ریاست کو سنگین خطرات لاحق ,الیکٹرانک میڈیا ریٹنگ کے چکر میں انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہا ہے :مجیب الرحمن شامی کا پریس کلب میں سیمینار سے خطاب
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن) سینئر صحافی ،تجزیہ کار اور روزنامہ ’’پاکستان ‘‘ کے چیف ایڈیٹر مجیب الرحمٰن شامی نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اتھارٹی تقسیم ہو چکی ہے، ہر ادا رہ اپنی مرضی سے کام کر رہا ہے، ریٹنگ کے چکر میں الیکٹرانک میڈیا میں اب ایسے ایسے الفاظ استعمال ہو رہے ہیں جس کا پرنٹ میڈیا میں تصور بھی نہیں تھا۔
تفصیلات کے مطابق لاہور پریس کلب کے زیر اہتمام ’’ موجودہ سیاسی صورتحال اور میڈیا کاکردار‘‘ کے عنوان پر سیمینار منعقد کیا گیا جسمیں سینئر صحافیوں مجیب الرحمن شامی ،عارف نظامی ، نوید چوہدری، بیدار بخت بٹ، سیکرٹری ایل پی سی عبدالمجیدساجد ، ممبر گورننگ باڈی اسماعیل جکھڑ، سالک نواز، نعمان وہاب سمیت دیگر نے شرکت کی۔ سیکرٹری لاہور پریس کلب عبدالمجید ساجد نے سیمینار میں معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال میں میڈیا تقسیم ہو گیا ہے جس سے صحافی ورکرز کو بھی سمت کی سمجھ نہیں آرہی ، اب خواہشات پر مبنی پروگرامز ہو رہے ہیں، پوری قوم کنفیوژن کا شکار ہے جس کے باعث اس سیمینار کی ضرورت محسوس کی گئی کہ اپنے سینئر ز سے اس اہم موضوع پر رہنمائی لی جائے۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مجیب الرحمن شامی کا کہنا تھا کہ مہذب دنیا میں جو بھی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے اس کے خلاف کارروائی ہوتی ہے مگر یہاں اس سے مختلف ہو رہا ہے، ٹرمپ سے تو یہ بعد میں نمٹیں گے پہلے اپنے معاملات میں مرکزیت تو قائم کریں جس کا جہاں جی آئے فیصلہ کر کے بیٹھ جاتا ہے، ہماری ریاست کو سنگین خطرات لاحق ہیں ، فوج کا بڑا حصہ ملک کے اندر الجھا ہوا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں بڑی مشکل صورتحال ہے کہ ریاست کے ادارے قابو سے باہر ہو چکے ہیں اور اپنے دائرہ اختیار سے باہر کام کر رہے ہیں نہ جانے یہ خود سری ہمیں کہاں لیکر جائے گی؟۔
سینئر صحافی و تجزیہ نگار عارف نظامی نے کہا کہ ایسی خراب صورتحال پہلے کبھی نہیں ہوئی ، آج میڈیا آزاد ہے مگر میڈیا پر کمرشلزم کا قبضہ ہو چکا ہے خصوصاً الیکٹرانک میڈیا میں ایڈیٹر نہیں ہوتا اورمیڈیا ہاﺅس کا مالک ہی سب کچھ ہوتا ہے ، ریٹنگ حاصل کرنے کیلئے بغیر تصدیق کے خبر چلا دی جاتی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، لوگ اب نیوز چینلز کو انٹرٹینمنٹ کے طور پر دیکھتے ہیں ، اگر آپ دیکھنا چاہتے ہیں کہ حکومت جا رہی ہے تو آپ ایک مخصو ص چینل لگا لیں اور اگر دیکھنا چاہیں کہ حکومت مضبوط ہے تودوسرا مخصوص چینل لگا لیں، پیمرا بھی حکومت کی پالیسیوں کے تحفظ کیلئے کام کر رہی ہے۔
سینئر صحافی بیدار بخت بٹ نے کہا کہ پرنٹ میڈیا دنیا بھر میں ذمہ دار ہے مگر الیکٹرانک میڈیا میں ریٹنگ کے چکر میں خبر کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا،چھوٹی چھوٹی باتوں پر پروگرامز ہو جاتے ہیں جبکہ خطے کے اہم ایشوز پر کوئی پروگرام نہیں ہو تا، ہمیں پاکستان کے سنجیدہ مسائل بھی پروگرامز کرنے چاہئیں۔سینئر صحافی اور مقامی اخبار کے ایڈیٹر نوید چوہدری نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت کئی قسم کے بحران ہیں جس میں غیر یقینی کی صورتحال پہلے نمبر پر ہے، آج خیبر سے کراچی تک غیر یقینی کی صورتحال پھیلی ہوئی ہے ، اس ملک کی سب سے بڑی ضرورت استحکام ہے جب استحکام ہی نہیں ہوگا تو باقی سب چیزیں بے معنی ہیں، اس مرتبہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے براہ راست ریاست پاکستان پر الزامات لگائے ہیں جس کا جواب ہماری عسکری قیادت کی جانب سے دیا گیا ہے، اس وقت پاکستان میں کوئی ایک ادارہ بھی ایسا نہیں ہے جس پر کوئی دوسرا فریق آنکھ بند کرکے اعتماد کر سکے، اس غیر یقینی کی صورتحال کو بڑھاوا دینے میں کسی قدر میڈیا کا بھی کردار ہے اور اب غیر یقینی کی صورتحال کو ختم کرنے کیلئے میڈیا کو اپنی سمت تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، تمام اداروں کو آئین پاکستان کی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنا ہوگاورنہ یہ بگاڑ بڑھتا رہے گا ۔
سینئر صحافی طاہر ملک نے کہا کہ میڈیا ایک عام آدمی کی آواز ہے ، پاکستان کی منفرد صحافتی تاریخ ہے ، صحافیوں نے چار جرنیلوں سے جمہوریت کیلئے لڑائی لڑی اور دنیا بھر میں صرف پاکستان کے صحافیوں نے ہی کوڑے کھائے ہیں، اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ریاستی ادارے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں، نواز شریف کے کیس کا تو چھ ماہ میں فیصلہ ہو گیا مگر لاکھوں کیس ابھی بھی التوا کا شکار ہیں، ریاست نے عام آدمی کو کنٹرول کرنے کیلئے میڈیا کو کنٹرول کر لیا ہے ، موجودہ بحران کے ذمہ دار حکومت، اداے اور میڈیا مالکان ہیں، ایسا قانون بنانا چاہئے کہ میڈیا مالک صحافت کے علاوہ اور کوئی کاروبار نہ کر سکے۔تقریب کے اختتام پر کونسل ممبر سرمد سعیدی نے صحافیوں کے حوالے سے اپنی لکھی نظم " میرے اہل قلم ،عظمتوں کے نشان" پڑھ کر سنائی۔