این اے122 کا فیصلہ، انتخابی عمل پر سوالیہ نشان
قومی حلقہ این اے122 کے بارے میں الیکشن ٹریبونل کے فیصلے سے پھر یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ ہم اپنے نظام انتخاب کی چولیں ہی ٹھیک نہیں کر سکے، جمہوریت کیا ٹھیک کریں گے،کہنے کو سابق سپیکر ایاز صادق کہتے ہیں کہ اس فیصلے کے نتیجے میں کوئی ہارا ہے نہ جیتا ہے، مگر میرے نزدیک تو ہمارا نظام انتخاب بُری طرح شکست کھا گیا ہے۔ خود جوڈیشل کمیشن نے بھی انتخابی عمل پر کئی سوالات اٹھائے اور اَن گنت ایسی بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی، جو انتخابی عمل کو مشکوک بنا دیتی ہیں۔ اب بھی انتخابی اصلاحات کی جو کمیٹی کام کر رہی ہے، اس کا سارا فوکس اس نکتے پر ہے کہ زیادہ سے زیادہ قوانین و قواعد و ضوابط بنائے جائیں، حالانکہ قوانین و قواعد تو پہلے سے موجود ہیں، ان پر عمل درآمد کی نوبت نہیں آئی، اب تک آنے والے فیصلوں سے یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ الیکشن کمیشن اور اس کے عملے نے انتخابی عمل کی بنیادی شراط بھی ملحوظِ خاطر نہیں رکھیں، انگوٹھوں کے نشان لگوائے، نہ کاؤنٹر فائل پر دستخط کئے گئے، فارم 14اور 15تک کو پُر نہیں کیا گیا،جبکہ اُن کے بغیر انتخابات کے اعداد و شمار کا تعین کیا ہی نہیں جا سکتا۔
شفاف انتخابی عمل کو خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا، یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ انتخابی عمل میں تمام تر بے قاعدگیاں برقرار رکھی جائیں اور یہ بھی کہا جائے دھاندلی نہیں ہوئی، جیتنے والا امیدوار یہ دعویٰ بھی نہیں کر سکتا چونکہ اُس پر دھاندلی کا کوئی الزام نہیں لگا، اس لئے انتخابات شفاف ہوئے ہیں۔ اگر کسی بے قاعدگی سے جیتنے والے امیدوار کو فائدہ پہنچا ہے یا اُس کی وجہ سے حتمی نتیجے کے بارے میں سوالات اٹھے ہیں تو انتخابات کی شفافیت ختم ہو جاتی ہے۔ آئین یا الیکشن کمیشن کے قواعد میں کہاں لکھا ہے کہ جب تک کسی امیدوار کی طرف سے دھاندلی کے واضح ثبوت سامنے نہیں آئیں گے،الیکشن کو شفاف سمجھا جائے گا، اُس میں تو یہ لکھا ہے کہ انتخابات شفاف اور غیر جانبدارانہ کرائے جائیں گے اور اس مقصد کے لئے وضع کئے گئے تمام قواعد و ضوابط پر حرف بحرف عمل کیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن اگر اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو آئین یا قانون میں اس کی قطعاً گنجائش موجود نہیں کہ اس کے اس عمل سے صرفِ نظر کر کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کر لیا جائے۔ پہلے سعد رفیق اور اب ایاز صادق۔ یہ عجیب منطق پیش کر رہے ہیں کہ ٹریبونلز نے اُن پر دھاندلی کا الزام نہیں لگایا، اس لئے انہیں کس بات کی سزا دی جا رہی ہے۔ وہ اس بات کو نہیں جھٹلا رہے کہ انتخابی عمل میں سنگین بے ضابطگیاں روا رکھی گئی ہیں، جب بے ضابطگیاں ہوئی ہیں، تو الیکشن صاف و شفاف کیسے ہو گئے؟ کیا صرف اس وجہ سے اِن تمام بے ضابطگیوں اور قانون شکنی کو قبول کر لیا جائے کہ جو امیدوار جیت گیا ہے، اُس کا ان میں کوئی کردار نہیں تھا۔ کیا میچ کے دوران ریفری ہر فاؤل پلے کو صرف اس لئے نظر انداز کر دے کہ جو ٹیم جیت رہی ہے، اُس کا اس میں کوئی کردار نہیں۔ سو اب یہ موقع ہے کہ ہم حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کریں کہ ہمیں نظریہ ضرورت کے مطابق چلنا ہے یا اپنے بنیادی جمہوری عمل، یعنی نظام انتخاب کو ہر قیمت پر درست کرنا ہے؟
