مسئلہ کشمیر اور بھارتی میڈیا

مسئلہ کشمیر اور بھارتی میڈیا
مسئلہ کشمیر اور بھارتی میڈیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کشمیر کی ریاستی حیثیت اور آرٹیکل 370 ختم ہونے پر بھارت کے سیکولر حلقوں کی جانب سے احتجاج سامنے آیا۔بھارتی پارلیمنٹ (لوک سبھا اور راجیہ سبھا) میں کانگرس، ترنمول کانگرس، سماج وادی پارٹی اور بائیں بازو کا رجحان رکھنے والی جماعتوں کی جانب سے بھرپور احتجاج ریکارڈ کروایا گیا۔ بھارت کی تاریخ میں معتدل اور انتہا پسند رجحانات رکھنے والے طبقات کے درمیان ہمیشہ سے نظریاتی جنگ رہی ہے۔ آزاد ہندوستان ہی نہیں، برطانوی راج کے دوران بھی سیاست میں معتدل اور انتہا پسندانہ رجحانات ایک دوسرے کے خلاف سرگرم عمل رہتے تھے آزاد ہندوستان میں جہاں ایک طرف نہرو کی صورت میں معتدل رجحان چھایا رہا تو دوسری طرف ہندو مہا سبھا اور آر ایس ایس کا انتہا پسندانہ نظریہ بھی کسی حد تک بھارتی سیاست میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر تا رہا۔ 2014ء کے انتخابات میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ ہندو انتہا پسند جماعت بی جے پی نے جس نے آر ایس ایس کے بطن سے جنم لیا اپنے دم پر اکثریت حاصل کی اور مودی کی صورت میں ایک انتہا پسند ہندو بھارت کا وزیراعظم بنا۔اس سے پہلے بی جے پی کے رہنما اٹل بہاری واجپائی بھی بھارت کے وزیراعظم بنے، مگر وہ اپنے اقتدار کے لئے کئی دوسری سیاسی جماعتوں پر انحصار کرنے پر مجبور تھے۔


بھارت میں کئی صحافتی حلقوں کی جانب سے بھی آرٹیکل 370اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کو یوں راتوں رات ختم کرنے پر تنقید کی گئی۔ خاص طور پر ارون دھتی رائے،راویش کمار اور برکھا دت نے مودی سرکار کے اس اقدام کی واضح انداز میں مذمت کی،مگر مجموعی طور پر بھارتی میڈیا اور خاص طور پر ہندی میڈیا کا رویہ اس با رے میں مکمل طور پر مایوس کن رہا۔مَیں نے خاص طور پر اس معاملے پر ہندی نیوز چینلز کا مشاہدہ کیا۔ جب بھی کانگرس، نیشنل کا نفرنس،پی ڈی پی یا کسی اپوزیشن جما عت کا کوئی عہدے دار کشمیر کی خصوصی حیثیت اور آرٹیکل 370 کے خاتمے کی مذمت کرتا،اسی وقت بھارتی میڈیا اور بی جے پی سمیت دا ئیں بازو کے انتہا پسند ہندو قوم پر ست اسے غدار قرار دینا شروع کر دیتے۔بھارت کے بڑے اور مین اسٹریم میں شامل ہندی چینلز کے پروگراموں میں یہی رویہ دیکھنے میں آیا۔ ان بڑے چینلز میں ”انڈیا ٹو ڈے“ ”سہارا“ ”آئی بی این“ ”اے بی پی“ ”آج تک“ اور ”زی نیوز“ جیسے چینل شامل ہیں۔طرفہ تماشہ تو یہ ہے کہ ان ہندی چینل پر اینکرز پرو گرام شروع کرتے ہی مودی کے اس فیصلے کی تعریف کرتے اور پھر بی جے پی اور آر ایس ایس سے بلائے گئے پینل کے مہمانوں کے ذریعے مودی کے اس فیصلے کی مذمت کر نے والوں کو خوب گا لیاں دلواتے۔

اگر اپوزیشن کا کوئی رہنما اس بارے میں اپنی رائے بیان کرنا چاہے تو ان ترجمانوں کی آوازیں مائیک پربند کر کے ان کو غدار قرار دینا شروع کر دیا جاتا ہے۔اس حوالے سے سارے پروگرامز اسی خاص ایجنڈا کے تحت ہی کئے جا رہے ہیں۔پاکستان اور بھارت کی دشمنی سے پوری دُنیا آگاہ ہے ایسے میں دونوں ممالک کا میڈیا بھی اپنی ریاستوں کی ترجمانی کرتا ہے،مگر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں بھارتی میڈیا ہمیں زیادہ متعصب اور جانبدار دکھا ئی دیتا ہے؟ظاہر ہے کہ بھارتی میڈیا اور صحافت کو کلی طور پر ہم متعصب قرار نہیں دے سکتے۔بھارتی صحافت میں کلدیپ نائر جیسے بڑے نام بھی اُبھر کر سامنے آئے،جنہوں نے اپنی ساری صحافتی زندگی میں بھرپور کوشش کی کہ برصغیر میں امن قائم ہو جائے،مگر بھارتی الیکٹرا نک میڈیا کا اکثر حصہ خاص طور پر ہندی چینلز مودی کی حمایت اور پاکستان دشمنی میں بالکل اندھے اور بہرے ہو جاتے ہیں،مَیں نے ان چینلز کا غور سے مشاہدہ کرتے ہوئے دیکھا کہ اگر کوئی متوازن اور سنجیدہ سوچ رکھنے والا بھارتی شہری یا تجزیہ نگار یا سیاست دان پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی بات کرے تو اس کو پروگرام کے میزبان کی طرف سے ہی انتہائی بے عزت کروانا شروع کر دیا جاتا ہے۔

