برطانوی کمپنی کے مسلما ن ملازم کا شرا ب فرو خت کر نے سے انکار

برطانوی کمپنی کے مسلما ن ملازم کا شرا ب فرو خت کر نے سے انکار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 لند ن(بیورپورٹ)برطانوی کمپنی مارکس اینڈ سپنسر کے ایک مسلمان ملازم کی جانب سے گاہک کو شراب بیچنے سے انکار پر کمپنی نے معافی مانگی ہے۔ غیر ملکی خبر رسا ں ادارے کے مطا بق کمپنی کا کہنا ہے کہ عموماً اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایسے ملازمین کے مذہبی عقائد کا خیال رکھیں اور انہیں موزوں کام دیں۔ کمپنی کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں اس پالیسی کا خیال نہیں رکھا گیااسلام میں شراب نوشی منع ہے اور کچھ مسلمان اس کی بوتلوں کو ہاتھ لگانے سے بھی انکار کرتے ہیں۔یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب برطانوی اخبار ٹیلی گراف کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کمپنی کے ایک صارف نے بتایا کہ وہ مارکس اینڈ سپنسر کے ایک سٹور پر جب شراب خریدنے گئے تو دکان کی ایک ملازم نے انتہائی احترام کے ساتھ ان سے معذرت کر لی اور انہیں دوسرے کاو¿نٹر پر جانے کے لیے کہا۔مارکس اینڈ سپنسر کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ جہاں ہمارے ایسے ملازم ہوں جن کے مذہبی عقائد انہیں مخصوص کھانے پینے کی اشیا کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہ دیتے ہوں تو ہم اس ملازم کے ساتھ مل کر ان کے لیے کمپنی میں مناسب کام تلاش کرتے ہیں، مثال کے طور پر انہیں کپڑوں یا بیکری کے ڈپارٹمنٹ میں جگہ دے دی جاتی ہے۔۔انہوں نے کہا کہ ایک سیکیولر کمپنی ہونے کی وجہ سے ہم اپنے ملازمین اور صارفین دونوں میں ہی تمام مذہبی عقائد کا احترام کرتے ہیں اور ہم معذرت خواہ ہیں کہ اس معاملے میں اس پالیسی پر عمل نہیں ہوا۔چند دیگر اور کمپنیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے بھی ایسی ہی پالیسیاں بنا رکھی ہیں جن کے تحت مسلمانوں کو شراب یا سور کے گوشت کو ہاتھ نہیں لگانا پڑتا یا پھر دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی ایسی ہی چھوٹ دی جاتی ہے۔تاہم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کمپنی جان لوئیس کے مینجنگ ڈائریکٹر اینڈی سٹریٹ کا کہنا تھا کہ ان کی کمپنی کی ایسی کوئی پالیسی نہیں ہے اور انہوں نے اس بات پر بھی سوال اٹھایا کہ کیا ملازمین کو یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ کسی گاہک کی مدد کرنے سے انکار کریں۔انہوں نے کہا کہ ’یہ تو بات اب عقلِ عام سے باہر جا رہی ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ہماری ٹیموں میں کبھی ایسے مسائل نہیں آئے اور ہم نے تو اس سلسلے میں پالیسی بھی نہیں بنا رکھی۔ ’میں امید کرتا ہوں کے ملازمین کو اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ ان کے کام میں اس کی ضرورت پڑے گی۔‘

مزید :

عالمی منظر -