امید کی ایک مدھم سی کرن!
21اور22دسمبر (2013ئ) کی درمیانی رات، سال کی طویل ترین شب تھی۔میں اس رات بہت دیر تک جاگتا رہا۔بڑے بڑے شہروں کے باسیوں کی شب بیداری اب ایک معمول بن چکی ہے۔بظاہر دن رات کا فرق مٹ گیا ہے۔سرشام بارش شروع ہوئی اور رات گئے تک یہ سلسلہ جاری رہا....میرے دماغ کے اندر بھی خےالات کی ایک بارش تھی کہ تھمنے کا نام نہیں لیتی تھی!
دو دن پہلے فاٹا(شمالی وزیرستان) کے میر علی ایریا میں آرمی نے جو آپریشن کیا تھا اور جس میں فوج کے کئی اہلکار بھی شہید ہوگئے تھے اور ساتھ ہی درجنوں دہشت گرد بھی مارے گئے تھے، مَیں اس پر غوروخوض کرتا رہا۔آئی ایس پی آر کے مطابق مارے جانے والے 37دہشت گردوں میں زیادہ تعداد ازبک باشندوں (نوجوانوں) کی تھی۔
اگلے روز چیف آف آرمی سٹاف نے پشاور کا دورہ کیا، جہاں پشاور کور ہیڈکوارٹر میں ان کو بریفنگ دی گئی کہ میر علی اور میرن شاہ میں کیا ہوا اور کیوں ہوا تھا۔آرمی چیف نے یادگارِِ شہدا پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور ان کے حق میں مغفرت کی دعا مانگی۔ویسے تو شہیدوں کو مغفرت کی ضرورت نہیں ہوتی کہ اللہ کریم نے ان کو بغیر کسی پرسش کے ڈائریکٹ جنت میں جانے کا مژدہ دیا ہوا ہے، پھر بھی انسان جب ان کے مقابر پر جا کر مغفرت کی دعامانگتا ہے تو اس میں اپنی اور قوم کی مغفرت اور مستقبل کی خوشحالی اور امن و امان کی دعا بھی شامل ہوتی ہے.... آرمی چیف کی یادگار شہداءپر دعا مانگنے کی غرض و غائت بھی یہی تھی۔
انہوں نے پشاور میں جو بیان دیا وہ بھی نہایت حوصلہ افزا اور خوش آئند تھا۔انہوں نے کہا: ”دہشت گرد جب بھی حملہ کریں گے، اس کا خاطر خواہ جواب دیا جائے گا“.... دہشت گردوں کی چار درجن کے قریب یہ ہلاکتیں جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاک آرمی کا پہلا ”خاطر خواہ جواب“ تھا۔ قوم کو اس جواب کی توقع ایک طویل مدت سے تھی....شمالی وزیرستان میں آپریشن کیا جائے یا نہ کیا جائے.... کیا یہ جنگ امریکہ کی ہے یا ہماری اپنی ہے.... کیا مذاکرات (طالبان سے)کرنے چاہئیں یا نہیں کرنے چاہئیں، ان موضوعات کو سن سن کر اور پریس میڈیا میں پڑھ پڑھ کر پاکستان کی اکثریت عاجز آ چکی تھی....اب امید کی ایک مدہم سی کرن نظرآ رہی ہے جو شائد آنے والے ایام میں پوری آب و تاب سے جگمگانے لگے....اس رجائیت کے دو پہلو ہیں۔
ایک تو یہ ہے کہ سوات آپریشن کے بعد پہلی بار پاک آرمی اور مرکزی حکومت ایک ہی صفحے پر نظر آتے ہیں.... گزشتہ ہفتہ آرمی چیف، قومی سلامتی کی کابینہ کمیٹی کے پہلے اجلاس میں شریک ہوئے تھے جس میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ ہماری اولیں ترجیح یہ ہے کہ طالبان سے مذاکرات کئے جائیں لیکن آخر ی ترجیح طاقت کا استعمال بھی ہے۔