حتیٰ کہ ٹی وی پر اس کی آواز بھی بند کر دی جاتی ہے۔اگر پروگرام کے پینل میں شامل کوئی مہمان ایسی بات کرے تو اسے اختلاف رائے قرار دیا جا سکتا ہے،مگر جب کوئی میزبان ہی تعصب سے بھرا ہوا ہو اور اپنے پروگرام میں اختلاف رائے برداشت نہ کر رہا ہو تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ اس چینل کی پوری مینجمنٹ اور مالک بھی کسی قسم کے اختلاف رائے کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔خاص طور سے پاکستان دشمنی میں ان چینلز کی اداریاتی پالیسی بالکل ویسی ہی ہے جیسی مودی سرکار کی پاکستان مخالف خارجہ پالیسی۔ ظاہر ہے کارپوریٹ سیکٹر کا حصہ ہونے کے باعث پاکستان میں بھی نجی چینلز کو مالکان کے تحت بنائی گئی اداریاتی پالیسی کا خیال رکھنا ہوتا ہے،مگر چونکہ اس وقت ہمارا موضوع کشمیر اور پاک بھارت تعلقات میں میڈیا کا کردار ہے اور اس میں ہم واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ بھارتی میڈیا، پاکستانی میڈیا کے مقابلے میں بہت زیادہ منفی ہے۔


پاکستانی میڈیا میں مختلف چینلز میں موجود اینکرز اور صحافیوں کے نقطہ نظر سے اختلاف کیا جا سکتا ہے پاکستان میں موجود کئی ایسے اینکرز ہیں جن کا کسی قسم کا کو ئی صحافتی پس منظر ہی نہیں ہے۔اس کے باوجود پاکستان کے مین سٹریم میڈیا چینلز میں کیا کوئی اینکر ”ارناب گو سوامی“جیسا تعصب رکھتا ہے؟ ایسا نہیں ہے۔ دراصل پاکستان اور بھارت کے میڈیا میں ایک بنیادی فرق ہے۔ بھارتی میڈیا کو سمجھنے کے لئے اس با ت کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ 1990ء سے پہلے بھارت کا کارپوریٹ سیکٹر کافی حد تک ریاست یا حکمران طبقات کا طفیلی ہوتا تھا۔ بھارت کی آزادی سے پہلے اور خاص طور پر آزادی کے بعد بھارت کے کئی کارپوریٹ سیکٹرز یا سرمایہ دار ایسے تھے جنہوں نے دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ صحافت کے شعبوں میں بھی سرمایہ کاری کرنا شروع کر دی۔ برلا اور امبانی جیسے ارب پتی سر مایہ کاروں نے اپنے اخبارات اور بعد میں نیوز چینلز بھی بنا لئے۔ اپنے سرمایہ دارانہ مفادات کے تحت یہ سرمایہ دار حکومت یا ریاست سے ٹکرانے سے ہمیشہ گریز کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بھارتی میڈیا کے اکثر مین اسٹریم چینلز خارجہ پالیسی پر کبھی اپنی حکومتوں کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ پاکستان میں صورتِ حال قدرے مختلف اِس لئے رہی، کیونکہ یہاں پر فوجی حکومتیں قائم ہوتی رہیں اور کئی صحافیوں کو آزادیئ صحافت کے لئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔

پاکستان میں ایوب خان اور ضیاء کے ادوار میں کئی اخبارات کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے جدوجہد بھی کرنا پڑی مشرف دور میں ایمرجنسی کے دوران نیوز چینلز کو بند کر دیا گیا، جس کے خلاف صحافیوں نے بھر پور احتجاج کئے۔ یوں پاکستانی صحافت جدوجہد کے ایک تسلسل سے گزری، جبکہ بھارت میں اندراگاندھی کی ایمرجنسی (1975ء تا 1977ء)کے دور کے علاوہ کوئی بڑا دور ایسا نہیں رہا، جس میں صحافیوں کو باقاعدہ ریاستی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہو یا بڑے اخبارات کو ریاستی جبر کے ذریعے بند کیا گیا ہو۔ اب الیکٹرانک میڈیا اور نجی چینلز کے باعث پاکستان کے کارپوریٹ سیکٹرز اور سرمایہ داروں نے بھی میڈیا میں بڑے پیما نے پر سرمایہ کاری شروع کر دی ہے، مگر اس کے باوجود اگر بالکل غیر جانبدار ہو کر دیکھا جائے تو پاکستان کا میڈیا،بھارتی میڈیا خاص طور پر مین اسٹریم ہندی چینلز کے مقابلے میں کم متعصب ہے۔ اِس لئے بھارتی میڈیا اپنے حکمران طبقات کی خواہش کے تحت اس وقت مودی کی فاشسٹ کشمیر پالیسی پر اس کی مکمل حمایت کر رہا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -