار نہیں کر سکتے، اب ایسا کیا گیا تو صدر مملکت کسی اور کو حلف لینے کے لئے مقرر کریں (اطلاع کے مطابق اب یہی ہوگا) دوسری طرف عدالتی ہدائت اور حکم نامے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کا اعلان کیا گیا۔ ایڈووکیٹ جنرل کا موقف ہے کہ عدالت صدر کو حکم نہیں دے سکتی جبکہ گورنر عمر سرفراز چیمہ نے ٹویٹ کے ذریعے سخت جواب دیا، انہوں نے کہا میں گورنر ہوں، اپنے فرائض و حقوق جانتا ہوں، میں کوئی اوتھ کمشنر نہیں ہوں کہ کوئی مجھے آئین و قانون کے خلاف کسی کام کا حکم دے، گورنر پنجاب کے ان ریمارکس کے بعد نئی بحث کا آغاز ہو گیا اور مسلم لیگ ن کی طرف سے اسے توہین عدالت قرار دیا گیا۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔ یہ صورت حال جاری ہے اور ابھی تک حلف نہیں ہوا تاہم غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ عدالتی حکم کے بعد صدر کسی کو اس مقصد کے لئے نامزد کر دیں گے جو امکانی طور پر سینیٹ کے چیئرمین ہوں گے، اس عرصہ میں انٹراکورٹ اپیل اور توہین عدالت کی درخواستیں بھی دائر ہو جانے کا امکان ہے۔ بہرحال نئی بات یہ ہوئی کہ گورنر علیل ہو گئے اور سروسز ہسپتال میں داخل ہو گئے ہیں۔ آئینی طور پر ان کی رخصت پر سپیکر پنجاب اسمبلی قائم مقام گورنر ہوتے ہیں اور یہ خود کار نظام ہے، اس لئے اب چودھری پرویز الٰہی قائم مقام گورنر ہوں گے اور یوں وزارت اعلیٰ کے ایک فریق اس منصب پر فائز ہو چکے ہیں اور یہ ایک اور دلچسپ صورت حال ہے۔ دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
یہ تحریر مکمل ہونے سے پہلے ہی اطلاع ملی کہ چیئرمین سینٹ لاہور پہنچ گئے ہیں وہ صدر کی ہدایت پر حمزہ سے حلف لیں گے۔ اس تقریب میں وزیر اعظم شہباز شریف بھی شرکت کریں گے۔ جو وزارت عظمٰے کا منصب سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ آئے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -