یہ تحریک پاکستان کے عروج کا زمانہ تھا، نکودر تحصیل اور ہمارے گاؤں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، ہندو مسلم چپقلش جاری تھی جو دن بدن بڑھ رہی تھی
مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
قسط:1
کچھ اپنی زبان میں
برصغیر پاک و ہند کا ایک مشہور مردم خیز ضلع جالندھر۔ صرف مردم خیز ہی نہیں اپنی زرعی زرخیزی کے ساتھ ساتھ ہر شعبہئ زندگی کے نامور، دانشور، فنکار اور بے شمار تاریخ ساز شخصیات کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ اس خطہئ زمین کو دو آبہ کا نام بھی دیا جاتا ہے کیونکہ یہ دو دریاؤں کے درمیان واقع ہے۔ دریائے ستلج اور بیاس کے درمیان ضلع جالندھر کی ایک تحصیل نکودرہے۔ اس تحصیل کا ایک چھوٹا سا گاؤں ”بھدم“ کے نام سے مشہور تھا۔ اس گاؤں کے چودھری امام دین متوسط درجہ کے کاشت کار اور زمیندار تھے مگر اپنی شرافت اور نجابت کی بناء پر علاقہ میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ چودھری امام دین کے دو بیٹے حاجی جان محمد اور حاجی رحمت اللہ تھے۔ ان کی ایک بیٹی بھی تھی۔ بڑے بیٹے 1929ء میں برطانیہ چلے گئے اور وہاں گلاسگو میں مقیم ہو گئے جہاں وہ پندرہ برس تک کام کرتے رہے اور اپنے خاندان کی وہاں سے حسب رواج مالی امداد کرتے رہے جس سے چودھری امام دین نے اپنی زرعی زمین میں بھی اضافہ کیا جہاں تک کہ وہ گاؤں کے خوشحال زمیندار ہو گئے۔
میاں امام دین کے دوسرے صاحبزادے حاجی رحمت اللہ اپنے والد کے ساتھ زمینوں کی دیکھ بھال اور کاشت کاری کرتے تھے۔ حاجی رحمت اللہ میرے والد گرامی تھے۔ ان کی شادی ایک قریبی رشتہ دار میاں نبی بخش کی اکلوتی صاحبزادی رحمت بی بی سے ہو گئی۔ ان کے بطن سے میرے بڑے بھائی حاجی فتح محمد، حاجی سردار محمد شاہد، ایک بہن مریم اور راقم بشیر احمد مجاہد تھے۔ ان کے علاوہ دو بھائی نوعمری میں ہی فوت ہو گئے۔ پیدائش کا ریکارڈ تو نہیں رکھا جاتا تھا مگر پرائمری سکول کے ریکارڈ کے مطابق میری تاریخ پیدائش یکم نومبر 1942ء ہے۔ میری والدہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھیں۔ اس لئے مشترکہ خاندانی نظام کے تحت جو کہ ہمارے پنجاب کے دیہات میں بہت مضبوط تھا، ہم سب نانا کے گھر میں اکٹھے رہے۔ میری والدہ ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہو کر ہماری کم عمری میں 1946ء میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ اس طرح میں 1946ء میں تقریباً چار سال کی عمر میں والدہ کے سائے سے محروم ہو گیا۔
یہ تحریک پاکستان کے عروج کا زمانہ تھا۔ نکودر تحصیل اور ہمارے گاؤں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ ہندو مسلم چپقلش جاری تھی جو دن بدن بڑھ رہی تھی۔ ہمارے علاقہ میں مقامی سکھوں اور ہندوؤں میں تو ہمت نہ تھی کہ وہ ہمارا مقابلہ یا مخالفت کرتے۔ مگر آس پاس کے دیگر علاقوں سے مسلمان دشمنی کے لئے ہندو اور سکھ اکٹھے ہو رہے تھے۔ اسی زمانہ میں ہمارے تایا حاجی جان محمد انگلینڈ سے واپس آ گئے اور جب مسلمانوں کو یہ معلوم ہوا کہ جالندھر کا یہ علاقہ بھارت کے حصہ میں آ گیا ہے اور مسلمانوں کو یہاں سے جانا ہو گا۔ میری والدہ محترمہ اور خاندان کے دیگرکئی بزرگوں کی قبریں گاؤں کے قریب قبرستان سے ملحقہ ہمارے کھیتوں میں تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب بھی میں اپنے گھر والوں سے ناخوش ہوتا تو حالت ناراضگی میں والدہ کی قبر پر جا کر بیٹھ جاتا اور گھر والے مجھے تلاش کرتے ہوئے وہاں سے مجھے واپس گھر لے آتے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
