قائداعظمؒ نے پاکستان کی ترقی کا راز بھی بتا دیا تھا ۔۔۔۔۔

 قائداعظمؒ نے پاکستان کی ترقی کا راز بھی بتا دیا تھا ۔۔۔۔۔
 قائداعظمؒ نے پاکستان کی ترقی کا راز بھی بتا دیا تھا ۔۔۔۔۔

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 تحریر : پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی
قسط: 25
 غیر منقسم ہندوستان میں مسلمان تعلیم،تجارت،تعمیرات تہذیب وثقافت میں ہندوﺅں سے بہت پیچھے تھے۔ اسی وجہ سے آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر جناب بیرسٹر محمد علی جناحؒ نے ٹھا ن لی کہ ہندوستان کے ان پسے ہوئے مسلمانوں کو ہندو اور انگریز کے دبدبے سے باہر نکالنا ہے کیونکہ ہندو زمیندار اور مسلمان کاشتکار تھے۔صنعت کار ہندواور ورکر مسلمان تھے۔بڑے تعلیمی اداروں میں ہندو حاکم مسلمان محکوم تھے۔ بیرسٹر جسٹس امیر علی آف کلکتہ نے1877ءکے قریب سنٹر ل نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن کی بنیاد ڈالی تاکہ مسلمانوں کو تعلیم میں آگے لایا جائے۔محترم حسن علی آفندی اس کے ممبر ہوئے۔اس طرح کراچی میں اس ایسوسی ایشن کی بنیادپڑی۔ کراچی میںسندھ مدرسة الاسلام قائم ہوا۔محمدعلی جناح بانی¿ پاکستان نے اسی ادارے سے تعلیم پائی۔اس سکول میں اسلامی اور مشرقی اقدار کی طرف خاص توجہ دی جاتی تھی اور نئی نسل کو اسلامی افکار کےساتھ ساتھ دیگر تعلیم دی جارہی تھی۔
 اسی طرح سرسید احمد خان نے علیگڑھ میںمسلم اینگلواورینٹل کالج کی ابتداءکی جو بعد میں علی گڑھ یونیورسٹی بنا۔1857ءکی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کو انگریزوں نے بڑی تکالیف پہنچائیں۔ ہندو انگریز کے ساتھ مل گئے اورمکر وفریب کیا کہ مہاراج ہم تو انگریز کے خلاف نہ تھے۔ ہمیں اُکسایا گیاتھا۔اس طرح مسلمان انگریز سرکار کی نظر میں خطرہ بن گئے۔ ہندو جلد ہی مسلمانوں کےلئے زہر بن گئے اور خود تیزی کے ساتھ انگریز سرکار کا حصہ ہوتے گئے اور ترقی کرتے گئے۔ بینک ہندوﺅں کے زیرِ اثر تھے۔ انگریزوں نے بنگال پر قبضہ کیا اور انگریزی زبان رائج کرنے کی سوچ لی۔
 1853ءمیںلارڈ میکالے نے انگریزی زبان عام کرنے کی تجویز پیش کی ۔کٹر ہندو راجہ رام لعل موہن رائے آف کلکتہ نے اس تجویز کو نہ صرف قبول کیا بلکہ ہندوﺅں کو نصیحت کی کہ آپ لوگ انگریزی سیکھیں۔ مسلمان اس طرف راغب نہ ہوئے۔مسلمان علماءنے فتویٰ جاری کردےا کہ فرنگی کی زبان سیکھنا حرام ہے۔ اس وجہ سے ہندوستان بھر میں مسلمانوں والے علاقے شمال مشرقی حصہ (بنگال) اور شمال مغربی حصہ (موجودہ پاکستان) تعلیم میں پیچھے رہ گئے۔مسلمان قوم مغربی معاشرے کی تعلیم سے کٹ گئی۔ہندوﺅں کے زیادہ آبادی والے علاقے تعلیم میں آگے ہوگئے اور مسلمانوں کی آبادی والے علاقے پیچھے رہ گئے۔ مثلاًسابق مشرقی پاکستان میں صرف ایک یونیورسٹی ڈھاکہ میں تھی جو1923ءمیں نواب سرسلیم اللہ کی کاوش سے معرضِ وجود میں آئی۔ وہ بھی مشرقی بنگال اور مغربی بنگال کی Unificationکی وجہ سے،ورنہ سابق مشرقی پاکستان میں تعلیمی ادارے ناپید تھے اور1923ءتک کوئی یونیورسٹی نہ تھی۔ مغربی پاکستان لاہور میں صرف ایک یونیورسٹی1883ءمیں قائم ہوئی۔ اگر انگریز نہ آتے تو یہاں بھی تعلیم کا فقدان تھا۔ سارے موجودہ پاکستان میں ایک پنجاب یونیورسٹی تھی۔ سکھ حکمران رنجیت سنگھ نے کوئی29سال مغربی حصے پرحکومت کی مسلمانوں پر مظالم ڈھائے۔ کوئی تعلیمی ادارہ مسلمانوں کا نہ تھا، مسلمانوں کےلئے قدم قدم پر ہزار قسم کی مصیبتیں تھیں۔ سکھوں نے اپنے زمانے میں مسلمانوں کو بڑی اذیتیں دی تھیں،رنجیت سنگھ کاصوبہ سرحد کا انچارج جنرل بدھ سنگھ تھا جب اس کا دورہ سرحد ہوتا تو صوبہ سرحد کی عورتیں پہاڑوں پر چلی جاتی تھیں۔ شاہی مسجد کو گھوڑوں کا اصطبل بنا لیا گیاتھا۔
 مسلمانوں کو بیدار کرنے کا ایک ذریعہ یوں پیدا ہوا کہ لارڈ منٹو وائسرئے ہند سے یکم اکتوبر1906ءمیں مسلمانوں کے ایک وفد نے ملاقات کی۔سرآغا خان سوئم اس وفد کے سربراہ تھے۔وائسرائے کے سامنے مسلمانوں نے اپنی تکالیف اور مطالبات پیش کئے۔ یہ لوگ واپس کچھ اُمید کے ساتھ لوٹے اور 30دسمبر1906ءمیں نواب سرسلیم اللہ خان کی رہائش گاہ پر میٹنگ ہوئی۔اس وقت مسلم لیگ کا مُدعا انگریز سرکار کے ذہن کو مسلمانوں کےلئے صاف کرنا تھا اور مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنا تھا۔ اس طرح آل انڈیا مسلم لیگ کا کارواں بنتا گیا اور جب 1934ءمیںقائداعظم محمد علی جناحؒ نے صدارت سنبھالی تومسلم لیگ کے وجود کو صحیح سمت والی ایک نئی روح میسّر آئی اور مسلمانوں کے جُدا وطن کےلئے قائداعظم سرگرداں ہوگئے۔ ہندوستان کے قریہ قریہ شہر شہر میں لوگوں سے خطاب کیا اور مسلمانوں کے تعلیمی اور معاشی شعور کو بیدار کرنے لگے۔ 
قائداعظم محمد علی جناحؒ نے شروع ہی سے مسلمانوں کوتجارت کی طرف راغب کیا۔آپ نے 27دسمبر 1943ءمیں مسلم ایوان تجارت کراچی میں فرمایا:”پاکستان میں آنے والے علاقوںمیں زبردست اقتصادی امکانات موجود ہیں۔ انہیں زیادہ سے زیادہ ترقی دی جائے۔“یوم پاکستان کی تقریب منعقدہ23مارچ1944ءلاہور میں آپ نے فرمایا:”ہمارے لیے پاکستان کا مطلب ہے ہمارا دفاع ، ہماری تجارت اور ہمارا مستقبل۔ یہ واحد راستہ ہے جو ہمیں اپنی آزادی ،اپنے وقار اور اسلام کی عظمت کو برقرار رکھنے کی ضمانت دے گا۔“ اسی طرح قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 24 مارچ1940ءکو گرلز کالج کوپر روڈ میں اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ”دنیا میں دوطاقتیں ہیں۔ ایک قلم اور ایک تلوار دونوں میں بڑا مقابلہ ہے ۔مگر ایک تیسری طاقت بھی ہے۔ جوان دونوں سے طاقتور ہے۔ وہ عورت کے روپ میں ہے۔ “
 اسی طرح مسلم ایوان تجارت لاہور میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا.... اقتصادی ترقی اور اقتصادی قوت زندگی کے جملہ شعبوں میں سب سے زیادہ اہم ہے۔ اسی طرح بمبئی میں 28اکتوبر1944ءکو مسلم ایوان تجارت میں فرمایا کہ مجھے خوشی ہورہی ہے کہ مسلمانوں میں صنعتی اور تجارتی شعور پیدا ہورہا ہے اورکئی جگہوں میں ایوان تجارت قائم ہوگئے ہیں اور کل ہند کے ساتھ مسلم تجارت کا الحاق ہوگیا ہے۔
 اسی طرح قائداعظم محمد علی جناح ؒ گورنر جنرل پاکستان نے27اپریل1948ءکو ایوان تجارت کراچی میں طویل تقریر میں فرمایا:
”تاہم میں آپ کی خصوصی توجہ حکومت پاکستان کی اس گہری خواہش کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ صنعت کاری کے ہر مرحلے میں انفرادی کوششوں اور نجی شعبے کو شامل کیاجائے۔ حکومت نے جن صنعتوں کو اپنے زیرِ انتظام رکھنے کا فیصلہ کیا ہے وہ جنگ میں کام آنے والے اسلحہ اور گولہ بارود،پن بجلی کی پیداوار، ریل کے ڈبے،ٹیلی فون اور تار اور برقی آلات وغیرہ کی صنعتوں پر مشتمل ہیں۔دیگر صنعتی سرگرمی کے معاملے میں نجی شعبے کو کھلی آزادی ہوگی اور حکومت صنعت کے قیام اور ترقی کےلئے جو بھی سہولت دے سکتی ہے وہ مہیا کردی جائے گی ۔ پاکستان کے وسیع معدنی ذخائر کا جائزہ لے کر ملک کے آبی و برقی وسائل کو ترقی دینے کی سکیمیں تیار کرکے،ذرائع نقل و حرکت کی بہتری اور بندرگاہوں اور انڈسٹریل فنانس کارپوریشن کے قیام کے منصوبے مرتب کرکے حکومت ایسے حالات پیدا کردے گی جس میں صنعت اور تجارت ترقی اور فروغ پاسکیں۔ جس طرح پاکستان براعظم ایشیاءمیں زرعی اعتبار سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے، جس کا آپ نے بھی ذکر کیا، مجھے بھروسہ ہے کہ اگر یہ اپنی صنعتوں کی تعمیراپنے وسیع تر زرعی سرمائے کا بھرپور اور بہترین استعمال کرے، ہنر مندی اور کاریگری کی روایات جن میں اس کے باشندوں کو اس قدر شہرت حاصل ہے اور ان کی نئی تکنیک کو اپنانے کی صلاحیت کا استعمال کرے تو یہ بہت جلد صنعت کے میدان میں بھی بہتر نقوش چھوڑ دے گا۔“
 گویا قائداعظمؒ تجارت کو فوقیت دیتے تھے۔اسی طرح بنگال آئل ملز کی افتتاحی تقریب میں2 فروری 1948ءکو خطاب میں فرمایا: ”ہر نئی مل یا فیکٹری کے قیام کا مطلب یہ ہے کہ اپنے ملک کے اقتصادی استحکام اور عوام کی خوشحالی کی شاہراہ پر ہمارا ایک اور قدم آگے بڑھا ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ یہ لو گ خوددار، خودکفیل اور معاشرہ کے مفید ارکان کی حیثیت سے جئیں۔ نہ تو تمام مہاجر زراعت پیشہ لوگ ہیں اور نہ ہی قابل کاشت رقبے کے چھوٹے چھوٹے غیر اقتصادی ٹکڑے کرکے انہیں زراعت پیشہ مہاجرین میں بانٹا جاسکتا ہے۔ان لوگوں کو ان کے پیروں پر کھڑا کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ملک میں تیزی سے صنعتکاری کی جائے جس سے ان کےلئے روزگار کے نئے مواقع میسّر آجائیں۔ قدرت نے ہمیں خام مال کی دولت سے باافراط نوازا ہے۔اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے وسائل کو اپنی مملکت اور اس کے عوام کے بہترین مفاد کےلئے استعمال میں لائیں۔“
 قائداعظم محمد علی جناحؒ 27ستمبر1947ءکوولیکا ٹیکسٹائل ملز کے سنگِ بنیاد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”ولیکا ٹیکسٹائل ملز لمیٹڈ کا سنگ بنیاد رکھنے کےلئے آج یہاں آکر مجھے بڑی مسرت ہوئی ہے۔اس وقت پاکستان زیادہ ترزراعتی ملک ہے اور تیار شدہ اشیاءکےلئے اس کا انحصار بیرونی دنیا پر ہے۔اگر پاکستان دنیا میں اپنا صحیح کردار ادا کرنا چاہتا ہے جس کا حق اسے اپنے رقبہ،افرادی قوت اور وسائل سے حاصل ہوتاہے تو اسے اپنی زراعت کے پہلوبہ پہلو صنعتی امکانات کو بھی ترقی دینی ہوگی اور اپنی اقتصادیات کو صنعتی میدان میں بھی بڑھانا ہوگا۔اپنے ملک میں صنعتکاری کے ذریعہ ہم اشیائے صرف کی فراہمی کےلئے بیرونی دنیا پر انحصار کم کرسکیں گے،لوگوں کو روزگار کے زیادہ مواقع فراہم کرسکیں گے اور مملکت کے وسائل میں بھی اضافہ کرسکیں گے۔قدرت نے ہمیں صنعت و حرفت میں کام آنے والے بہت سے خام مال سے نوازا ہے۔“ ( جاری ہے ) 
کتاب ”مسلم لیگ اورتحریکِ پاکستان“ سے اقتباس (نوٹ : یہ کتاب بک ہوم نے شائع کی ہے، ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔ )