ایماندار قیادت اور شفاف نظام کے بغیر پاکستان آئندہ 50سال تک بھی بدل نہیں سکتا :پرویز خٹک
نوشہرہ( بیورورپورٹ)وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے کہاہے کہ آج ایک عجیب المیہ ہے کہ سیاستدان مسخرے بن چکے ہیں اور سٹیج پر آکر لوگوں کو لطیفے سناتے ہیں ۔قوموں کو لیڈ کرنے والے وژنری ہوتے ہیں،مسخرے نہیں ۔وہ حکمران جن کی کرپشن کی داستانیں دُنیا میں سب سے زیادہ تھیں۔ ہر کام میں کرپشن کے راستے نکالتے تھے ۔سیاست میں سرمایہ کاری کرتے اور بڑھ چڑھ کر وصولیاں کرتے تھے۔وہ ڈاکوسیاستدان آج اُٹھ کر ہماری شفاف حکمرانی میں کیڑے نکالتے ہیں اور بہتان تراشیاں کرتے ہیں۔اُن کو شرم نہیں آتی ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے مدنی محلہ ڈھیری کٹی خیل اور یونین کونسل زڑہ میانہ میں شمولیتی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔صوبائی وزیر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن میاں جمشید الدین کاکا خیل ، ضلع ناظم لیاقت خٹک ، ایم این اے ڈاکٹر عمران خٹک اور اسحاق خٹک نے بھی جلسوں میں شرکت کی۔ڈھیری کٹی خیل میں غلام سرور اور زیارت گل جبکہ زڑہ میانہ میں ڈاکٹر میر دراز نے اپنے درجنوں ساتھیوں اور خاندانوں سمیت دیگر سیاسی جماعتوں سے مستعفی ہو کر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا۔ وزیراعلیٰ نے تحریک میں شامل ہونے والے نئے لوگوں کا شکریہ ادا کیا اور کہاکہ تحریک انصاف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیچھے عمران خان کا قوم دوست ویژن اور صوبائی حکومت کی نظام کیلئے مخلصانہ کو ششیں ہیں۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ بد قسمتی سے جتنے بھی حکمران آئے انہوں نے ذاتی مقاصد پر توجہ دی ۔جن غریب عوام نے ووٹ دے کر اُنہیں حکمران بنایا اُن کو یکسر نظر انداز کیا گیا ۔ رشوت اور سفارشی سسٹم کے تحت عوام کو اپنا دائمی غلام بنالیا ۔چاہیئے تو یہ تھا کہ اداروں اور غریب کے درمیان کوئی رکاوٹ موجود نہ ہو ۔تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے ایسے قابل عمل نظام کی بنیاد رکھ دی ہے جس میں ادارے حکمرانوں کی چاپلوسی کی بجائے براہ راست عوام کے خدمت گار اور جوابدہ ہیں۔ نواز شریف پوچھتے ہیں کہ اُنہیں کیوں نکالا گیا۔مطلب یہ کہ لوٹ مار کرنا ، جھوٹ بولنا اور خیانت کر نا اُن کے ہاں کوئی جرم ہی نہیں ۔عوامی وسائل کی لوٹ مار کرکے عوام کو بدحال اور پریشان کئے رکھا اور پھر سوال کرتے ہیں کہ نکالا کیوں گیا۔اگر پاکستان کو ایماندار قیادت میسر آجائے تو کسی بیرونی مدد کی ضرورت نہیں۔ پے درپے قرضوں نے پاکستان کو تباہ کیاجس کے مجرم سیاسی لیڈر ہیں۔ ایماندار قیادت اور شفاف نظام کے بغیر پاکستان آئندہ پچاس سال تک بھی بدل نہیں سکتا۔عوام کو چاہیئے کہ لوٹ مار کے خاتمے اور شفاف نظام کیلئے پی ٹی آئی کا ساتھ دیں ۔صوبائی حکومت کے وضع کردہ نظام کو قبول کریں اور اپنی استطاعت کے مطابق اس کو دیرپا بنانے کیلئے کردار ادا کریں۔پاکستان کیلئے یہی راہ نجات اور ترقی کا ضامن ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ ترقیاتی کام ماضی میں بھی ہوتے رہے اور آج بھی صوبہ بھر میں جاری ہیں مگر ملک کیسے ٹھیک کرنا ہے کسی نے کبھی نہیں سوچا ۔ وزیراعلیٰ نے عوامی نمائندوں اور عوام سے کہاکہ وہ گلی نالی کی فکر سے نکل کر قومی ترقی اور اپنے بچوں کے مستقبل کیلئے سوچیں۔