وزیر اعظم کے وسیم اکرم کا ایک سال اور ان کی کامیابیاں
انگریزی کہاوت ہے کہ ”ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی“ پاکستان میں بالخصوص پنجاب میں کتنے ہیں ایسے منصوعی میگا پروجیکٹس کا آغاز کیا گیا جو اس کہاوت پر عین پورا اترتے ہیں، مطلب ان میں چمک تو ہے مگر افادیت ذرہ برابر بھی نہیں۔ پاکستان کے گزشتہ ادواروں میں لاہور پنجاب کا بادشاہ اور باقی تمام شہر اس کی رعیت ٹھہرے۔ پنجاب سمیت پاکستان کی سیاست میں شیر کی دھاڑ لاہور کی میٹرو اور اورنج لائن تک محدود رہی، جبکہ اس دھاڑ سے باقی تمام شہروں کے استحقاق کا بڑی بے رحمی سے استحصال کیا۔ تاریخ گواہ ہے جب جب کسی کا استحصال ہوا فطرت نے اس میں اپنے حق کے حصول کی خاطر بغاوت کی آگ کو جنم دیا اور ہر گزرتی ناانصافی ہوا کے جھونکے کی مانند اس آگ کو بڑھاتی رہی اور بلآخر صوبہ جنوبی پنجاب کی بازگشت سونائی دینے لگی۔ محرومیوں کی گونج میں شیر کی دھاڑ کہیں دب سی گئی تھی۔
وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ منتخب کیا گیا۔ ایک انتہائی متوسط شہر سے منتخب انسان سے بہتر کوئی سمجھ نہیں سکتا تھا۔ یہ عمران خان کا ایک بہتر اقدام تھا جس سے نئے دور کا آغاز ممکن ہوا۔ بہت سے دوستوں اور سینئر صحافیوں سمیت سیاستدانوں نے شور مچایا کہ عثمان بزدار چند ماہ کے وزیر اعلیٰ ہیں مگر وقت نے ثابت کیا کہ عمران خان کی کہی ایک ایک بات سچ تھی وہ واقع پنجاب کے وسیم اکرم بن کر ابھرے۔ عثمان بزدار نے اپنے ایک سال میں جو کارکردگی دیکھائی وہ وقتی چمک نہیں بلکہ کھرا کندن ہے اس کی ایک سالہ کارکردگی چند جھلکیاں اور محکموں کی بہتری اور عوام الناس کی فلاح و بہبود کیلئے کئے گئے کام یہ ہیں:
محکمہ ہائرایجوکیشن کے شعبے میں 6نئی یونیورسٹیوں کا قیام، 4 مزید یونیورسٹیوں کی منطوری، 44 نئے کالجز کی تعمیر، 50 کالجز میں بی ایس پروگرامز کا آغاز، 2156 لیکچرارز کی تعیناتی 6ارب لاگت یونیورسٹیوں میں تعمیرات اور 76000 طلباء کیلئے سکالر شپس کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اسپیشل ایجو کیشن کے محکمے میں اصلاحات سمیت جہلم اور ملتان میں نئے اسپیشل ایجوکیشن سنٹرز کی تعمیر، 15نئے اداروں کی تعمیر کا کام جاری، 17اداروں کی تعمیر اور مرمت کا کام، 335ملین روپے سے اسپیشل ایجوکیشن سینٹرز کے طلباء کیلئے ٹرانسپورٹ کی بحالی، چونیاں، لودھران، علی پور، بہاولپور، ساہیوال، میلسی میں سینٹرز کی تعمیر نو کا آغاز، 50ملن روپے سے سکولوں کی اپ گریڈیشن اور 9اداروں میں سکول بسوں کی فراہمی کی گئی۔ پنجاب محکمہ داخلہ میں گواہاں کی حفاظت کے سیل اور 36اضلاع میں پولیس خدمت مراکز اور موبائل سروس سرگودھا، ساہیوال میں چائلڈ پروٹیکشن انسٹیٹٹ کا قیام، پولیس فورس کے الاؤنس کی بحالی، پولیس کی کالی بھیڑوں کے خلاف کاروائی، کفایت شعاری اخراجات میں 196ملین کی کمی، نئی جیلوں کی تعمیر کیلئے 25سو ملین روپے مختص، ریسکیو 1122 کا مزید پھیلاؤ، اسلحہ لائسنس کا آغاز729ملین کی وصولی سمیت 350000ای چلان کیے گئے۔ محکمہ خوراک کے شعبے میں گنے کے کاشتکاروں کی سو فیصد ریکوری،گندم کی خریداری کا ہدف ریکاڈ وقت میں مکمل، ہر فصل کی اصل قیمت کسان تک پہنچائی، قرضوں کیلئے بینکوں ایک سو گیارہ ارب روپے کی ادائیگی کی گئی، نادہندہ کمپنیوں سے جرمانے کی شکل میں 2.135ارب روپے کی وصولی، شوگر ملز سے 1459ملین روپے میں بقایاجات کی وصولی اور پنجاب فوڈ اتھارٹی کو مزید موثر بنانے پر کام جاری و ساری ہے۔
