ہندو سائیکی اور پاکستانی سائیکی

ہندو سائیکی اور پاکستانی سائیکی
ہندو سائیکی اور پاکستانی سائیکی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


سوشان سنگھ راجپوت، ایک انڈین اداکار تھا جس نے پہلے ڈراموں میں اور پھر فلم میں کام کیا اور نام کمایا۔ 14جون 2020ء کو 36سال کی عمر میں خودکشی کرلی…… وہ دن اور آج کا دن انڈین میڈیا، پرنٹ ہو کہ الیکٹرانک اس کی قصیدہ خوانی میں لگا ہوا ہے۔ وہ ایک اچھا اداکار ضرور ہوگا لیکن یہ بھی کیا کہ ہر روز بلاناغہ اس کے نام سے میڈیا میں کوئی نہ کوئی سٹوری آ رہی ہے۔14جون کو سوشانت نے خودکشی کی اور 15جون کو انڈین آرمی کے 20سولجرز، چین کی PLA کے ہاتھوں مشرقی لداخ (گلوان) محاذ پر مارے گئے۔ ان مرنے والوں کی بِپتا بھی کئی روز تک انڈین میڈیا پر فلیش کی جاتی رہی۔ پھر جولائی میں 5عدد فرانسیسی رافیل طیارے انبالہ بیس میں آ گئے تو پورے دو ہفتوں تک ان کے پروفیشنل اوصاف کے قصیدے پڑھے جاتے رہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ انڈین آرمی نے بھی چین کے کئی سولجرز ہلاک کر ڈالے تھے لیکن چین نے ان کی ہلاکت تسلیم نہیں کی۔ آج بھی انڈیا جب اپنے 20سپوتوں کی موت کی خبر میڈیا پر دیتا ہے تو ساتھ ہی چینی اتلافات (Casualties) کا تذکرہ کرنا نہیں بھولتا مبادا انٹرنیشنل میڈیا میں اس کی عسکری سبکی کا پول کھل جائے۔ انڈیا لداخ محاذ پر اپنی ’شمشیروسناں‘ کا ذکر کرکے بھی سوشانت سنگھ کے ’طاؤس و رباب‘ کو فراموش نہیں کرتا۔ میں برابر اڑھائی ماہ سے یہ تماشا دیکھ رہا ہوں کہ انڈیا کے سبھی نامور اور وقیع نیوز چینل اور اخبارات یہ دونوں خبریں ساتھ ساتھ دے رہے ہیں …… اس سے انڈین سائیکی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔


جہاں تک طاؤس و رباب کا سوال ہے تو انڈین سنیما کا سنہری دور 1950ء اور 1960ء کی دو دہائیوں پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد 1970ء کے عشرے میں بھی چند ایک فلمیں ایسی پروڈیوس کی گئیں جو قابلِ توجہ تھیں لیکن وہ ’سنہری دور‘ کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ اس گولڈن ایج میں مسلمان اداکار ہی انڈین سنیما سکرین پر چھائے رہے۔ دلیپ کمار، مدھوبالا، نرگس،نمی، محمد رفیع، طلعت محمود، نوشاد، کے آصف اور محبوب وغیرہ کے نام Legend بن چکے ہیں۔ لیکن ایک تو دلیپ کے مقابلے میں راج کپور کو لایا گیا، نوشاد کے مقابلے میں مدن موہن اور ان کے ساتھ بہت سے دوسرے ہندو موسیقاروں کی جوڑیاں آگے لائی گئیں لیکن نوشاد، موسیقار اعظم ہی رہا اور دلیپ کا بھی مقابلہ بھی کوئی اور نہ کرسکا۔ یہی حال مدھو بالا اور نرگس کا بھی تھا۔ ان کے مقابلے کی کوئی ہیروئن سارا ہندوستان پیدا نہ کر سکا اور مغل اعظم کے مقابلے کی کوئی دوسری انڈین فلم بھی پروڈیوس نہ کی جا سکی۔ گلوکاروں میں محمد رفیع کے مقابلے میں لتا منگیشکر کو پیش کیا گیا۔ لتا، بلاشبہ ایک عظیم گلوکارہ ہیں لیکن محمد رفیع جیسا کوئی اور Male ہندو گلوکار آج تک انڈیا کی فلم انڈسٹری کو نصیب نہ ہو سکا…… آج بھی دیکھ لیجئے۔  ایک عرصے سے انڈیا کی فلم انڈسٹری پر جن تین خانوں (Three Khans) کا قبضہ ہے وہ مسلمان ہیں۔ اس پس منظر میں اگر آپ سوشانت سنگھ کو رکھ کر دیکھیں تو ’کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا‘ والی ضرب المثل یاد آتی ہے۔ لیکن اس کا کیا علاج کہ انڈیا میڈیا کسی نہ کسی بہانے اس کی خودکشی کے بہت سے پہلوؤں کی نشاندہی کرکے اسے خبروں میں زندہ رکھنا چاہتا ہے……  یہ ہندو سائیکی کا تازہ ترین مظاہرہ ہے۔


اس سائیکی کے چند اور شواہد دکھانے کے لئے میں آپ کو ایک بار پھر ’شمشیروسناں‘ کی طرف لے جانا چاہتا ہوں۔15جون تو ابھی کل کی بات ہے۔ ذرا اس حقیقت پر بھی غور کیجئے کہ گزشتہ برس 26اور 27فروری کو کیا ہواتھا؟…… اور انڈین ائر فورس نے پاک فضائیہ کے خلاف کون سے ”معرکے“ سر کئے تھے۔ انڈین ائر فورس تو اب ایک زمانے سے شور مچا رہی ہے کہ انڈیا کو چین اور پاکستان کی ائر فورسز سے نمٹنے کے لئے حکومت کی طرف سے منظور شدہ 42فائٹرز سکواڈرن کی ضرورت ہے جبکہ آج اس کے پاس ایس یو 30، مگ۔29 اور مگ 29K کے ’صرف‘31سکواڈرن  ہیں۔ یہ گیپ رافیل طیاروں کی باقی کھیپ (31طیارے) آ جانے کے بعد بھی پورا نہیں ہوگا اور انڈین ائر فورس، اپنے حریفوں کے مقابلے میں Under-equipped رہے گی۔


انڈیا نے حال ہی میں یہ واویلا بھی مچایا ہے کہ چین کے جدید ترین دو سٹیلتھ فائٹر (J-20) سنکیانگ کی حتن (Huton) بیس پر دیکھے گئے ہیں۔ اس بیس کو وہاں کے لوکل مسلمان جن کو ”یوغر“ کہا جاتا ہے، حتن کی بجائے ختن کہتے ہیں۔ چینی زبان کے تلفظ میں خ کی آواز ح سے بدل جاتی ہے۔ بالِ جبریل میں اقبال کی ایک نظم کا عنوان ہے: ”یورپ سے ایک خط“۔ اس خط میں اقبال سے پوچھا گیا تھا کہ کیا عصرِ حاضر کو رومی نے کوئی پیغام دیا ہے؟ اقبال نے اس کے جواب میں مولانا روم کے درج ذیل دو اشعار Quote کئے ہیں:


کہ بناید خورد و جَو ہمچو خراں 
آہوانہ در خُتن چر ارغواں 
ہر کہ کاہ و جَو خورد قرباں شود
ہر کہ نورِ حق خورد قراں شود


(ترجمہ: گدھوں کی طرح گھاس پھونس نہیں کھانی چاہیے بلکہ غزالوں کی طرح ختن میں ارغواں چرنی چاہیے۔ جو کوئی گھاس پھونس اور جَو کھائے گا قربان ہو جائے گا اور جو نورِ حق کھائے گا، وہ قرآن ہو جائے گا)
یہ خُتن (Hotan) بیس، لداخ سے 200میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ انڈین میڈیا کی خبروں میں بتایا جا رہا ہے کہ چین نے یہ دو طیارے لداخ کے قریب صف بند (Deploy) کر دیئے ہیں …… بندہ پوچھے دو سیٹلھ J-20 ڈیپلائے کرنے سے کون سی قیامت انڈین ائر فورس پر ٹوت پڑی ہے۔ چین نے رافیل کے جواب میں آخر کوئی نہ کوئی بندوبست تو کرنا ہی تھا…… ختن سے کچھ دور عقب میں کاشغر ائرپورٹ واقع ہے۔ وہاں بھی چین نے H-6 قسم کے بمبار طیارے ڈیپلائے کئے ہوئے ہیں جن میں KD-63قسم کے کروز میزائل نصب ہیں۔ کاشغر سے لداخ کا فاصلہ 500میل ہے۔ J-20 چین کا جدید ترین سیٹلتھ فائٹر طیارہ ہے اور فضائی دوڑ  میں اگلی نسل کا ایک انقلابی فائٹر کہا جا رہا ہے۔ اس کی رینج، دشمن کی فضاؤں کو چیرنے (Penetration)کی صلاحیت، اردگرد کے ماحول پر نظر رکھنے کی اہلیت، فائر پاور اور پائلٹ  کی طرف سے تیز ترین فیصلہ کرنے کی اس کی خوبیاں بے مثال ہیں۔ بین الاقوامی ماہرین کے مطابق چین کے پاس اب تک J-20 طیاروں کا جو فضائی بیڑا موجود ہے اس میں صرف 40عدد طیارے ہیں اور یہ تعداد کوئی ایسی حوصلہ افزا تعداد نہیں۔ اس لئے خَتن کی پشت پر H-6 بمبار فورس رکھ دی گئی ہےّ یہ دو J-20 جو ختن بیس پر صف بند کئے گئے ہیں، فضائی گشت کی غرض سے کئے گئے ہیں۔ انڈیا نے اس ”جوڑی“ کی جو تصاویر اپنے میڈیا پر دکھائی ہیں ان سے انڈیا کو کوئی خطرہ محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ چین، حسبِ ضرورت ان طیاروں کی تعداد بڑھا سکتا ہے۔ اگر فضائی گشت (کمبٹ پٹرول) کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ تعداد کم از کم چار ہونی چاہیے۔ دو فضا میں اور دو گراؤنڈ پر…… ہو سکتا ہے مستقبل قریب میں یہ تعداد دگنی کر دی جائے۔


لائن آف ایکچویل کنٹرول (LAC)چونکہ کافی بلندی پر واقع ہے اس لئے فائٹر اور بمبار طیاروں کی اڑانیں، فضا میں آکسیجن کی کمی کے باعث پائلٹ اور مشین (جہاز) سے تیز تر اور بہتر کارکردگی کا خراج مانگتی ہیں۔ اس وقت چین، لداخ ایریا کی فضائی ریکی وغیرہ پر جو فضائیہ استعمال کر رہا ہے وہ J-16 طیاروں پر مشتمل ہے جو J-20 سے ایک نسل کم تر طیارے ہیں۔ یہ تبت سے اڑائے جاتے ہیں اور ان میں جو میزائل نصب ہوتے ہیں وہ بھی J-20کے میزائلوں سے کم رینج اور کم تاثیر والے میزائل ہیں۔ چین کو J-20کا بڑا فضائی بیڑا بنانے کے لئے وقت درکار ہے۔