تعلیم ، صحت اور دیگر اداروں کی کارکردگی کیلئے جھگڑا کریں ۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اُنہیں صوبے میں جو ڈھانچہ ملا وہ ٹو ٹ پھوٹ کا شکار اور ناکارہ تھا ہم نے عوام سے نظام ٹھیک کرنے کا وعدہ کیا تھا تاکہ حقدار کو حق مل سکے اور کسی سے نا انصافی نہ ہو۔عمران خان کی سوچ ہے کہ غریب کو بھی خان کے مقابلہ کیلئے تیار کیا جائے ۔یہ اُسی صورت میں ممکن ہے کہ جب غریب کو بھی زندگی کی بہترین سہولیات اور ترقی کے یکساں مواقع میسر ہوں۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ صوبائی حکومت نے ریکارڈ قانون سازی کرکے ایک شفاف نظام کی بنیاد ڈال دی ہے ۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام عملی طور پر اس نظام کو قبول کریں اور صوبائی حکومت سے تعاون کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہر ادارے اور ہر شخص کو اپنی حیثیت کے مطابق کردار ادا کرنا ہے ۔غلط کاموں کو روکنا اور اچھے کاموں کی معاونت ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے ۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ اُن کی حکومت نے ایک ایسا نظام وضع کیا ہے جس میں ادارے اپنا اپنا کام کر رہے ہیں۔ رشوت ، سفارش اور کمیشن کلچر کا خاتمہ کرکے میرٹ کی بالادستی یقینی بنائی ہے۔عوام صوبائی حکومت کے قوانین سے استفادہ کریں ۔ ناظمین کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کو ان قوانین سے آگاہ کریں تاکہ اُن پر عمل درآمد ممکن ہو سکے ۔اگر کوئی رشوت طلب کرتا ہے تو ہمت کرکے ثبوت کے ساتھ آگاہ کریں ۔ رشوت خور قانون سے بچ نہیں پائے گا۔ وسل بلور قانون کے تحت شکایت کنندہ کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا اور موصول شدہ رقم کا تیسرا حصہ اطلاع دینے والے کو دیا جائے گا۔ اب عوام کو زمین کے انتقال ، ڈومیسائل اور لائسنس وغیرہ کیلئے رشوت نہیں دینی پڑتی ۔15 دن کے اندر ذمہ داران یہ خدمات فراہم کرنے کے پابند ہیں بصورت دیگر اُنہیں جرمانہ دینا پڑتا ہے۔وزیراعلیٰ نے صوبائی محکموں میں اصلاحات کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ماضی میں سکولوں کے ڈھانچے کھڑے کئے گئے مگر تعلیم پر کوئی توجہ نہیں دی گئی 6 کلاسوں کیلئے دو اُستاد اور دو کمرے کہاں کا انصاف تھا ۔صوبائی حکومت نے ایک طرف 40 ہزار نئے اساتذہ بھرتی کئے تو دوسری طرف سکولوں میں سہولیات کی فراہمی پر اربوں روپے خرچ کئے۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ جب وہ حکومت میں آئے توصوبے کے ہسپتالوں کا بھی برا حال تھا مشینری خراب تھی اور کل ساڑھے تین ہزار ڈاکٹرتھے۔جن میں سے اکثریت غیر حاضر رہتی تھی ۔صوبائی حکومت نے 9 ہزار نئے ڈاکٹر بھرتی کئے مشینری ٹھیک کی تنخواہوں میں اضافہ کیا اب صوبہ بھر میں ڈاکٹر موجود ہیں۔ صوبے کے غریب اور مستحق خاندانوں کیلئے صحت انصاف کارڈ کا اجراء کیا ۔اس سکیم کے تحت پچھلے سال 17 لاکھ مستحق خاندانوں کو کارڈ دیئے گئے جبکہ رواں سال مزید7 لاکھ مستحق خاندانوں کو صحت انصاف کار ڈ دیئے جائیں گے ۔اس طرح مجموعی طور پر 24 لاکھ خاندان اس سہولت سے مستفید ہوں گے ۔محکمہ پولیس میں اصلاحات کے حوالے وزیراعلیٰ نے کہا کہ ماضی میں پولیس سیاستدانوں کی خادم تھی غریب کو انصاف نہیں ملتا تھا ہم نے پولیس کو با اختیار بنایا ۔ اب یہ ایک فورس بن چکی ہے۔پولیس کی خدمات پہلے سے کافی بہترہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ تحریک انصاف کی اتحادی حکومت نے صوبے میں گزشتہ چار سالوں میں جو اصلاحاتی اقدامات اُٹھائے اُس کی صوبے کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ پاکستان تحریک انصاف اپنی کارکردگی کی بنیاد پر دوبارہ بر سراقتدار آئے گی اور صوبے کی تاریخ بدل دے گی ۔
پشاور( سٹاف رپورٹر)خیبرپختونخوا حکومت نے صوبے میں ڈینگی کی روک تھام اور اس کے خاتمے کیلئے تمام وسائل متحرک کردیئے ہیں۔ اس سلسلے میں تمام سرکاری محکموں ، تنظیموں اور کمیونٹیز کی موٹیویشن ، موبلائزیشن اور باہم مربوط جدوجہد پر مشتمل جامع حکمت عملی اختیار کی گئی ہے۔انسداد ڈینگی کی مہم مارچ تک جاری رہے گی تاکہ نومبر سے مارچ تک ڈینگی وائرس کیلئے خطرناک موسم کے دوران ڈینگی کی بیماری کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔ایمرجنسی مدد کیلئے ٹال فری فون نمبر قائم کیا گیا ہے ۔عوامی آگاہی کیلئے آج سے تعلیمی اداروں میں بروشرزتقسیم کئے جارہے ہیں جبکہ صوبہ بھر میں ڈینگی کے مریضوں کیلئے علیحدہ وارڈز مختص کئے گئے ہیں۔صفائی کے حوالے سے نہ صرف بلدیاتی حکومتوں بلکہ سیکرٹری صحت کی نگرانی اور لیڈر شپ کے تحت معاشرے کے ہر طبقے کو متحرک اور اس مہم میں شامل کیا جارہا ہے۔پبلک ہیلتھ ایمرجنسی قانون کا نفاذ بھی جلد عمل میں لایا جائے گا۔اس قانون کا مسودہ ویٹنگ کیلئے محکمہ قانون کے پاس ہے جسے ترجیحی بنیادوں پر حتمی شکل دی جارہی ہے ۔ان حقائق کا انکشاف اور اقدامات کا فیصلہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کی زیر صدارت اسلام آباد میں اعلیٰ سطح کے اجلاس کے دوران کیا گیا۔ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان ، وزیر صحت شہرام خان ترکئی ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری محمد اعظم خان اور سیکرٹری صحت عابد مجید نے بھی اجلاس میں شرکت کی ۔اجلاس میں انکشاف کیا گیا کہ مریضوں میں ڈینگی وائرس کی مثبت تشخیص کے سلسلے میں مبالغہ آرائی کئے جانے کا امکان ہے کیونکہ زیادہ تر مریضوں نے دوبار ٹیسٹ کرائے ہیں۔ خاص طور پر محکمہ صحت کی موبائل ٹیمیں پہنچنے پر مریضوں کے ڈبل ٹیسٹ کئے گئے ۔یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ پہلا مریض جس میں ڈینگی وائرس کی تشخیص کی گئی اُس کا تعلق آزاد کشمیر سے تھا۔ وزیراعلیٰ نے عارضی بنیادوں پر سینٹیشن سٹاف کی بھرتیوں کی منظوری دی ۔محکمہ صحت کو بھی ضرورت کی بنیاد پر سٹاف بھرتی کرنے کی منظوری دی گئی تقریبا4500سینٹیشن سٹاف ایمرجنسی بنیادوں پر بھرتی کیا جائے گا اور ہر سطح پر صفائی یقینی بنائی جائے گی ۔محکمہ صحت کی طرف سے افراد بھی تعینات کئے جا چکے ہیں۔ دو اے ڈی ایچ او ایس دو ہسپتالوں جبکہ ایک ڈپٹی کمشنر آفس پشاور میں تعینات کیا جا چکا ہے۔وزیراعلیٰ نے یقین دلایا کہ لوگوں کی زندگی کو بچانے کیلئے تمام اقدامات اُٹھائے جائیں گے اور وسائل کی کمی آڑے نہیں آنے دیں گے ۔عوام میں آگہی پیدا کرنے کے حوالے سے احتیاطی تدابیر کے سلسلے میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر مہم کا اجراء کیا جا چکا ہے جبکہ اس جان لیوا مرض کو روکنے کیلئے کمیونٹیز کی رہنمائی کیلئے خیبرپختونخوا کے ایف ایم ریڈیو سٹیشن پر پیغامات بھی باقاعدگی سے نشر کئے جارہے ہیں۔مقامی حکومتوں کے نمائندوں کو بھی اپنے علاقوں میں لوگوں کو متحرک کرنے کے عمل میں شامل کیا گیا ہے تاکہ احتیاطی تدابیر خصوصاً صفائی کا اہتمام یقینی بنایا جا سکے ۔