ڈاکٹراخترشمار لاہور سے ملتان کی خوشبو بھی لے گئے

ڈاکٹراخترشمار لاہور سے ملتان کی خوشبو بھی لے گئے
ڈاکٹراخترشمار لاہور سے ملتان کی خوشبو بھی لے گئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 ڈاکٹر اختر شمار کی زندگی میں میں نے ان کا جو خاکہ لکھا وہ میری کتاب ”آدھا سچ“ میں موجودہے یہ خاکہ میں نے30برس قبل 10اگست 1992ء کو تحریر کیاتھا اورجب 8اگست 2022ء کو اخترشمارکا انتقال ہواتومجھے سب سے پہلے وہی خاکہ یاد آیا اور یہ بھی خیال آیا کہ وقت کس طرح گردش میں رہتا ہے اور ایک ہی مہینہ کم وبیش ایک جیسی تاریخوں کے ساتھ کس طرح اپنے معانی تبدیل کرلیتاہے۔ ”اختر شمار کے بارے میں کچھ سچے جھوٹ“ کے عنوان سے لکھا گیا خاکہ ان کی کتاب ”کسی کی آنکھ ہوئے ہم“ کی تعارفی تقریب میں پڑھاگیاتھا اور میں نے یہ لکھا تھا،”اختر شمارکاخاکہ لکھنا میرے لیے آسان بھی بہت ہے اور مشکل بھی بہت،میں اختر شمار کے بارے میں سچ نہیں لکھ سکتا وجہ یہ ہے کہ اس سے اس کی شہرت خراب ہوگی،اس کی شہرت بھی خراب کی جاسکتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اکیلے اخترشمار کی شہرت خراب نہیں ہوگی ساتھ میں اطہر ناسک بے چارہ بھی مارا جائے گا اور اطہر ناسک کے مارے جانے کا مطلب تویہ ہوا کہ میں خودماراگیا۔ سو اپنا دشمن کون ہوتا ہے“۔اور اب جب اختر شمار بھی اطہر ناسک کے پاس چلا گیاہے تو میں چشم تصور میں دیکھتا ہوں کہ اطہر ناسک کتنا خوش ہو گا اور کیسے اسے مزے مزے کی باتیں سناتا ہو گا۔ گیارہ نومبر دو ہزار بارہ سے اب تک کی کہانیاں یعنی دس برس کے وچھوڑے کی داستان اور ان دونوں کے استاد بیدل حیدری بھی تو وہیں کہیں موجود ہوں گے،

مجھے یاد ہے دس برس قبل جب اطہر ناسک کا انتقال ہوا توڈاکٹر اختر شمار مصر میں تھے۔ کیسے تڑپ کر رہ گئے تھے وہ اپنے دوست کی علالت اور پھر جدائی کی خبر پر، میرے لیے اطہر ناسک اور اختر شمار کو ایک دوسرے کے بغیر سوچنا ممکن ہی نہیں کہ میں نے ان کی رفاقت کو بہت قریب سے دیکھا ہے، دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم تھے۔ اطہر ناسک اختر شمار کا دوست بھی تھا اور پروموٹر بھی، خود پیچھے رہ کر اختر شمار کو نمایاں کرتا تھا۔ اختر شمار سے میری پہلی ملاقات 1980ء میں ہوئی جب میں سول لائنز کالج میں پڑھتا تھا شاید اطہر ناسک نے ہی اختر شمار سے میرا تعارف کرایا تھا،یہ ہم سب کا لڑکپن تھا۔ اختر شمار اس زمانے میں حسن آباد کے علاقے میں رہتے تھے وہ ایک سیلف میڈ انسان تھے، ایک ایسا شخص جس نے مسلسل محنت کے ذریعے اپنا مقام بنایا۔ جون 1985ء میں اختر شمار کا ہائیکو مجموعہ ”روشنی کے پھول“ کے نام سے منظر عام پر آیا، یہ کتاب اطہر ناسک نے ہی مرتب کی تھی جو اس زمانے میں زکریا یونیورسٹی میں پڑھتے تھے،یہی وہ زمانہ تھا جب میں ملتان کو خیر باد کہہ کر لاہور منتقل ہوا اور پھر کچھ عرصہ بعد اختر شمار اور اطہر ناسک بھی لاہور آ گئے۔ اطہر ناسک تو میرے ساتھ حیدر بلڈنگ میں منتقل ہو گئے لیکن اختر شمار نے ریلوے سٹیشن کے قریب رہائش اختیار کی۔ بعد کے تین سال اختر شمار، اطہر ناسک اور طفیل ابن گل کے ساتھ گزرے۔ طفیل ابن گل حسن آباد میں اختر شمار کے پڑوسی تھے، سب سے پہلے انہوں نے داغ مفارقت دیا اور اب اس رفاقت کی آخری کڑی بھی ٹوٹ گئی اور میں تنہا رہ گیاہوں۔