صوبائی محکمہ اوقاف و مذہبی امور میں 197ایکڑ قبضہ شدہ زمینوں و اگزارکروائی، 2سو ایکڑ زمین پر شجر کاری کا آغاز کیا، لاہور میں مزارات سے ملحق تین پارکنگ پلازوں پر کام جاری کیا، 5سو ملین سے مزارات و عمارات کی تزین و آرائش کا کام شروع کیا، تمام عمارات کی جیو ٹیگینگ شروع کی اورکیش باکسسز میں 15فیصد اضافہ کروایا۔ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ میں روایتی نظام کی جگہ اسمارٹ کارڈ وہیکل رجسٹریشن کا آغاز، پراپرٹی ٹیکس کولیکشن میں 1ارب کا اضافہ، 1ہزار لگژری ہاؤسسز کا اندراج، لاہور، میانوالی میں نئے ایکسائز تھانوں کا قیام سمیت شفاف اور میرٹ پر تعیناتی کی گئیں۔ محکمہ جنگلات و ماہی پر وری میں ایک کروڑ پودے لگائے گئے، 13ہزار ایکڑز پر چراہ گاہیں قائم کی گئیں، سینکڑوں ایکڑ زمینوں پر قبضے چھوڑوا کر شجرکاری شروع کی گئی، 42441ایکڑ رقبے پر فش فارمز کا قیام عمل میں لایا گیا، 55ملین فش سیڈز کی فراہمی مکمل بنائی گئی، 29000 لائیسنس کا اجراء کیا گیا اور3281 افراد کو فش فارمنگ کی ٹریننگ دی گئی۔ محکمہ صحت کے شعبے میں قوانین کی منظوری کے عمل میں میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوشنز، تھیلیسیمیابل، PKLIبل، ہیلتھ کیئر اسٹاف سیکورٹی بل، ریجینل ہیلتھ اتھارٹی بل، پنجاب مینٹل ہیلتھ اتھارٹی کی منظوری کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کے علاوہ پنجاب حکومت کی جانب سے 14ہزار ڈاکٹرز سمیت 18ہزار ہیلتھ کیئر ورکرز کی بھرتی، 300000 ہیلتھ کیئر ورکرز کی بھرتی پر کام جاری، 300کنسلٹنٹس کی بھرتی، ہیلتھ اسٹاف کیلئے آن لائن HRپورٹل پر شروع کیا گیا، 20اضلاع مین صحت کارڈز کی فراہمی کا سلسلہ شروع کیا گیا، تیمارداروں کیلئے مہمان خانوں کا قیام عمل میں لایا گیا، 13ارب کی لاگت سے 16ترقیاتی اسکیمز مکمل کیں، بنیادی اور دیہی مراکز صحت کی اپ گریڈیشن کاکام جاری ہے، ڈیرہ غازی خان میں ٹیلی میڈیسن کا منصوبہ شروع کیا۔ محکمہ صحت میں انفراسٹکچرکے حوالے سے 9نئے ہسپتالوں پر کام شروع کیا گیا، ہسپتالوں میں 9ہزار نئے بیڈز کا اضافہ کیا گیا،
12بڑے (Tertiarycare) ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈز کی تعمیر بھی جاری ہے اور 40ہسپتالوں (DHQs and THQs)کی تعمیر و توسیع کا آغاز کیا گیا۔ محکمہ بلدیات میں تاریخی بلدیاتی ایکٹ کی منظوری دی، 22000دیہات کی سطح پر فنڈز کی فراہمی کی جائے گی، پاکستان میں پہلی بار میٹروپولیٹن شہروں میں ڈائریکٹ الیکشن ہوں گے، قبضہ مافیا سے تقریباََ 10لاکھ ایکڑ زمین واگزار کروائی، پہلی بار ای ایکشن، ای پروکیورمنٹ، ای ٹینڈرنگ کا آغازکیا، ٹھیکیداروں کی رجسٹریشن کی گئی، دیہاتوں میں کچرے کے 9لاکھ ڈھیروں کا خاتمہ کیا، شہروں سے 8لاکھ ٹن کچرے کا صفایاکیا، ڈیرہ غازی خان ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کا قیام عمل میں لایا گیا، ویست مینجمنٹ کمپنیوں کے معاہدے کا ریویو جاری کیا، پانچ جدید ماڈل مویشی منڈیوں کیلئے فنڈذ کا اجراء اورگندے پانی کے تالاب ختم کرنے کے منصوبے کا آغاز سمیت واگزار شدہ زمین پر پارکس اور گراؤنڈز کی تعمیر اور1.3کروڑ سے زائد پودے لگائے گئے۔کمیونیکیشن اینڈ ورکس ڈیپارٹمنٹ کے شعبے میں 12سو کلومیٹر لمبائی کی سڑکوں کی تعمیر کا آغاز، جی آئی ایس میپنگ سسٹم سے سڑکوں کی بحالی، ای ٹینڈرنگ سسٹم کا اجراء اور17سو ملین کی لاگت سے جنوبی پنجاب میں دریائی پلوں کا جال بچھایا گیا۔ سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں 2ہزار لیبز اور لائبریریز کی تعمیر، 1080سکولوں کی سولر انرجی پر منتقلی کا آغاز، دس شہروں میں سو ماڈلز سکولز کے قیام کا آغاز، 2800نئے کمروں کی تعمیر کا شروع، 20000سے زائد اساتذہ کا بغیر سفارش اور رشوت کے مرضی کی جگہ تبادلہ نہیں کی گیا، داخلے اور حاضری اساتذہ کی بجائے کمیونٹی کی ذمہ داری قرار، 719سکولوں میں دوپہر کی کلاسسز کے انصاف سکول پروگرام کا آغاز اور تمام سسٹم سافٹ ویئر کے ذریعے آئن لائن کرنے کا کام شروع کیا گیا۔
یہ ہیں وہ چند محکمے اور ان میں کئے گئے تمام اقدامات جو عثمان بزدار اور ان کی ٹیم کی جانب سے برابری کی سطح پر صوبے کے تمام لوگوں کیلئے اٹھائے گئے۔ میرا دعوی ہے کہ آنے والے وقت میں یہ تمام اقدامات نہ صرف پاکستان کیلئے افادیت کے حامل ہوں گے بلکہ اس سے وہ محرومی کی آگ بھی اب بجھ جائے گی۔