معلوم یہ ہو رہا ہے کہ اولیں ترجیح، طالبان کے پندار کی ناک بن گئی ہے، اس لئے ازراہ مجبوری حکومت کو آخری ترجیح کی طرف آنا پڑے گا۔میر علی ایریا میں خونریز جھڑپ اس ”آخریں ترجیح“ ہی کا ایک مظاہرہ تھا جو آگے بڑھتا اور میرن شاہ سے انگور اڈے تک جاتا معلوم ہورہا ہے۔ حال ہی میں کامرہ میں JF-17 کی تقریب میں وزیراعظم کے ساتھ تینوں سروسز چیفس کا شانہ بشانہ کھڑا ہونا بھی ایک نہایت ہی امید افزا منظر تھا۔دوسرا منظر وہ تھا جب خواجہ آصف کہ جن کو وزیر دفاع کا قلمدان ابھی ابھی تفویض ہوا ہے، وہ بھی اپنے آرمی چیف کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اگر مذاکرات سے کام نہ چلا تو طاقت کا استعمال ناگزیر ہوگا.... تینوں سروسز کے چیفس ،وزیرداخلہ اور وزیراعظم کا یوں ایک ہی نقطے پر اتفاق اور عزمِ صمیم ایک ایسا لمحہ تھا جس کا بڑی شدت سے انتظار کیا جا رہا تھا۔گزشتہ دور میں اگرچہ بظاہر سروسز چیفس اور جمہوری حکومت کے کرتا دھرتا ایک ہی صفحے پر بیان بازی کا ”ارتکاب“ کرتے رہتے تھے، لیکن ان میں حتمی عزمِ صمیم (Will)کی کمی تھی۔بس ڈانوں ڈول اور گومگو کاسا عالم ہوتا تھا جو پاکستان کی آبادی کی اکثریت کو پریشان رکھتا تھا.... یہ پریشانی ایک تناسب سے اب بھی ہے جس کا فی الفور تدارک ضروری ہے۔
آجکل مولانا فضل الرحمن امیر JUIبھارت میں ہیں(شائد اب واپس آ چکے ہوں گے) لیکن جب میر علی ایریا میں فوج نے اپنے شہیدوں کا بدلہ لینے کے لئے آپریشن کیا تو ان کو بھارت میں بھی چین نہ آیا۔فوراً وہاں سے بیان داغا کہ ”وزیرستان میں اس فوجی آپریشن کو بند کیا جائے اور کرفیو ہٹایا جائے....یہ ظلم ہے (فوجی شہید ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں، ہماے طالبان کا بال بیکا نہ ہو!)“
اسی روز جناب وزیراعظم نے پولیو کے قطرے پلاتے ہوئے مولانا سمیع الحق کے ساتھ جو معانقہ کیا، وہ بھی شائد مولانا فضل الرحمن پر گراں گزرا ہوگا....ایک مسجد میں دو امام کیسے سما سکتے ہیں؟
اور تیسرے امام مولانا عمران خان نے بھی ریلی کی نیت باندھ لی.... انہوں نے فرمایا کہ ازبک باشندے تو مارے گئے لیکن میر علی کے دیہاتوں میں رہنے والے سویلین بچوں اور خواتین کا کیا قصور تھا؟ وہ تو معصوم اور بے گناہ تھے! ان کو ناحق کیوں اار دیا گیا؟
خبر نہیں خان یہ سب کچھ کیوں کہہ رہے ہیں .... جس طرح مولانا فضل الرحمن مذاکرات میں اپنے کردار کو ایک کلیدی کردار کے طور پر منوانا چاہتے ہیں اور اس ”راضی نامے“ کا سہرا اپنی بگڑی پر باندھنا چاہتے ہیں، اسی طرح خان صاحب بھی شائد بچوں اور خواتین کی دہائی دے کر باشندگانِ شمالی وزیرستان کے ایک حصے کی ہمدردیاں سمیٹنا چاہتے ہیں۔دونوں حضرات سیاستدان ہیں۔ دونوں قومی اسمبلی کے اراکین ہیں، دونوں کی سیاسی جماعتوں کی پارلیمان میں نمائندگی ہے۔(ایک کی تو صوبائی حکومت بھی ہے)....اگر یہ حضرات فوج اور فیڈرل حکومت کے ساتھ نہیں ہیں تو یہ ایک نہایت افسوسناک امر ہے اور ملک میں امن و امان کے حوالے سے کوئی نیک فال نہیں ہے۔
امریکہ اب افغانستان سے جا رہا ہے.... پاک فوج پر یہ الزام کہ وہ افغانستان کو اپنی گہرائی (Depth)سمجھتی ہے، ایک طویل عرصے سے قصہ ءپارینہ بن چکا ہے ۔لیکن کیا اندرونِ ملک طالبان کے حملے بھی رُک چکے ہیں؟.... اگر بالفرض رُک بھی جائیں تو پاکستان کے مستقبل کے بارے میں کوئی بات اس وقت تک وثوق سے نہیں کہی جا سکے گی،جب تک دہشت گردی کا اصل منبع تلف اور برباد نہیں کردیا جاتا.... اصل منبع امریکہ نہیں، بلکہ اصل منبع وہ مائنڈ سیٹ ہے جو پاکستان کی آدھی آبادی میں ہمارے بعض سیاستدانوں کی آشیرباد کی وجہ سے فروغ پا رہا ہے۔فرقہ پرستی، شدت پسندی اور دہشت گردی اسی مائنڈ سیٹ کے برگد کے شاخے ہیں!
صوبہ پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، اس کے ابھی ساڑھے چار برس باقی ہیں، جبکہ امریکہ کے افغانستان سے جانے میں صرف ایک سال (زیادہ سے زیادہ) باقی بتایا جا رہا ہے ۔کوئی عمران خان صاحب سے یہ پوچھے کہ وہ باقی ساڑھے تین سال کس سیاسی ایجنڈے پر ریلیاں نکالا کریں گے؟2015ءکا جب آغاز ہوگا تو اول تو امریکہ بوریا بستر سمیٹ چکا ہوگا اور اگر ایسا نہ بھی ہوا تو شائد اس کی ایک پرانی دری یا پرانا تکیہ اور ایک پرانی بان کی چارپائی باقی رہ جائے.... تو کیا پھر بھی یہی عذر لایا جائے گا کہ امریکہ یہاں سے نکل جائے تو امن ہوگا!
ڈرونوں کا سلسلہ بھی اب تقریباً بند ہو چکا ہے۔اقوام متحدہ نے ان کے خلاف قرارداد بھی منظور کرلی ہے۔اقوام متحدہ کی اس قرارداد کی ٹائمنگ ضرور ملاحظہ کریں کہ افغانستان سے امریکی ( ناٹو/ایساف) افواج کے انخلاءکے عین مطابق اور عین بروقت یہ اقدام اٹھایا گیا ہے....کوئی امریکیوں سے سیاسیاتِ عالم کا سبق سیکھے کہ سٹرٹیجی اور ٹیکٹکس کو آپس میں کس طرح ویلڈ (Weld) کرتے ہیں!
لگتا ہے میاں نوازشریف نے تیسری بار وزیراعظم بن کر یہ سبق سیکھ لیا ہے کہ ان کی اصل قوت عوام کے بعد ان کی افواج میں ہے۔ان افواجِ ثلاثہ کو اپنی پشت پر رکھ کر عوام کی اکثریت کی تمناﺅں اور آرزوﺅں کو پورا کرنا اور ملک کی معیشت کو خود کفالت کی راہ پر ڈالنا ان کے لئے بڑے بڑے چیلنج ہیں۔ان کو اپنے ماضی کی غلطیوں سے بھی سبق سیکھنا ہوگا۔معلوم ہو رہا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ اسی راہ پر گامزن ہو جائیں گے....
خاندان پروری سے دور رہنا، دہشت گردی کا خاتمہ کرنا، اقتصادیات کو درست ٹریک پر لانا، عوام کو ریلیف دینا، اور اپنے وزراءکی ٹیم کو میڈیا کی چکاچوند سے دور رکھنا ان کے بڑے بڑے مسائل ہیں....امید کرنی چاہیے کہ وہ ان مشکلات کی سنگینی کا ادراک کریں گے اور پاکستان کو ایک نئے دور میں داخل کرنے کی ”سعادت“ حاصل کریں گے! ٭