فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 190
ذرا غور فرمائیے ماڈل ٹاؤن سے مال روڈ پر سول لائنز تک کا یہ کرایہ بنا تھا) ہم ویران سے برآمدے میں جا کر کھڑے ہو گئے۔ کافی دیر تک کھنکارے‘ کھانسے۔ پھر دروازے پر دستک دی۔ ایک جانب برقی گھنٹی کا بٹن نظر آیا تو گھنٹی بجا دی۔ گھنٹی اتنی زور سے بجی کہ ہم خود ہی اچھل پڑے۔ یا شاید سنسان ماحول میں یہ آواز اچانک گونجی تو بہت زیادہ محسوس ہوئی۔
کچھ دیر بعد درمیانی دروازہ کھلا اور ایک اجتماعی بیرا‘ خانساماں‘ چوکیدار قسم کا ملازم نمودار ہوا۔ اجلے کپڑے پہنے ہوا تھا۔ دیکھنے میں میرپور کا یا پھر سرحد کا لگتا تھا۔ ہمارے سوٹ بوٹ کو دیکھ کر کچھ رُعب میں آ گیا۔ ’’صاحب تو اس وقت نہیں ہے صاحب جی۔‘‘
’’دروازہ کھولو۔ ہمیں میڈم سے ملنا ہے‘‘ ہم نے بڑے رُعب سے کہا اور اس کو سوچنے کا موقع دئیے بغیر اندر داخل ہو گئے۔ وہ مرعوب ہو کر ہمارے پیچھے چلنے لگا۔ یہ تو ہمیں اندازہ ہو چکا تھا کہ کوٹھی میں کوئی اور موجود نہیں ہے۔
ملازم نے ہمیں ایک سجے سجائے ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 189 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’ابھی میم صاحب کو بولتا ہوں‘‘ یہ کہہ کر وہ غائب ہو گیا۔ چند لمحے بعد زیبا نے پردے کے پیچھے سے جھانکا۔ وہ بے شمار گرم کپڑے پہنے ہوئے تھیں۔ ان سب کے اوپر ایک کمبل بھی اوڑھ رکھا تھا پھر بھی سردی سے کانپ رہی تھیں۔
’’ارے آفاقی تم۔ السلّام علیکم۔ کیا حال ہے؟‘‘ وہ ایک صوفے پر سارا سامان سنبھال کر بیٹھ گئیں۔
’’ہم تو ٹھیک ہیں۔ آپ سنائیے؟‘‘
کہنے لگیں ’’بھئی یہاں تو سردی بہت ہے۔ برا حال ہو گیا ہے‘‘ وہ باقاعدہ کانپ رہی تھیں۔
’’لالی جی کہاں ہیں؟‘‘ ہم نے پوچھا۔
’’ادھر بیڈ روم میں ہیں۔ ہیٹر کے سامنے بیٹھی ہیں۔ آؤ تم بھی وہیں آ جاؤ۔‘‘
ہم ان کے ساتھ چل پڑے۔ بیڈ روم میں لالی جی بیڈ پر دو تین لحافوں اور کمبلوں میں لپٹی ہوئی بیٹھی تھیں۔ صرف ان کی عینک نظر آ رہی تھی ورنہ ہم تو انہیں پہچان بھی نہیں سکتے تھے۔ ہمیں دیکھ کر وہ بھی مسرور ہو گئیں۔ زیبا بھی دوبارہ بیڈ پر مزید کمبلوں اور لحافوں کے اندر سمٹ کر بیٹھ گئیں۔ اب باتیں شروع ہوئیں۔ وہ کچھ سہمی ہوئی نظر آ رہی تھیں۔ دبی زبان میں انہوں نے ہمیں بتایا کہ نخشب صاحب نے فون کر کے ایک فلم کے لئے بات کرنے کے سلسلے میں مدعو کیا تھا مگر اب ان کی شرطیں بہت ہیں۔ سب سے بڑھ کر تو یہ کہ وہ ان کی دو فلموں کے سوا کسی اور فلم میں کام نہیں کریں گی۔ ان کی مہمان رہیں گی اور ان کی اجازت کے بغیر کسی سے نہیں ملیں گی۔ معاوضہ بھی انہوں نے بہت کم بتایا تھا۔ جب سے وہ لوگ لاہور آئے تھے عملاً قید خانے میں تھے۔ نہ کسی کو فون کر سکتے تھے نہ کہیں جا سکتے تھے۔ وہ ایس ایم یوسف صاحب سے بات کرنے کی خواہش مند تھیں جنہوں نے زیبا کو ایک فلم میں کام کرنے کی پیشکش کی تھی مگر نخشب صاحب کی طرف سے اجازت نہیں تھی۔ ایک تو یہ سب‘ اوپر سے سخت سردی۔
’’آفاقی۔ تم ہی مشورہ دو‘ اب ہم کیا کریں‘‘ لالی جی نے لحاف سرکا کر ہم سے پوچھا۔
اتنی دیر میں ملازم چائے لے آیا۔ بسکٹ بھی تھے۔ چائے دانی پر ٹکوزی رکھی ہوئی تھی ۔ برتن بھی قیمتی تھے۔ یعنی سب کچھ سلیقے کا تھا۔ اسے دیکھتے ہی وہ دونوں خاموش ہو گئیں۔
ملازم کے جانے کے بعد ہم نے پوچھا ’’بھئی آپ نے لاہور بھی دیکھا یا نہیں؟‘‘
لالی جی نے کہا ’’لاہور خاک دیکھتے ۔ ایک تو قید‘ اوپر سے سردی۔ بھئی تمہارے لاہور میں تو ہماری آئس کریم بن گئی ہے ایمان سے۔‘‘
ہم نے انہیں مشورہ دیا کہ سارے لحاف‘ کمبل ‘ گدے‘ رضائیاں وغیرہ اتار کر پھینک دیں۔ ہاتھ منہ دھو کر آئیں اور ڈھنگ سے بیٹھ کر چائے پئیں۔ سردی خود ہی بھاگ جائے گی۔ اس کے بعد ہمارے ساتھ لاہور دیکھنے کے لئے چلیں۔
’’مگر نخشب صاحب!‘‘
ہم نے کہا ’’دیکھو بھائی۔ تم ان کی چوری کر کے تو نہیں بھاگی ہو۔ نہ ان کی دین دار ہو۔ اپنی مرضی کی مالک ہو۔ چلو اُٹھو۔ ہم ٹیکسی منگاتے ہیں۔‘‘
ہماری یہ بات اُن کی سمجھ میں آ گئی۔ وہ دونوں تیار ہونے میں مصروف ہو گئیں اور ہم نے کمرے میں لگی‘ ملازم کو بلانے والی گھنٹی بجا دی۔
’’یس سر جی؟‘‘ وہ جن کی طرح نمودار ہو گیا۔(جاری ہے)
فلمی و ادابی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔ قسط نمبر 191 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)