مذاہب کا احترام اور مغرب
ملعون سلمان رشدی پر امریکہ میں ہونے والا حملہ ظاہر کرتا ہے کہ مسلمان اپنے دین، اسلام اور نبیؐ کی حرمت کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار رہتا ہے اور یہ چیز مغربی دنیا کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دین اسلام یا ہمارے نبیؐ کی حرمت اور ان کی ذات کے متعلق گفتگو کرنی ہے تو ادب کے دائرے میں رہ کر کی جائے اور یہ کوئی آزادی رائے نہیں ہے کہ آپ دنیا کی محترم ترین ہستی کے بارے میں وہ باتیں کریں جو باتیں عام لوگوں کے بارے میں بھی کرنا زیب نہیں دیتیں۔مسلمانوں کا تو ایمان ہے کہ وہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا ء میں سے کسی ایک پر بھی ایمان نہیں لائیں گے تو ان کا ایمان غارت ہو جائے گا اور اللہ تعالی نے دنیا میں جتنے بھی پیغمبر مبعوث فرمائے ہیں ان سب پر ایمان لانا مسلمان کا فرض ہے اور کوئی مسلمان نہ تو کسی پیغمبر کی شان میں گستاخی کا سوچ سکتا ہے اور نہ ہی اسلام اور قران کے متعلق ایسی گفتگو کر سکتا ہے جو سلمان رشدی ملعون نے اپنی کتاب میں کی ہے جس کی وجہ سے اسے حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ سلمان رشدی نے اگرچہ یہ گستاخانہ کتاب برسوں قبل لکھی تھی جس پر اس کے خلاف قتل کے فتوے بھی جاری کئے گئے لیکن اتنے عرصے سے وہ ملعون چھپ کر زندگی گزار رہا تھا یا مغربی دنیا کی ایجنسیاں اس کی پشت پناہ بنی ہوئی تھیں اور زیر زمین زندگی گزارنے پر مجبور تھا۔ مسلمانوں کے نزدیک تو کسی بھی مذہب کی توہین جائز نہیں چاہے یہودی ہو یا نصرانی، تمام مذاہب مسلمانوں کے ہاں معتبر ہیں۔اس بارے میں قران پاک کا واضح ارشاد ہے سورہ انعام میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ”اور (اے ایمان لانے والو!) یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں
ہم نے اسی طرح ہر گروہ کے لیے اس کے عمل کو خوشنما بنا دیا ہے پھر انہیں اپنے رب ہی کی طرف پلٹ کر آنا ہے، اس وقت وہ انہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں“۔کیوں کہ گالم گلوچ، کسی کے مذہب کی توہین کرنا یا ان کے خداؤں کو گالی دینا یا ان کی مقدس ہستیوں کو برا بھلا کہنا کسی طور پر بھی اسلام میں درست نہیں سمجھا گیا تو یہی چیز دیگر مغربی دنیا کو بھی سمجھنی چاہئے کہ اسلام کے بارے میں یا نبی ؐ کے بارے میں توہین آمیز گفتگو کرنا کسی طور پر بھی آزادی رائے نہیں ہے بلکہ یہ طے شدہ حدود و قیود سے تجاوز کرنے کی بات ہے جس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یہ تو دین کا معاملہ ہے اور یہاں مغربی ممالک کی آزادی رائے جاگ جاتی ہے جبکہ یہی مغربی ممالک ہولو کاسٹ پر تبصرہ کرنے والوں پر پابندیاں لگا دیتے ہیں ان کو سزائیں دیتے ہیں تو تب مذہبی آزادی کیوں نہیں جاگتی، حال ہی میں فلسطینی صدر محمود عباس نے جرمنی کا دورہ کیا تو وہاں ایک صحافی کے سوال پر انہوں نے جواب دیا کہ اسرائیل 1947سے لے کر آج تک فلسطین کیخلاف پچاس ہولو کاسٹ کر چکا ہے تو ان کے اس بیان کو بنیاد بنا کر جرمنی پولیس فلسطینی صدر کیخلاف تحقیقات شروع کر چکی ہے وہ تو فلسطینی صدر جرمنی کے سرکاری دورے پر تھے اور ایک سرکاری مصروفیت پر ہوتے ہوئے انہوں نے صحافی کو سوال کے جواب میں یہ کہا اور انہیں سفارتی استثنی حاصل ہے وگرنہ اس بیان پر ان کیخلاف جرمنی میں فوجداری کارروائی بھی ہو سکتی تھی یعنی مغربی دنیا کا دہرا معیار آشکار ہوتا ہے کہ ایک مذہب کے پیروکاروں پر ہونے والے ظلم کیخلاف یا اس واقعہ کی صحت پر بات کرنا بھی منع قرار دے دیا جاتا ہے جب کہ دوسری جانب دنیا کے دوسرے بڑے مذہب اسلام اور پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ کی شان میں گستاخی کو یہ مغربی دنیا آزادی رائے سمجھتی ہے۔
جب تک مغرب یہ دوہرا معیار ختم نہیں کرے گا تب تک یہ دوری اور مذاہب کے مابین جو اختلافات ہیں وہ اور نمایاں ہوتے رہیں گے۔کیوں کہ اسلام تو امن کا مذہب ہے اور ہمارے نبی ؐ نے تو جنگوں میں دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کا، ان کے مذہبی رہنماؤں کا احترام کرنے کا حکم دیا ہے۔ آپ ؐ جب بھی کسی جنگی دستے کو کافروں کیخلاف لڑنے کیلئے روانہ کرتے تو آپؐ انہیں یہ نصیحت کرتے تھے کہ جب کافروں کے دیس میں جنگ کیلئے داخل ہو جاؤ اور جب جنگ برپا ہو جائے تو آپؐ اپنے صحابہ کو حکم دیتے تھے کہ کسی بچے کو، عورت کو، ان کی مذہبی شخصیات کو اور عبادت گاہوں کو مت ڈھانا اور ان کے اندر موجود لوگوں سے تعرض نہ کرنا۔یعنی اسلام تو اس حد تک دیگر مذاہب کا احترام کرتا ہے کہ جنگ کی حالت میں بھی ان کی عبادت گاہوں اور مذہبی پیشواؤں کی عزت کا پاس کرتا ہے۔تو دوسری جانب آج مغرب جو انسانیت کا سب سے بڑا علمبردار بنتا ہے تو اسے بھی چاہئے کہ مذہب اسلام اور اللہ کے محبوب ترین نبی حضرت محمد ؐ کی حرمت کا خیال کرے اور سلمان رشدی جیسے ملعون عناصر کی پشت پناہی کو چھوڑ کر ایسے غلیظ مجرمان کو قانون کے حوالے کرے تا کہ کسی عام مسلمان کو قانون ہاتھ میں لینا ہی نہ پڑے۔