بات یہ نہیں ہے کہ انڈیا کو چین کی ان محدودات کا علم نہیں۔ لیکن وہ چین کی محدودات (Limitations) کے برعکس اس کی مقدورات (Capabilities)سے خائف ہے اور یہی ”ہندو سائیکی“ ہے…… یہ سائیکی کمزور پر ظلم ڈھانے اور طاقتور کے سامنے سرنگوں ہو جانے کی سائیکی ہے۔ پاکستان کو ہندوکی اس سائیکی کا علم بھی ہے اور تجربہ بھی۔ طاؤس و رباب کا ذکر اوپر کر چکا ہوں۔ جب تک مسلمان فنکار موجود رہے انڈین فلم انڈسٹری ہالی وڈ کے مقابلے میں صحیح معنوں میں بالی وڈ کہلاتی رہی۔ اب تو صرف نام رہ گیا ہے…… میں سمجھتا ہوں یہی حال انڈیا کی ڈیفنس انڈسٹری کا بھی ہے۔ مودی نے ”میڈ اِن انڈیا“ کا بڑا ڈھنڈورہ پیٹا۔ ارجن ٹینک تو اس سے نہ بن سکا، تیجا فائٹر طیارے آج کل LAC اور LOC پر گھمائے جا رہے ہیں اور یوں ”میڈ اِن چائنا“ کا جواب دکھایا جا رہا ہے۔ بہت سا غیر ملکی بھاری اور ہلکا اسلحہ انڈیا میں بنایا جا رہا ہے۔ اس کی تفصیل طویل ہے لیکن اس کی آزمائش باقی ہے۔ جب تک کوئی حقیقی جنگ نہیں ہوتی، ان سلاحِ جنگ کا پول نہیں کھلے سکے گا۔ پاکستان انڈیا کے مقابلے میں ایک چھوٹا ملک ہے اور اس کی ڈیفنس انڈسٹری بھی اسی نسبت سے چھوٹی ہے۔ اگر کل کلاں چین، پاکستان کو J-20دے بھی دیتا ہے تو اس کے ٹرائل کے لئے وقت درکار ہو گا۔ سکردو بیس اور دیوسائی پلین اس مقصد کے لئے شاید مارک کر دیئے گئے ہیں۔JF-17 سے JF-20 بنانے میں وقت کے علاوہ سرمائے کی ضرورت ہوگی۔ CPEC جب مکمل طور پر آپریشنل ہو جائے گا تو یہ سرمائے کا مسئلہ بھی ان شاء اللہ حل ہو جائے گا۔


انڈیا کو چا بہار سے نکال دیا گیا ہے۔ لیکن ابھی اس کو افغانستان سے نکالنا باقی ہے۔پاکستان کے خلاف ننگر ہار اور کنہڑ کے صوبوں میں جن سازشوں کے جال بُنے جا رہے ہیں ان کی خبروں سے قارئین واقف ہیں۔ دوسری جانب امارات کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنا میرے خیال میں وادی ء گلوان میں انڈیا کی شکست اور ایران سے اس کے انخلاء کے تناظر میں کوئی بڑی پیشرفت نہیں۔ ہاں البتہ اس کا اظہار پہلے مخفی تھا، اب بدیہی ہو گیا ہے۔ اب ابوظہبی میں اسرائیلی وزیر دفاع آتا ہے یا تل ابیب میں اماراتی وزیردفاع جاتا ہے تو اس آمد و رفت کو پوشیدگی کا لبادہ اوڑھانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ دنیا جانتی تھی (اور جانتی ہے) کہ امارات، مشرق وسطیٰ میں ایک دوسرا اسرائیل بننے جا رہا ہے۔CPEC اور BRI اب معرضِ تشکیل میں ہیں۔ ان کو مکمل ہونے میں شائد 8، 10 برس لگیں گے۔ چنانچہ 2030ء کا پاکستان آج کے پاکستان سے بالکل مختلف ہو گا۔ امریکہ، افغانستان سے نکل کر بحرہند میں قدم جما رہا ہے۔ اس کی تفاصیل فارن میڈیا میں تو آ رہی ہیں لیکن اپنے ہاں ان موضوعات پر زیادہ ”سرکھپائی“ کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی!…… آنے والے دور سے بالعموم بے خبر رہنا، پاکستانی قوم کی سائیکی ہے اور اس کو ”ہندو سائیکی“ کے مقابل ”پاکستانی سائیکی“ کا نام دیا جا سکتا ہے!

مزید :

رائے -کالم -