اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 21

اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط ...
اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 21

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میں نے باقی ساری رات جاگ کرگزار دی۔
دن چڑھا تو بادشاہ کی طرف سے متعین شاہی گارڈز کے دستے کا سالار شاہی مجرمہ کو وصول کرکے پابہ زنجیر لے جانے کے واسطے مندر میں میری پاس آیا تو میں اسے لے کر ساتھ والی کوٹھری میں لے گیا۔ کوٹھری کا دروازہ کھلا پڑا تھا اور روکاش غائب تھی۔ میں نے مصنوعی حیرت و تعجب سے سپہ سالار کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’ ہم نے اسے اس کوٹھری میں بند کیا تھا۔‘‘ مندر میں شور مچ گیا تھا کہ روکاش فرار ہوگئی ہے۔بادشاہ کو اس سانحے کا علم ہوا تو اسی وقت مندر میں آگیا اور میری طرف شعلے برساتی آنکھوں سے دیکھنے لگا۔ شاید وہ سمجھ گیا تھا روکاش کو بھگانے میں میرا ہی ہاتھ تھا۔ مگر میں مندر کا سب سے بڑا پجاری تھا۔ وہ میری شان میں کوئی نازیبا لفظ استعمال نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن اس نے نائب کاہن کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’ تمہیں معلوم ہے کہ ہم نے شاہی مجرمہ کو کاہن اعظم عاطون کے حوالے کیا تھا کہ دیوی دیوتااس پر اپنی بددعائیں بھیج سکیں لیکن وہ فرار ہوگئی ہے۔ اس کے ساتھ مندر کی ایک دیوداسی بھی غائب۔ میں رموز سلطنت کے علاوہ رموز مذہبی کو بھی خوب جانتا ہوں۔ کیا تم بتا سکتے ہو کہ اس گھناؤنے جرم کی سزا کیا ہوسکتی ہے؟‘‘
اس سے پہلے کہ نائب کاہن کچھ بولے میں نے بڑے باوقار انداز میں اپنا چہرہ اٹھا کر بادشاہ سومر کی طرف دیکھا اور کہا۔

اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 20 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’ اے بادشاہ میں جانتا ہوں دیوتا بعل کے عظیم مندر کے سب سے بڑے پجاری سے جب کسی مذہبی غفلت کا ارتکاب ہوتا ہے تو اس کا قتل واجب ہوجاتا ہے اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اسے خود اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرنا پڑتا ہے۔‘‘ 
بادشاہ نے اپنی آواز کی غراہٹ اور کڑک کو دباتے ہوئے کہا۔
’’ تم نے اپنے بارے میں کیا سوچا ہے ؟ اے ۔۔۔ عظیم کاہن عاطون‘‘ 
میں نے اسی شان سے جواب دیا۔’’ میں دیوتاؤں کی مرضی کا پالن کروں گا۔ میں زہر کھا کر اپنی زندگی کا اپنے ہاتھوں خاتمہ کرنے کو تیار ہوں۔ میں آپ سے درخواست کروں گا کہ مجھے شاہی مطب سے خطرناک ترین زہر فراہم کیا جائے۔‘‘
اس وقت میرے سامنے مندر کے تمام پجاری، دیوداسیاں اور اہل کار کھڑے تھے۔ میرے فیصلے پر سبھی دم بخود ہو کر رہ گئے۔ بادشاہ کو یقیناًبڑی خوشی ہوئی تھی۔ اس کا چہرہ اس خوشی سے چمک اٹھا تھا کیوں کہ شاید وہ جان گیا تھا کہ یہ میری سازش تھی اور میں نے اپنی محبت کی وجہ سے اس کی محبوبہ دل نواز کو فرار کروا دیا تھا اور وہ یہ کبھی گوارہ نہیں کر سکتا تھا کہ روکاش اگر قتل نہیں ہوتی تو میری تحویل میں آجائے۔ اس نے فوراً حکم دیا کہ شاہی مطب سے وہ زہر ہلا ہل لایا جائے جس کے پینے سے ایک سیکنڈ کے اندر اندر موت واقع ہوجاتی ہے۔ میں نے بادشاہ سے کہا۔ 
’’ مجھے اجازت دی جائے کہ مرنے سے پہلے میں دیوتاؤں کے حضور اپنی آخری عبادات سر انجام دے سکوں۔‘‘
بادشاہ نے پہلی بار مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ تمہیں اجازت ہے۔‘‘
میں سیڑھیاں چڑھ کر چبوترے پر بچھے ہوئے سونے کے تخت پر بیٹھ گیا اور آنکھیں بند کر کے جھوٹ موٹ اشلوک بڑبڑانے لگا۔ میری منشا ان لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کر کے روکاش اور الکندہ کو موہنجودڑو سے زیادہ سے زیادہ دور نکل جانے کا موقع دیناتھا۔ مجھے خبر ہی نہیں تھی کہ روکاش کے غائب ہوجانے کی خبر سنتے ہی بادشاہ نے اپنے جانبار سپاہیوں کو اس کی تلاش میں چاروں طرف دوڑا دیا تھا۔ 
میں استھان پر بیٹھا اشلوک پڑھ رہا تھا۔ بادشاہ نائب کاہن دیوداسیاں اور پجاری خاموش کھڑے مجھے دیکھ رہے تھے۔ کچھ دیوداسیوں کی آنکھوں میں میرے لئے آنسو تھے۔ برق رفتاری شاہی گھڑسوار زہرہلاہل کا سفوف لے کر آگیا۔ میں نے آنکھیں کھول دیں۔ بادشاہ کے حکم سے سونے کے ایک پیالے میں چار گھونٹ پانی ڈال کر میرے سامنے رکھ دیا گیا۔ ساتھ ہی چمڑے کی وہ کپی بھی رکھ دی گئی جس میں زہر کا سفوف بھرا ہوا تھا۔ یہ بڑا خطرناک زہر تھا اور بادشاہ نے اپنے ان سازشی غداروں کو دینے کے لئے رکھا ہوا تھا جنہیں وہ آن واحد میں ہلاک کرنا چاہتا ہو۔ میں نے کپی کو کھول کر زہر کا سارا سفوف پانی میں ڈال دیا۔ بادشاہ نے کہا۔ ’’ کاہن اعظم کے لئے اس زہر کی ایک چٹکی ہی کافی تھی۔‘‘
’’ اے شہنشاہ! میں اپنی موت میں تھوڑی سی بھی کسر نہیں چھوڑنا چاہتا۔ میں یہ سارا زہرپیوں گا۔ ‘‘ میں نے کہا۔ 
میں نے آنکھیں بند کر کے یوں ہی کچھ اشلوک پڑھے اور پھر زہر بھرا پیالہ اٹھالیا۔ میں نے دیکھا کہ دیوداسیاں اور پجاری پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے تک رہے تھے۔ مجھے ایک دیوداسی کی دھیمی سی سسکی بھی سنائی دی۔ میں نے ان سب کی طرف دیکھ کرکہا۔
’’ دیوتا تمہارے نگہبان ہوں۔ میں نے جس طرح مذہبی قوانین کا پالن کیا ہے تم بھی انہیں اسی طرح نبھانا۔‘‘
اور سب کی آنکھوں کے سامنے میں نے پیالہ منہ سے لگایا اور سارا زہر فٹافٹ کر کے پی گیا۔ وہ مجھے سخت کڑوا لگا۔ اب میں جب کہ آپ کے شہر کراچی میں اپنے دور افتادہ کاٹج میں ساحل سمندر کے پاس اکیلا بیٹھا اپنی داستان لکھ رہا ہوں تو مجھے یاد آتا ہے کہ اس وقت مجھے خیال آیا تھا کہ پہلی بار جب مجھے فرعون مصر نے کھانے میں زہر دیا تھا میں بچ گیا تھا اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ مقدس آواز نے مجھے موت سے آزاد ہونے کی خبر بھی دی ہوئی ہے اور میری آنکھوں کے سامنے میری پیاری بیوی بوڑھی ہو کر مر گئی تھی اور میں زندہ رہا تھا لیکن کیا معلوم اس بار یہ خطرناک زہر کام کر جائے اور میں سچ مچ مرجاؤں۔ یہ سوچ کر ایک پل کے لئے میرے جسم پر کچھ گھبراہٹ سی طاری ہوگئی تھی مگر جب میں نے محسوس کیا کہ زبان اور حلق سے نیچے اترنے کے بعد زہرنے مجھے کوئی تکلیف نہیں دی تھی اور میری انتڑیوں میں کسی قسم کا درد نہیں ہوا تھا تو میں بہت حد تک مطمئن ہوگیا۔ 
میں پوری اداکاری کر رہا تھا۔ میں نے زہر پینے کے بعد ایک ایک کو نظر بھر کر الوداعی انداز میں دیکھا۔ دونوں ہاتھ بلند کر کے جوڑے اور یوں ظاہر کیا جیسے میرا گلا بند ہوگیا ہے اور میں آواز نہیں نکال سکتا۔ پھر میں وہیں سونے کے تخت پر چت لیٹ گیا۔ میں نے جان بوجھ کر ایک جھرجھری سی لی اور آنکھیں بند کر کے جسم کو ساکت کرلیا۔ اپنی سانس روک لی اور دل کی دھڑکن کو کچھ دیر کے لئے موقوف کر دیا۔ بادشاہ نے خصوصی اہلکاروں اور امراء کے ساتھ میری طرف آیا۔ پھر مجھے اس کی آواز سنائی دی۔ 
(جاری ہے )