سیاسی استحکام کی ضرورت ہے!

سیاسی استحکام کی ضرورت ہے!
سیاسی استحکام کی ضرورت ہے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


بم کو گھوڑے کی لات والی کہاوت تو معروف اور لوگوں کو یاد ہے،لیکن یہاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارتی وزیراعظم مودی جب اپنی گؤ ماتا کا ”شفاف پانی“ پینے لگا تو اس گؤ ماتا نے یہ لات مار دی،آج پوری دُنیا میں مقبوضہ کشمیر کے مظلوم تر کشمیریوں کی صدا گونج رہی ہے اور وہ بھارت جس کی دُنیا بھر میں سیاسی ساکھ تھی نکّو بن کر رہ گیا ہے، حتیٰ کہ مودی کو پہلا ہی جھٹکا فرانس میں لگا جب فرانس کے صدر نے برملا اپنی تشویش کا اظہار کیا اور مودی سے کہا کہ وہ جلد از جلد کشمیریوں کے حقوق بحال کرے اور تنازعہ کشمیر پر پاکستان سے بات چیت کر کے حل نکالے، جواب میں مودی کی زبان سے کشمیر کا لفظ تک نہ نکلا، چہ جائیکہ وہ اپنے غلط، غیرقانونی، غیر آئینی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے خلاف اقدام کا دفاع کرتا۔یوں جو کام ہم گزشتہ کئی دہائیوں سے نہیں کر سکے وہ مودی کے اس غیر انسانی عمل نے کر دیا، آج دُنیا کشمیر میں ہماری بات سننے کو تیار ہے اور کشمیریوں کی بے بسی کا ذکر کر رہی ہے۔


مَیں نے جب یہ کہا کہ ہم نے کچھ نہیں کیا تو اس سے مراد موجودہ ہی نہیں، سابقہ ادوار بھی ہیں، میرے محترم مولانا فضل الرحمن دس سال تک کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے وہ کچھ بھی نہ کر سکے اور نہ ہی سابقہ ادوار میں کچھ زیادہ کیا جا سکا،مولانا کے کریڈٹ میں کشمیر کمیٹی کے کتنے اجلاس اور اُن کی طرف سے تنازعہ کشمیر کو اُجاگرکرنے کے کیا اقدام ہوئے ان کو اس کی وضاحت کرنا چاہئے اور جہاں تک موجودہ حکومت کا تعلق ہے تو اس کی طرف سے بھی بے توجہگی کا مظاہرہ کیا گیااور اگر سید فخر امام کو چیئرمین بنایا تو وہ اب تک خود مختاری سے کچھ نہیں کر پائے،بلکہ ابھی تک کشمیر کمیٹی کے اراکین بھی نامزد نہیں ہوئے،سید فخر امام قابل اور اہل شخصیت ہیں تاہم وہ نرم رو اور سست ہیں۔ یوں بھی کابینہ کے محترم خواتین و حضرات ان کی نسبت زیادہ باتیں کر ر ہے ہیں،اسی سے انداز ہوتا ہے کہ ہمیں بھی مودی کی غلطی اور بے جا خود اعتمادی نے ہی فائدہ پہنچایا ہے اور آج ہم سر اُٹھا کر کہہ رہے ہیں کہ کشمیر بنے گا پاکستان،ذرا غور فرمائیں تو اندازہ ہو گا کہ محترم وزیراعظم بہت خوش فہم تھے اور یہ خوش فہمی مودی نے حلف اٹھانے کی تقریب میں مدعو نہ کر کے ہی دور کر دی تھی۔


بہرحال اب جو فائدہ مودی کے متعصبانہ اقدام سے کشمیر کے تنازعہ کو ہوا، اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش ضروری ہے۔ شاید اسی لئے وزیراعظم خود جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جا رہے ہیں،اگرچہ ان کو اب تک دُنیا کے معتبر اور بڑے ممالک کے سربراہوں سے خود ملنا چاہئے تھا، لیکن انہوں نے صدر ٹرمپ پر انحصار کرنا ہی بہتر جانا جو ہر گز یقینی اور بالکل درست نہیں،ہمیں امریکی حمایت کے لئے وقت سے فائدہ اٹھانا ہے، لیکن کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا کہ اس کارپوریٹ دور میں بھارت کا پلہ بہرحال بھاری ہے، تاہم کشمیریوں کے خون نے اس پر اتنا بڑا دھبہ لگا دیا ہے کہ بھارتی مندوبین کو کسی بھی فورم پر انسانی حقوق کی پامالی کا جواب دینا مشکل ہو گا اور ہمیں اسی کو کیش کرانے کے لئے حکمت عملی مرتب کرنا ہو گی۔اللہ کامیابی دے گا یہ سب ہم گزشتہ روز (جمعرات) شائع ہونے والے کالم میں بھی عرض کر چکے اب صرف یاد دہانی ہے اور یہ توقع کہ اب مزید جارحانہ ڈپلومیسی اختیار کی جائے گی۔