عمران خان کی یہ بات قرین انصاف نظر آتی ہے کہ جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں الیکشن کے دوران روا رکھی گئی، جن بے باقاعدگیوں اور مجرمانہ غفلت کا ذکر کیا ہے اُن کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایا جائے۔ انہوں نے اِس سلسلے میں چیف الیکشن کمشنر کو ایک خط بھی لکھ رکھا ہے،جس کا انہیں ابھی تک جواب نہیں ملا، اور انہوں نے جواب کے لئے دو ہفتے کا الٹی میٹم دے دیا ہے، جس کے بعد وہ الیکشن کمیشن کے سامنے دھرنا دیں گے، بعض آئینی عہدوں کو آئینی تحفظ تو اس لئے دیا گیا تھا کہ وہ بلا خوف و خطر اور آزادی کے ساتھ اپنے فرائض کو نبھائیں گے، لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ان عہدوں پر براجمان افراد نے اس تحفظ کو منفی طور پر استعمال کیا اور اس کا مطلب یہ نکالا کہ انہیں ہر کام کی آزادی ہے، حتیٰ کہ وہ اپنے منصب کی بنیادی روح سے بھی انحراف کر سکتے ہیں۔الیکشن کمیشن کے وہ صوبائی ارکان اب بھی موجود ہیں، جنہوں نے2013ء کے انتخابات کرائے، الیکشن کمیشن کے حوالے سے جتنی بھی بے قاعدگیوں کا انکشاف ہو رہا ہے، اُن کی ذمہ داری براہِ راست اُن پر عائد ہوتی ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ وہ فخر الدین جی ابراہیم کی طرح اپنی ناکامی کو تسلیم کر کے عہدوں سے سبکدوش ہو جاتے، لیکن وہ آئین کا کور لے کر عہدوں سے چمٹے ہوئے ہیں۔ اُن کی موجودگی میں آنے والے بلدیاتی انتخابات سمیت جتنے بھی ضمنی انتخاب ہوں گے، اُن پر انگلیاں اٹھیں گی، قوموں کی زندگی میں افراد کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، بلکہ قانون اور روایات کو اصل مقام حاصل ہوتا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن کی2103ء کے انتخابات میں بالواسطہ یا بلاواسطہ نااہلی ثابت ہوتی ہے اور اس کے مضبوط شواہد بھی شامنے آ چکے ہیں، تو پھر ایسے لوگوں کا قوم کے اہم ترین ادارے پر مسلط رہنا، مزید خرابی اور انتشار کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر یہ صوبائی الیکشن کمشنرز ذمہ داری قبول کر کے اپنے عہدوں سے مستعفی نہیں ہوتے تو حکومت کو جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف آئینی ریفرنس پیش کرنا چاہئے۔ اگر حکومت آڈیٹر جنرل کو قبل از وقت اُن کے عہدے سے بذریعہ ریفرنس ہٹا سکتی ہے ، تو اِن افراد کو کیوں نہیں ہٹا سکتی، جن کی وجہ سے مُلک میں نظامِ انتخابات مشکوک ٹھہرا اور پچھلے اڑھائی سال سے مُلک انتشار کا شکار ہے۔
کبھی کبھی تو یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان میں انتخابی عم اس قدر انتشار کا شکار کیوں ہے؟ بھارت ہم سے کئی گنا بڑا مُلک ہے، مگر وہاں انتخابی عمل کو فول پروف بنا لیا گیا ہے۔ پاکستان میں ابھی تک ایسے خلا موجود ہیں، جن سے فائدہ اٹھا کر سیاسی جماعتیں اور امیدوار اپنا کام دکھا جاتے ہیں۔ نادرا جیسا جدید ادارہ بھی اس خامی کو دور نہیں کر سکا اور یہ بات بھی سامنے آئی کہ خود نادرا کو بھی اس انتخابی نظام نے مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ مثلاً انگوٹھوں کی تصدیق والا معاملہ مذاق بن کر رہ گیا ہے، حالانکہ انتخابات سے پہلے اس بارے میں بلند بانگ دعوے کئے گئے تھے۔ درست سیاہی استعمال نہ کرنے کی ذمہ داری ابھی تک کسی پر نہیں ڈالی گئی، جبکہ اس معاملے کو فوری طور پر ایف آئی اے کے سپرد کیا جانا چاہئے تھا۔ مجھے سپریم کورٹ کے وکیل وسیم شہاب ایڈووکیٹ نے بتایا کہ پاکستان کے انتخابی قواعد و ضوابط ہر لحاظ سے شفاف انتخابات کی ضمانت دیتے ہیں، مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا،جیسا کہ اب تک کے کیسوں میں سامنے آیا ہے۔ بنیادی شرائط کو بھی پیش نظر نہیں رکھا گیا۔ اگر انتخابی عمل کی ہر شق پر پوری طرح عمل کیا جائے، تو دھاندلی کا کوئی امکان ہی باقی نہ رہے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن انتخابات کے دِنوں میں عملہ سرکاری اداروں سے مستعار لیتا ہے، صرف ایک بار انہیں تربیت کے لئے بلایا جاتا ہے اور چند گھنٹے کی تربیت کے بعد سمجھ لیا جاتا ہے کہ وہ شفاف انتخابات کو یقینی بنائے گا، حالانکہ ان میں سے اکثر کو بیلٹ بکس تک ٹھیک طرح سے بند کرنے نہیںآتے، غیر تربیت یافتہ عملے کی وجہ سے ایسے خلا رہ جاتے ہیں، جن سے فائدہ اٹھا کر انتخابات کے نتیجے پر اثر انداز ہوا جا سکتا ہے۔جیسا کہ اِن انتخابات میں ہوا۔ کاؤنٹر فائل تک غائب پائی گئیں، فارم14اور 15 جن کے ذریعے کسی پولنگ سٹیشن کا سارا حساب کتاب سامنے آتا ہے،انتخابی عملے نے پُر ہی نہیں کئے۔ اُن کی تجویز تھی کہ الیکشن سے کم از کم دو ہفتے پہلے انتخابی عملے کو تربیت دینے کا انتظام کیا جائے۔ اس دوران باقاعدہ فرضی پولنگ سٹیشن بنا کے ریہرسل کرائی جائے، تمام کاغذات مکمل کرنے کا طریقہ بنایا جائے اور ریکارڈ کو درست رکھنے کی اہمیت اُجاگر کر کے یہ تنبیہہ کی جائے کہ اس کے بعد بھی اگر کوئی غلطی یا کوتاہی سرزد ہوئی تو اس کے لئے قانون کا سامنا کرنا پڑے گا، تب کہیں جا کر ہی کوئی شفاف انتخابی عمل وضع کرنے میں کامیاب ہوں گے۔
وسیم شہاب ایڈووکیٹ نے درست پہلوؤں کی نشاندہی کی ہے، مگر یہاں تو تھیلوں کی سیلیں ٹوٹ جاتی ہیں، اندر سے اہم کاغذات نکال لئے جاتے ہیں، اُن کی جگہ ردی کاغذ ملتے ہیں، پولنگ سٹیشنوں پر تعینات انتخابی عملہ تو اپنا فرض ادا کر کے گھروں کو چلا جاتا ہے، جو کام ریٹرننگ افسروں کے دفاتر میں ہوتا ہے اُسے فول پروف کیسے بنایا جائے، جب تک اِس حوالے سے قانون سازی نہیں کی جاتی کہ جو بھی انتخابی دھاندلی یا بے ضابطگی میں ملوث ہوا اُسے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا، اُس وقت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ پریزائیڈنگ افسروں کی حد تک تو مقدمات بھی درج ہو جاتے ہیں اور انہیں گرفتار بھی کر لیا جاتا ہے، کیا ریٹرننگ افسر فرشتے ہوتے ہیں یا صوبائی الیکشن کمشنرز آسمان سے اترتے ہیں کہ انہیں ہر قسم کی ذمہ داری سے مبرا قرار دیا جائے۔ یہ صورت حال اب جوں کی توں نہیں چل سکتی، اس میں اصلاحات ناگزیر ہیں، عمران خان کو یہ کریڈٹ ملنا چاہئے کہ انہوں نے انتخابی نظام کی بے قاعدگیوں کو قوم کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے، انتخابی عمل پر عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کے لئے ان خرابیوں کو دور کرنا ضروری ہے، جن کی جوڈیشل کمیشن سمیت دیگر عدالتی فیصلوں میں نشاندہی ہو چکی ہے۔