چاند کی تلاش

چاند کی تلاش

  

  سال میں ایک عید کی خوشی ملتی ہے اور وہ بھی چاند کی تلاش میں گزرجاتی ہے۔اس سال تو یہ تماشہ ہوا کہ پاکستان میں ایک عید اٹھائیس روزے پورے کرنے کے بعد منا لی گئی، ماہرین فلکیات اور علماءکی متفقہ رائے ہے کہ اس روز تو چاند ابھی پیدا ہی نہیں ہوا تھا ، پھر اسے دیکھ کیسے لیا گیا،ہفتے کی شام فیصلہ ہوا کہ پاکستان میں کہیں چاند نظر نہیں آیا ،اس لئے عید پیر کو ہو گی مگر خیبر پختون خواہ والوں نے اتوار کو عید منا لی جبکہ پاکستان کی اکثریت نے یہ عید پیر کو منائی۔ سعودی عرب اور امریکہ میں ایک دن پہلے عید منائی گئی، اسکی وجہ وقت اور فاصلے کا فرق ہے۔آج دنیا مریخ تک پہنچ چکی ہے اور ستاروں پہ کمندیں ڈال رہی ہے اور ہم چاند کے جھگڑے میں الجھے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں میں ایک ہی خوبی تھی کہ وہ ایک جسم کی مانند تھے، اتحاد امت کی مثال دی جاتی تھی، پاکستان نے بھی اتحاد ، تنظیم اور ایمان کا درس دیامگر ہم سب کچھ بھلا بیٹھے۔اور انتشار کا شکار ہو کر دو ٹکڑے ہوگئے، اب ہم کئی ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں، نہ حکومت کی کہیں رٹ مانی جاتی ہے، نہ مذہب کی ، ہر ایک نے ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد کھڑی کر لی ہے۔اصولی طور پراکیسویں صدی میں چاند پر تنازعہ ہونا نہیں چاہیے،مسلمانوں نے صدیوں پہلے ایسے آلات ایجاد کر لئے تھے جو سمندروں کی متلاطم موجوں اور رات کی تاریکیوں میں بھی منزل کا نشاں بتا دیتے تھے۔اب تو یہ آلات انتہائی جدید تریں ہیں۔ہوائی جہاز کو آٹو پائلٹ پر کر دیا جاتا ہے اور وہ سینکڑوں مسافروں کو منزل پر بخیرو عافیت پہنچا دیتا ہے۔سورج اور چاند کے طلو ع و غرب کا حساب سائنسی بنیادوں پر کیا جا چکا ہے، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ یکم جنوری کو کسی نے کہا ہو کہ آج یکم جنوری نہیں ہے۔کبھی کسی شخص کو اپنی سالگرہ منانے میں مغالطہ نہیں ہوا۔اور اگر میری فہم ناقص نہیں ہے تو پوری دنیا میں یکم محرم اور دسویں محرم کی تاریخ پر بھی کسی نے جھگڑا کھڑا نہیں کیا تو پھر یکم رمضان اور عیدین کے چاند پر بھانت بھانت کی بولیاں کیوں سنائی دیتی ہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ چاند کو ننگی آنکھ سے دیکھ کر عید کا فیصلہ کیا جانا چاہئے جیسا کہ ہم لوگوں کے بچپن اور ہمارے آباو اجداد کے دورمیں ہو اکرتا تھا تو پھر روئت ہلال کمیٹی بٹھانے کی کیا منطق اور ضرورت!اب تو صوبوں میں مختلف دنوں میں عید ہوتی ہے ، پہلے تو ساتھ کے گاﺅں میں عید کا دن مختلف ہوتا تھامگریہ وہ زمانہ تھا جب ٹیکنالوجی نہیں تھی اور امت کے انتشار کی خبریں ہزاروں ٹیلی ویژنوں سے دنیا بھر میں نشر نہیں کی جاتی تھیں۔ اب یہ خبریں ہمارا مذاق اڑاتی ہیں۔ہم نے خود اپنے آپ کو مذاق بنا لیا ہے ۔ چاند دیکھنے کے لئے ہم نے جن اصحاب کو ڈیوٹی تفویض کر رکھی ہے، شاید وہ ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کا چہرہ پہچاننے سے بھی قاصر ہوں مگر ان کے کندھوں پر بوجھ ڈالدیا گیا ہے چاند کو دیکھنے کا جو انتہائی طاقتور دوربین سے بھی نظر نہیں آ سکتا۔ہمیں پہلے تو اس روئت ہلال کمیٹی کی تشکیل نو کرنی چاہیئے اور اس میں ماہرین فلکیات وموسمیات کی شمولیت کو یقینی بنانا چاہئے۔ بے شک چاند کا اعلان کوئی بزرگ عالم دین ہی کر لیں مگر اس کی شہادت ٹیکنالوجی سے ملنی چاہئے اور اس کے لئے فلکیات اور موسمیات کے ماہرین کی رائے کو مقدم خیال کیا جائے۔