آج تو پھر سے مجھے اپنے نوجوان رہنما بلاول بھٹو زرداری ہی کو مخاطب کرنا ہو گا، کہ وہ اب جلد ہی شادی کر لیں،والد جیل میں ہیں تو کیا ہوا وہ اور پھوپھو پیرول پر شرکت کر لیں گی، یہ اِس لئے بھی ضروری ہے کہ ان کو علم کے ساتھ تربیت کی مزید ضرورت ہے اور کسی بھی جماعت کے سربراہ کے لئے جوش کے ساتھ ہوش اور جذبات پر قابو پانا بھی لازم ہے یہ اِس لئے کہ بلاول نے گزشتہ ہفتے اور اس سے پہلے ایک دو تقاریر اتنے پُرجوش انداز میں کیں کہ وہ پارلیمانی آداب نظر انداز کر گئے،ان کے غصہ اور جذبات کو مان بھی لیا جائے تو ان سے یہ توقع نہیں ہے کہ وہ خود اس سطح پر بات کریں گے کہ مخالفین کو جواب میں اسی نوعیت کے الفاظ کہنے کا موقع ملے،مَیں دیانت داری سے سمجھتا ہوں کہ بلاول بھٹو کو یہیں روک لینا چاہئے اور جو بھی ایسی مشاورت میں شرکت کرتے ہیں وہ ان کو بتائیں کہ غصے اور جوش میں جب وہ ایسی باتیں کرتے اور الزام لگاتے ہیں تو ان سے ایک ملکی رہنما کی توقعات لگانے والے سنجیدہ طبقے مایوس ہوتے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ بلاول خود بھی ایسا نہیں چاہتے کہ مَیں نے یوم تاسیس والی ایک ہی ملاقات میں ان کو باور کرایا تو انہوں نے نہ صرف میری بات کو تسلیم کیا،بلکہ احتیاط کا وعدہ کیا اور اسے دیر تک نبھایا بھی،لیکن اب وہ پھر سے اسی ڈگر پر آ گئے اور مخالفین کو موقع دے رہے ہیں۔


یہ اپنی جگہ،لیکن معروضی حالات کا تقاضہ ہے کہ ملک کے اندر سیاسی استحکام اور قومی مسائل پر قومی اتفاق رائے ہو،لیکن ایسا نہیں ہو پا رہا، حکومتی اراکین کی طرف سے کبھی کبھار یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلیں گے،لیکن عملی قدم نہیں اٹھایا جاتا،بلکہ اگر یہ یاد دِلایا جائے اس کلچر کا آغاز تحریک انصاف کے کنٹینر ہی سے ہوا تھا اور آج سوشل میڈیا میدانِ جنگ بنا ہوا ہے۔ غلیظ ترین گالیوں کا تبادلہ ہوتا ہے،ابھی گزشتہ روز ہی کی بات ہے کہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے سیاسی استحکام کی ضرورت کو تسلیم کیا اور شائستگی کی بات کی،لیکن اس کے مابعد ان کی طرف سے بلاول کی تقریروں کے جواب میں جو کچھ کہا گیا اور الفاظ چن کر استعمال ہوئے ان سے یہ ماحول نہیں بن سکے گا۔ابھی تک یہ تاثر دور نہیں ہوا کہ عمران خان وزیراعظم ہو جانے کے بعد اپوزیشن کا وجود تسلیم کرنے کو تیار نہیں یا کم از کم جن حضرات کو وہ اپنے طور پر کرپٹ کہتے ہیں ان سے ہاتھ ملانا تو دور کی بات ان سے آنکھ ملانے کو بھی تیار نہیں ہیں، پارلیمانی طرز کے باعث وہ قائد ایوان بھی ہیں اور ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے،جو ان کو نبھانا چاہئے، یہ درست کہ بڑے لوگ الزامات کا سامنا کر رہے ہیں

اور ان کے معاملات عدالتیں بھی دیکھ رہی ہیں تو ان کو چلنے دیں، کوئی آپ کو روکنا نہیں چاہتا،لیکن یہ کہنا کہ کرپشن والوں کو جیل میں ہونا چاہئے، عدلیہ کے امور میں غیر محسوس مداخلت ہے اور ادارے بھی متاثر ہوتے ہیں لہٰذا ان کے بقول اگر ادارے خود مختار اور حکومت کی مداخلت نہیں تو پھر اداروں کو کام کرنے دیں،لیکن پارلیمان میں ہاؤ ہو اور ہنگاموں کی بجائے سیاسی استحکام کی طرف بڑھیں یہ ممکن نہیں وہ خود تو پکی دشمنی رکھیں اور شاہ محمود قریشی یا کوئی اور ان کے ساتھ تعلقات کار قائم کر لے، سپیکر قومی اسمبلی کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاہم دیکھا گیا کہ ان کی راہ میں بھی رکاوٹ آ جاتی ہے۔وزیراعظم کو اپنے رویے پر غور کرنا ہو گا اور تبدیلی نہ ہوئی تو سیاسی ماحول اور استحکام نہیں بنے گا،اِس لئے پکی دشمنی والی بات کو چھوڑیں اور حالات کو معمول پر لا کر سیاسی استحکام کی طرف بڑھیں،حالات کا بھی یہی تقاضہ ہے اور یہ سب ان پر منحصر ہے، ہم سکون اور امن دیکھنا چاہتے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -