پاکستان اور میونخ کانفرنس(2)

پاکستان اور میونخ کانفرنس(2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ماریا صاحبہ نے ان مذہبی مناقشوں پر بھی سیر حاصل بحث کی ہے۔ دوسرا مقالہ بھی ایک خاتون ہائیکے شٹامر نے پیش کیا، جس کا موضوع پاکستان میں بین المذاہب مکالمہ تھا۔ موصوفہ ہامبورگ یونیورسٹی کی عالمی مذاہب کی اکادمی میں ملازم ہیں۔ اسلام، بالخصوص تصوف کا وسیع مطالعہ ہے۔ ابن العربی پر خصوصی مقالہ لکھ چکی ہیں اور حال ہی میں اسلام اور مسیحیت میں وحدت الوجود اور وحدت الشہود پر مشتمل مکالمات کا مجموعہ ترتیب دیا ہے۔ سیمینار میں پڑھے گئے مقالے میں انہوں نے پاکستان اور یہاں کی بعض اقلیتوں (مثلاً مسیحی اور ہندو) کے مابین مذہبی مکالمہ، زیر بحث آنے والے موضوعات اور اس کے مثبت اور منفی پہلوﺅں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ اس نشست کا تیسرا اور آخری مقالہ ہائیڈل برگ کے یورگن شاف لیخنر نے پاکستان میں بسنے و الے ہندوﺅں کے رہن سہن، مذہبی تہواروں، عبادت گاہوں وغیرہ پر پڑھا۔ ان کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستانی ہندوﺅں کی تعداد چھ سے آٹھ ملین ہے اور ان کی90فیصد آبادی صوبہ سندھ کے جنوبی علاقوں میں آباد ہے۔ یہاں رہتے ہوئے ہندوﺅں نے اپنی مذہبی شناخت اور پہچان کو کس طرح قائم رکھا ہے، اس پہلو پر مقالہ نگار نے خاصی اہم معلومات فراہم کیں۔
اسی روز شام کی نشست میونخ کے عجائب گھر برائے نسلیات کی پُر شکوہ عمارت میں منعقد ہوئی۔ اس تقریب کااہتمام اس عجائب گھر کے اسلامی سیکشن کے محافظ اعلیٰ اور میونخ یونیورسٹی میں دین اسلام اور تمدنی مطالعات کے پروفیسر ڈاکٹر یوگرین وسیم فریمگن نے کیا تھا، جو یہاں 1987ءسے کام کر رہے ہیں۔ اس شعبے میں قرآن کے خطی نسخوں کے علاوہ ملبوسات، دستکاریوں کے نادر نمونے، کتابی تصاویر، فنی کمالات کے نمونے اور دستاویزات سلیقہ مندی کے ساتھ محفوظ ہیں۔ اس عجائب گھر کے بڑے ہال میں مندوبین کے علاوہ مدعوئین بھی خاصی تعداد میں موجود تھے۔ وسیم صاحب کا پسندیدہ موضوع پاکستان میں تصوف، صوفیائے کرام کی حیات و تصانیف، مختلف صوفیانہ سلاسل اور ان کی بعض مقامی صورتیں اور صوفیانہ موسیقی بالخصوص قوالی ہے۔ اب تک وہ ان موضوعات پر متعدد جرمن اور انگریزی کتابیں اور مقالے لکھ چکے ہیں۔ ان کی دو انگریزی کتابیں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس (کراچی) سے طبع ہو چکی ہیں۔ ”محبان خدا-اسلام میں صوفیا- پاکستان کا پوسٹر آرٹ“ 2006ءاور ”خطہ صوفیا کی فطری موسیقی“ (2012ئ) اس تقریب میں صوفیائے پاکستان پر مقالہ پڑھا اور بین المذاہب افہام و تفہیم کے لئے اسلامی تصوف کے بنیادی کردار پر زور دیا۔ یہاں کے صوفیاء(بابا فرید الدین گنج شکرؒ) اور صوفی شعراء(بلھے شاہ) نے مختلف مذاہب کے پیروکاروں میں باہمی میل جول، بھائی چارے اور عزت و احترام کی مستحکم روایات قائم کیں، ان پر موجودہ حالات کی روشنی میں عمل پیرا ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ مقالہ نگار نے صوفیائے کرام کے اقوال، فرمودات اور شعراءکے کلام سے بین المذاہب مفاہمت کے فروغ کے لئے ان کی خدمات کا اعتراف کیا اور انہی کے اتباع کو دنیوی اور اخروی نجات کا ذریعہ ثابت کیا۔