ایک بڑا سوال یہ ہے کہ چاند کے جھگڑے کا تعلق صرف پاکستان سے کیوں ہے ، کسی دوسرے اسلامی ملک میں تین تین عیدیں کیوں نہیں ہوتیں ، اس بار تو امریکی مسلمانوں نے بھی عید ایک ہی روز منائی ہے، اسی روز سعودی عرب میں بھی عید تھی۔سعودی عرب نے تو ایک مستقل کیلنڈر ترتیب دے رکھا ہے تاہم چاند دیکھنے کا اہتمام بھی کر لیا جاتا ہے۔باقی اسلامی ممالک بھی چاند کے طلوع و غروب کے حساب سے ایک مستقل کیلنڈر بنا سکتے ہیں تاکہ یہ جھگڑا کھڑا نہ ہو کہ چاند ہوا کہ نہیں ہوا۔میں پھر کہتا ہوں کہ مسلمانوں کے بحری بیڑے دن رات سمندروں کو چیرتے ہوئے آگے پیچھے متحرک رہتے تھے تو ان کی راہنمائی کا انحصار سراسر چاند پر تھا، سمند رمیں مدوجزر کا تعلق بھی چاند سے ہے، شمسی کیلنڈر سے نہیں، اس لئے مسلمان کشتی رانوں نے جدید آلات کی مدد سے مستقل قمری کیلنڈر بنا رکھے تھے ،یہ کام صدیوں پہلے ہو سکتا تھا تو آج کیوں نہیں ہو پاتا۔اور پھر فاٹا اور پختون خواہ والوں سے بھی پوچھا جائے کہ آپ کا چاند دیکھنے کا طریق کار کیا ہے اور یہ ایسا طریقہ ہے کہ اٹھائیسویں روزے کی شام بھی چاند دیکھ لیاجاتا ہے، روزے انتیس تو ہو سکتے ہیں ، اٹھائیس کیسے ہو گئے۔اور پھر ہر سال کا جھگڑا کیوں ہے اور وہ بھی ایک سائنسی دور میں۔اور یہ جھگڑا پنجاب اور سندھ میں نہیں، صرف اسی علاقے سے کیوں مخصوص ہے، کیا یہاں چاند کے افق میںکوئی فرق واقع ہو جاتا ہے۔یہ ایسے سوالات ہیں جن کے سائنسی اور جغرافیائی بنیادوں پر جواب تلاش کئے جا سکتے ہیں۔جدید سائنس نے جہاں انتہائی پیچیدہ مسائل اور بیماریوں کا علاج تلاش کر لیا ہے، وہاں چاند کی تلاش کے لئے بھی اس کی مدد لی جا سکتی ہے تاکہ ہمارے اتحاد میں رخنہ نہ پڑے اور مخالفین ہمیں مذاق کا نشانہ نہ بنائیں۔ہمیں سوچنا ہوگا کہ جہاں ہم پہلے ہی ذات ، برادری، رنگ و نسل، علاقے، صوبے،ا ور فرقے کی تقسیم میں مبتلا ہو کر خوارو زبوں ہیں ، وہاں چاند کے مسئلے پر جھگڑا کھڑا کر کے ہمیں مزید تضحیک کے سوا کیا حاصل ہو گا، غیر قومیں ہمارے اوپر ہنسیں گی نہیں تو اور کیا کریں گی۔ تین تین عیدیں منا کرہمیں اپنا مذاق اڑانے میں کیا فخر محسوس ہوتا ہے۔اس مرتبہ عید کے چاندکے ساتھ ایک اور تماشہ ہوا کہ پورے ملک میں موبائل فون بند ہوگئے۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ دہشت گردی کے خطرے سے نبٹنے کے لئے یہ اقدام ضروری تھا۔اس فیصلے نے روزہ داروں کی چاند رات اور عید کے لمحات خراب کر دیئے، پہلے کسی زمانے میں عید مبارک کے لئے ڈاک میں عید کارڈ بھجوائے جاتے تھے ،اب ٹیکنالوجی کا سہارا لیا جاتا ہے اور ایک رات میں کروڑوں کے حساب سے ایس ایم ایس بھیجے جاتے ہیں اور عید کی خوشیاں ایک دوسرے کے ساتھ بانٹی جاتی ہیں، مگر اب کے یہ بھی نہ ہو سکا۔سوال بڑا سادہ ہے کہ کیا ایک دہشت گرد یا چند دہشتگردوں کا راستہ روکنے کے لئے کروڑوں موبائل صارفین کو نہتا کر دینا چاہئے، ہمارے سیکورٹی کے ماہرین کی اپنی رائے ہو گی مگر اس کے لئے کوئی بہتر راستہ تلاش بھی کیا جا سکتا ہے تاکہ عید کے چاند کے ساتھ خلق خدا کو آزار میں مبتلا نہ کر دیا جائے۔ زمانے میں اور غم تھوڑے ہیں جو ایک اور علت پال لی جائے۔ سائنس اورٹیکنالوجی کے دور میں یہ فیصلہ عجیب سا لگا، کوئی اور فول پروف طریقہ تلاش کر لیا جاتا تو چاند رات کے مزے کر کرے نہ ہوتے۔

مزید :

کالم -