امریکی ناکامیاں اور ڈونلڈ ٹرمپ کی بڑھکیں
ڈونلڈ ٹرمپ نے جب سے امریکی صدر کا منصب سنبھالا ہے، اول فول بکنے میں خاصے ریکارڈ بناچکے ہیں، لیکن دو روز پہلے انہوں نے امریکی فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے بارے میں جو کچھ کہا، اس سے اس امر کی تصدیق ہوگئی ہے کہ وہ چھکے لگانے کے عادی ہیں، چاہے آؤٹ ہی کیوں نہ ہو جائیں، انہوں نے خطے میں امن کے لئے پاکستان کی قربانیوں اور کوششوں کو نہ صرف یکسر نظر انداز کیا، بلکہ یہ دھمکی بھی دی کہ پاکستان نے دہشت گردی ختم کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات نہ اٹھائے تو سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے، جب پوری دنیا اس بات کو تسلیم کررہی ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ داعش کو شمالی علاقوں میں قدم جمانے کا موقع نہیں دیا۔ اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ یہ بقراطی جھاڑ رہے ہیں کہ پاکستان نے کچھ نہیں کیا۔ اصل میں ہم نے امریکہ کو کبھی انکار نہیں کیا اور اسے یہ بری عادت ڈال دی ہے کہ وہ ہم سے ڈومور کا تقاضا ہی کرتا رہے اور ہم بھی سرجھکائے پورا کرنے میں سعادت محسوس کریں، اس لئے امریکہ کو ہمیشہ یہ ہلاشیری ملی ہے کہ وہ ہماری تمام تر قربانیوں کو بھلاکے ہمیں مزید اقدامات اٹھانے کے لئے ایسی دھمکیاں دیتا رہے جو ڈونلڈ ٹرمپ نے دی ہیں۔
ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے جب ٹرمپ کی وزیر اعظم بھارت نریندر مودی سے ملاقات ہوئی تھی، امریکہ نے واضح کردیا تھا کہ وہ علاقے کی چودھراہٹ بھارت کو دینا چاہتا ہے۔ بھارت سے مضبوط تعلق بنانا امریکہ کی اس لئے بھی ایک بڑی مجبوری بن گئی ہے کہ پاکستان نے سی پیک منصوبے کے لئے چین سے معاہدہ کررکھا ہے۔ حالیہ دنوں میں چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی بھی اس بات کی گواہی ہے کہ امریکہ، بھارت کو چین کے مقابل کھڑا کرنا چاہتا ہے اور بھارت کا سب سے بڑا دکھ پاکستان ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کشمیر ایک بنیادی مسئلہ ہے اور امریکہ اب کھل کر کشمیر کے ایشو کو دبانا چاہتا ہے، تاکہ بھارت اس سے بے پروا ہوکر علاقے میں امریکی مفادات کا تحفظ کرسکے۔ افغانستان میں امن اس لئے کبھی قائم نہیں ہوسکتا کہ وہاں بھارت کی عمل داری ہے اور بھارت کبھی نہیں چاہتا کہ پاکستان اپنے مغربی بارڈر سے مطمئن ہو کر بیٹھ جائے اور اس کا سارا رُخ بھارتی افواج کی طرف ہو۔ اب اس میں ایک اور اہم ایشوسی پیک بھی شامل ہوچکا ہے، یہ منصوبہ امریکہ، بھارت اور افغانستان تینوں کے لئے ایک بہت بڑا دکھ ہے۔ پاکستان اور چین کے اس مشترکہ منصوبے کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں پاکستان ایک بہت بڑی طاقت بن کر اُبھرے گا۔
اس منصوبے کی تکمیل کے بعد خود امریکہ، بھارت اور افغانستان کو پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے پڑیں گے۔ وگرنہ ان کی اقتصادی صورت حال چین کے مقابلے میں صفر ہوجائے گی۔ غور کرنے کا نکتہ یہی ہے کہ ماضی میں امریکہ ہمیشہ بھارت اور پاکستان کو برابری کی بنیاد پر دیکھتا آیا ہے۔ کشمیر کے معاملے میں بھی اس کا موقف متوازن رہا ہے، لیکن اب اس کا جھکاؤ واضح طور پر بھارت کی طرف ہے۔ افغانستان میں امریکہ نے اسے کلیدی کردار دے دیا ہے۔
آخر اس کی کیا وجہ ہے، امریکہ کومعلوم بھی ہے کہ بھارت پاکستان میں دراندازی کرتا ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اکثر ’’را‘‘ کا ہاتھ ہوتا ہے، مگر اس کے باوجود بھارت پر دستِ شفقت کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ امریکہ چین کو سپر پاور بنتے نہیں دیکھ سکتا، خاص طور پر جنوبی ایشیا میں چین کی بلاشرکتِ غیر برتری امریکہ کو کسی صورت قبول نہیں، لیکن سی پیک کا منصوبہ ایک ایسی تبدیلی ہے جو اس علاقے کو امریکی چنگل سے نکال سکتی ہے۔ سوڈونلڈ ٹرمپ ایک طرف دباؤ بڑھاکے پاکستان کو مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اس منصوبے میں چین کی بلاشرکت غیر اجارہ داری پر نظر ثانی کرے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف تعاون نہیں کررہا، تو یہ اتنا ہی بڑا جھوٹ ہے کہ جتنا نائین الیون کا واقعہ تھا، پاکستان امریکہ کی مسلط کردہ اس جنگ میں ستر ہزار جانوں کی قربانی دے چکا ہے۔ اربوں ڈالرز کا نقصان اٹھایا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ تو یاد ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو کروڑوں ڈالرز کی امداد دی یہ یاد نہیں کہ ان دو دہائیوں سے مسلط جنگ نے پاکستان کی معیشت کو نقصان کتنا پہنچایا ہے۔ ضرب عضب، آپریشن ردالفساد تو حالیہ دنوں کی جنگیں ہیں، اس سے پہلے کتنی بار دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کئے گئے۔ آج پاک فوج دعوے سے یہ کہہ رہی ہے کہ پاکستان نے اپنی حدود کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا صفایا کردیا ہے۔ اب دہشت گردی کا ایک کیمپ بھی موجود نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ، بھارت اور افغانستان تینوں یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان نے جس طرح اپنے علاقے میں امن قائم کیا ہے اور قبائلی علاقوں میں رٹ آف گورنمنٹ بحال کی ہے، اسی طرح افغانستان میں بھی کرے۔ یہ مضحکہ خیزبات ہے۔ پاکستان تو اتنا ہی کرسکتا تھا کہ اپنی حدود کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہ بننے دے۔ وہ پاک فوج کی قربانیوں سے ممکن ہوچکا ہے۔
حتٰی کہ افغانستان سے پاکستان میں دراندازی کا سلسلہ بھی ختم ہوچکا ہے۔ اب کابل یا کسی اور شہر میں دہشت گردی کے جو واقعات ہوتے ہیں، ان کا مرکز پاکستان نہیں، بلکہ خود افغانستان ہے۔ امریکی ذرائع کے مطابق افغانستان کے ساٹھ فیصد رقبے پر آج بھی طالبان کا قبضہ ہے۔ اب کوئی ڈونلڈ ٹرمپ سے پوچھے کہ اتنی لمبی چوڑی امریکی اورنیٹو کی برسوں سے فوج رکھنے کے باوجود افغانستان کے چالیس فیصد سے بھی کم علاقے پر ان کی عملداری کیوں ہے اور جس 60فیصد علاقے پر نہیں ہے، وہاں سے دہشت گردی کے کیمپ کون ختم کرے گا اور کیمپ ختم نہیں ہوں گے تو افغانستان میں امن کیسے قائم ہوسکے گا؟
امریکہ نے جب انہی افغان طالبان کے ذریعے روس کو نکالا تھا تو اس وقت اسے اندازہ نہیں تھا کہ جو لوگ روس کو بھگا سکتے ہیں، وہ امریکہ کو کیسے قدم جمانے دیں گے۔ پھر بقول ہیلری کلنٹن امریکہ کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ جن افراد کو روس کے خلاف مجاہد بناکے استعمال کیا، روس کے جانے کے بعد ان کی خبر تک نہ لی، انہوں نے افغانستان میں جڑیں پکڑیں اور اب امریکہ انہی کو مارنے کے درپے ہے، مگر اب یہ جن بوتل میں بند نہیں ہورہا۔ امریکہ کی افغانستان کے معدنیات کے ذخیروں پر نظر ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جہاں یہ ذخیرے موجود ہیں، وہاں طالبان کا تسلط ہے، اب ایسے میں امریکہ افغانستان میں تعینات اپنے فوجیوں پر ہر سال اربوں روپے خرچ کررہا ہے تو اس کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید فوج بھیجنے کا اعلان کیا ہے اور اتحادیوں سے بھی کہا ہے کہ وہ اپنی افواج میں اضافہ کریں۔ غالباً منصوبہ یہ ہے کہ پوری فورس لگا کر افغانستان میں طالبان سے مزید علاقہ واگزار کرایا جائے۔ اب اس مشکل کام میں کامیابی کے امکانات کچھ زیادہ نہیں، اس لئے امریکہ پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا کر اپنے عوام کی نظر میں سرخرو ہونا چاہتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں پاکستان کیا کرے؟ پہلا کام تو یہ کرنا چاہئے کہ امریکی ڈومور کے مطالبے کو یکسر مسترد کردیا جائے، دوسرا کام یہ کیا جائے کہ پاکستان سے دہشت گرد گروہوں کا مکمل طور پر قلع قمع کرکے اس کے اعدادوشمار سامنے لائے جائیں۔ تیسرا اہم کام یہ ہے کہ بھارت کی پاکستان میں دراندازی اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے نیز کلبھوشن یادیو کے اعترافات کو سامنے لایا جائے۔ اس بات پر بھی زور دیا جائے کہ امریکہ، بھارت کو افغانستان کے معالمے میں کلیدی اہمیت دینے سے باز رہے، کیونکہ اس کے افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کرانے کے ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں۔