مجھے وہ زمانہ بھی یاد آ رہا ہے جب اختر شمار کراچی گئے تھے اور وہاں پرنم آلٰہ آبادی کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات کے حوالے سے مجھے طویل خط لکھا تھا۔ اظہر سلیم مجوکہ بھی اس زمانے میں کراچی ہوتے تھے، پھر ایک بار اظہر لاہور آئے تو میرے ساتھ اختر شمار اور اطہر ناسک کو ملنے گئے یہ دونوں اس زمانے میں چوبرجی کے قریب شام نگر میں رہتے تھے اوروہیں کچھ فاصلے پر فرحت عباس شاہ مقیم تھے، پھر میں تو ملتان واپس آ گیا اور اطہر ناسک اور اختر شمار نے لاہور کو مسکن بنا لیا۔”بجنگ آمد“ لاہور میں اختر شمار کی پہلی آواز تھی یہ ادبی اخبار کا پہلا اور انتہائی کامیاب تجربہ تھا اور اختر شمار نے اس کے ذریعے خود کو تسلیم بھی کرایا۔اختر شمار کے ساتھ زیادہ شناسائی ان دنوں ہوئی جب 1983-84ء میں ہم ملتان میں اقبال ارشد کی قیادت میں معرکہ آرائیاں کرتے تھے، ہماری شامیں باباہوٹل اور راتیں ریلوے سٹیشن پر گزرا کرتی تھیں۔اطہر ناسک اس دوران اختر شمار کو کبیروالہ کا چکرلگوا کر بیدل حیدری کی شاگردی میں دے چکے تھے،یہ دونوں بیدل صاحب کے ہونہارشاگردوں میں شمار ہوتے تھے۔ اطہر ناسک اور اخترشمار کو ہم ان دنوں ٹی وی ڈرامہ”الف نون“کے تناظر میں ”الف برادران“کہتے تھے۔اطہر ناسک بیدل حیدری کو فیض سے بڑا شاعر اور کشور ناہید کا استاد قراردیتے تھے اور اختر شمار اس دور میں اطہر ناسک کے موقف کی تردید نہیں کرتے تھے یہی وہ زمانہ تھا جب اخترشمار نے شمار کرنے والی غزل مشاعروں میں سنانا شروع کی۔اختر شمار کی اس غزل کا مقطع مجھے ہمیشہ بہت پسند رہا۔
اے آسمان میں ترا اختر شمار ہوں 
کچھ تو مری نظر کی صداقت شمار کر


آسمان سے مخاطب ہونے والا اختر شمار اب آسمان کے سفر پر روانہ ہو چکا ہے، اس نے یقینا وہاں پہنچ کر کہا ہو گاکہ ”اے آسمان ترا اختر شمار آ گیا ہے“۔اب آسمان ادب کا یہ روشن ستارہ ہمیں افق پر جھلملاتا نظر آتاہے اور میں کبھی اپنی نظم ”ستارے مل نہیں سکتے“ کے مصرعوں میں فلک پر رقص کرتے ان گنت روشن ستاروں کو ترتیب دیتاہوں تو ان ستاروں سے اختر شمار کا نام ہی بنتاہے۔اختر شمار کی وفات پر آزردہ ہونے والوں میں یوں تو اس کے سبھی دوست شامل ہیں لیکن ان کی موت پر مجھ سے تعزیت صرف راجا نیئر نے کی۔ ہم بہت دیر اس زمانے کی بات کرتے رہے جب ہم سب لاہور میں خود کوتسلیم کروانے کے لیے گئے تھے،جب لاہور کی سڑکیں ہی ہمارا مسکن ہوتی تھیں اورہم فٹ پاتھ پر بیٹھ کر ایک دوسرے کواپنی غزلیں سناتے تھے اور ادبی تقریبات میں شرکت کرتے تھے۔دوستوں میں سب سے پہلے میں نے لاہور کوخیرباد کہالیکن جب تک اخترشمار لاہور میں موجودتھے مجھے لاہور سے ملتان کی خوشبو آتی تھی، ان کے جانے کے بعد لاہور سے میرا آخری مضبوط تعلق بھی ختم ہو گیا۔ اخترشمار اپنے ساتھ لاہور سے ملتان کی خوشبو بھی لے گئے۔

مزید :

رائے -کالم -