لال مسجد تحقیقاتی کمیشن ،فوج بھی فریق بن گئی
راولپنڈی(مانیٹرنگ ڈیسک)آرمی ایڈجوٹنٹ جنرل اور جیگ برانچ کے سربراہ کو لال مسجد تحقیقاتی کمیشن بارے آئینی پٹیشن میں فریق بنا دیا گیا۔ پاکستان آرمی میں نظم و ضبط کے ذمہ دار ایڈجوٹنٹ جنرل اور جیگ برانچ کے سربراہ جج ایڈووکیٹ جنرل کو لال مسجد تحقیقاتی کمیشن بارے ایک آئینی پٹیشن میں فریق بنایا گیا ہے۔ سپریم کورٹ سے کہا گیا ہے کہ مدعاءعلیہان پاکستان آرمی ایکٹ کی مبینہ خلاف ورزی بارے تادیبی کارروائی کے مجاز ہیں اور عدالت ان سے دریافت کرے کہ لال مسجد واقعہ میں ملوث کسی فوجی اہلکار کیخلاف کوئی قانونی کارروائی کی گئی ہے۔ عدالت کے حکم میں یہ بات لائی گئی کہ 4 دسمبر کو کمیشن کے تقرر سے قبل جسٹس گلزار احمد اور جسٹس شیخ عظمت سعید لال مسجد مقدمات کی سماعت میں شامل نہیں رہے اور عدالت یہ امر مدنظر رکھے کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کو 2007ءمیں ایک فوجی جنرل کے ہاتھوں دو مرتبہ غیر فعال ہونا پڑا۔ حکم امتناعی کی ایک درخواست میں استدعاءکی گئی ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے جج جسٹس شہزاد شیخ کو واقعہ کی تحقیقات سے فی الفور روک دیا جائے کیونکہ کوئی ہائیکورٹ آرٹیکل 199 کے تحت مسلح افواج کے کسی رکن بارے درخواست کی سماعت یا داد رسی کی مجاز نہیں۔ نیز کمیشن کا تقرر کرتے وقت سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کے اختیارات پر لگائی گئی آئینی بندشوں کو نظر انداز کیا ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ بنیادی حقوق کے نفاذ کے ضمن میں عدالت ہائیکورٹ کے اختیارات کے برعکس کوئی حکم جاری نہیں کرسکتی اور کمیشن کا تقرر آئین سے بالا ہوا ہے کیونکہ اسلام آباد ہائیکورٹ وفاقی شرعی عدالت کو تحقیقات کا حکم نہیں دے سکتی۔ درخواست گزار شاہد اورکزئی نے کہا کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے قول و فعل کا اثر فوجی اہلکاروں پر نہیں پڑنا چاہیئے اور اصغر خان کیس کے بعد آرمی چیف اور چیف جسٹس کے متصادم بیانات کو عدالت مدنظر رکھے۔ مذکورہ بالا فوجی افسران کے علاوہ جسٹس شہزاد شیخ اور وفاق کو بھی مقدمے میں فریق بنایا گیا ہے۔