چین کی دولت مند اشرافیہ میں ’’متبادل مجرم‘‘ کی روایت آج بھی برقرار
بیجنگ(مانیٹرنگ ڈیسک) کتوں کا گوشت کھانے کا تہوار ہو یا لڑکیوں کی شادی کے منڈیا ں لگانے کی روایت، چین کی رسوم ورواج کے بارے میں اکثراوقات چشم کشا انکشافات سننے کو ملتے ہیں۔ آج ہم آپ کو چینی معاشرے کے ایک ایسے رخ سے آشنا کرنے جا رہے ہیں جس کے متعلق جان کر آپ حیران رہ جائیں گے۔چین کی دولت مند اشرافیہ میں یہ روایت عام پائی جاتی ہے کہ جب ان سے کوئی جرم سرزد ہو جائے تو وہ دولت کے بل پر کسی اپنے ہم شکل کو رقم دے کر اپنی جگہ عدالتی ٹرائل میں کھڑا کرتے ہیں اور اگر ان کا جرم ثابت ہو جائے تو ان کی جگہ وہی جعلی ملزم ہی سزا بھگتتا ہے۔ بدلے میں وہ امیرترین شخص جو اصل مجرم ہوتا ہے اس جعلی مجرم کو مزید رقم دیتا ہے۔ یہ روایت چینی اشرافیہ میں ایک رسم کی صورت میں پائی جاتی ہے جسے ’’ڈنگ ژوئی‘‘(Ding Zui)کا نام دیا گیا ہے جس کا اردو ترجمہ ’’متبادل مجرم‘‘ ہے۔2012ء میں چینی اشرافیہ کی ایک خاتون ’’گو کیلائی‘‘(Gu Kailai) پر ایک شخص کو قتل کرنے کے الزام کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ حیران کن طور پر عدالت میں ایک ہی سماعت میں اس کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا کیونکہ گو کیلائی نے بڑے آرام سے اقبال جرم کر لیا تھا اور کہا تھا کہ اسے جو بھی سزا دی جائے گی وہ آرام سے قبول کر لے گی۔ عدالت نے اسے ’’تعطل شدہ‘‘ سزائے موت دی تھی، سزائے موت کی یہ قسم عموماً دو سال کی قید کے بعد عمر قید میں تبدیل کر دی جاتی ہے۔ چینی میڈیا میں گو کیلائی کے اس قدر تیز رفتار عدالتی ٹرائل پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا اور جب تحقیق کی گئی تو پتا چلا کہ عدالت میں بطور مجرم پیش ہونے والی اور سزا پانے والی خاتون اصل گو کیلائی نہیں تھی بلکہ اس نے رقم دے کر اپنے نام سے کسی اور ملتی جلتی شکل والی خاتون کو اپنی جگہ گرفتار کروا دیا تھا، وہ خاتون کسی معاہدے کے تحت ازخود گرفتار ہو کر عدالت میں آئی تھی شاید اسی لیے اس نے فوراً اقبال جرم کر لیا اور ایک ہی دن میں کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ چینی میڈیا کے اس انکشاف کے بعد انٹرنیٹ پر چینی عوام نے اپنے غیض و غضب کا اظہار کیا تھا لیکن چینی حکام نے انٹرنیٹ صارفین کی طرف سے انٹرنیٹ پر پوسٹ کیے گئے ردعمل کو راتوں رات انٹرنیٹ سے ہٹا دیا تھا۔ ’’فنانشل ٹائمز‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق سکیورٹی ماہرین نے جو چہرہ شناسی کے آلات کے ماہر بھی تھے، کا کہنا تھا کہ جو خاتون عدالت میں پیش ہوئی وہ واقعی گو کیلائی نہیں تھی۔ اس طرح کے اور بھی کئی مقدمے چین میں سامنے آچکے ہیں۔