تیسرے روز کے آخری اجلاس میں صرف دو مقالات پڑھے گئے۔ پہلا مقالہ پاکستان کے تعلیمی نظام کے ڈھانچے اور اس کو لاحق خطرات سے متعلق تھا۔ مقالہ نگار آندریاس بینتس برلین سے تشریف لائے تھے۔ تشکیل پاکستان سے دورِ حاضر تک کی تعلیمی صورت حال کے تفصیلی جائزے کے علاوہ اس عرصہ دراز میں نافذ کردہ تمام تعلیمی پالیسیوں، سرکاری اور غیر سرکاری درس گاہوں کے معیار تعلیم میں نمایاں تضادات، ذریعہ تعلیم کے مباحث، دور افتادہ علاقوں میں تعلیمی سہولتوں کے فقدان، سالانہ بجٹ میں فروغ تعلیم کے لئے ناکافی فنڈز وغیرہ جیسے مسائل کو زیر بحث لایا گیا ہے اور مستقبل کے لئے ایک جامع تعلیمی پالیسی کے اجراءا ور اس پر ثابت قدمی سے عمل کرنے کو ان تمام مسائل کا حل قرار دیا گیا۔ اس سیمینار کا آخری مقالہ برن یونیورسٹی کے مانیول ایوبر ساکس نے پیش کیا۔ اس کا موضوع فوجی افسران کی تحریر کردہ انگریزی اور اردو خود نوشت سوانح عمریاں تھا۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد فوج کے حربی، دفاعی اور سیاسی کردار کو شرح وبسط سے بیان کیا گیا ہے۔ خاص طور پر مارشل لاﺅں کے ادوار میں وقوع پذیر اہم حالات و واقعات اور ان کے اندرونی و بیرونی اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ افواج پاکستان سے تعلق رکھنے والے جن افسروں (زیادہ تر ریٹائرڈ) نے اپنے سوانحی کوائف، دور ملازمت کی تفصیلات اور اپنی یادداشتوں کو قلمبند کیا ہے، ان کے مندرجات کے پیش نظر ان کی سیاسی، حربی، تاریخی اور تہذیبی اہمیت کا تعین کیا گیا ہے۔
اس کانفرنس کے آخر میں راقم اور ایک معروف جرمن سکالر کی زیر صدارت کھلا اجلاس منعقد ہوا، جس میں پیش کردہ مقالات کے مجموعی تاثرات کا اظہار کیا گیا۔ در اصل یہ سوال و جواب کی نشست تھی، جس میں حاضرین کے سوالات کا کرسی صدارت پر متمکن افراد کو جواب دینا پڑتا ہے۔ یہ اجلاس تقریباً دو گھنٹے جاری رہا اور اس میں اہم نکات اٹھائے گئے اور ان کا تفصیلی جواب دیا گیا۔ امید ہے، متعلقہ ادارہ اس کانفرنس میں پڑھے گئے تمام مقالات اور ان مباحث کی کتابی صورت میں اشاعت کا اہتمام کرے گا۔
 ہمارے ہاں کے علمی اور ادبی اجتماعات کے برعکس یورپ کی ایسی کانفرنسیں زیادہ بارونق نہیں ہوتیں، مندوبین کے علاوہ منتظمین، یونیورسٹی کے متعلق شعبوں کے اساتذہ اور سینئر طلباءبعض اداروں کے نمائندگان اور زیر بحث موضوع سے دلچسپی رکھنے والے علماءہی شریک ہوتے ہیں اور ان تمام شرکاءکی تعداد پچاس ساٹھ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ میونخ کی اس کانفرنس کا بھی یہی حال رہا۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ اس سیمینار کا موضوع پاکستان تھا، لیکن مقررین کی طرح حاضرین میں بھی صرف ایک ہی پاکستانی باقاعدگی سے تینوں روز شریک رہے اور یہ تھے ڈاکٹر محمد سعید چودھری صاحب، جو گزشتہ 40 سال سے یہاں مقیم ہیں۔ تاریخ کشمیران کا خاص موضوع ہے اور اس پر وہ بزبان جرمن جامع کتاب چھاپ چکے ہیں۔ ان دنوں وہ جرمن پاکستان فورم کے نائب صدر ہیں۔ یہ فورم 1962ءمیں قائم ہوا، جس کا مقصد جرمنی اور پاکستان کے مابین دوستانہ تعلقات کا فروغ ہے۔ معروف جرمن سکالر این میری شمل بھی اس ادارے کی صدر رہیں (1990ء1992ئ) حال ہی میں اس ادارے نے اپنی پچاسویں سالگرہ منائی ہے اور اس موقع پر ایک یادگاری کتاب بھی شائع کی ہے۔
 کانفرنس کے دوران چودھری صاحب سے ملنا جلنا رہا۔ راقم کئی بار جرمنی آ چکا ہے ، لیکن میونخ میں یہ پہلا طویل قیام تھا اس لئے ان سے طے ہو گیا کہ کانفرنس کے اختتام پر وہ مجھے وہ جگہ دکھانے لے جائیں گے جہاں علامہ اقبالؒ کے قیام میونخ (1907ئ) کے حوالے سے یادگاری پتھر نصب ہے۔ اقبال چند ماہ جرمنی میں ٹھہرے اور وہ بھی ہائیڈل برگ اور میونخ میں۔ اول الذکر شہر میں ٹھہرنے کا مقصد جرمن زبان بولنے میں اتنی استعداد پیدا کرنا تھا کہ وہ اپنے مقالہ خصوصی کے زبانی امتحان کے لئے عائد کردہ شرط پوری کر سکیں، جونہی جرمن بولنے کے قابل ہوئے، وہ میونخ چلے گئے ، پھر ڈاکٹریٹ کی سند کے حصول کی سبھی رسمی کارروائیوں کو نمٹانے تک وہیں رہائش پذیر رہے۔ یہاں اقبالؒ جس عمارت میں مقیم رہے، اس کے مقابل بالکل سڑک کے کنارے یہ پتھر نصب ہے اور اس کی دونوں جانب جو جرمن عبارت مرقوم ہے، اس کے مطابق جرمنی کے وزیر برائے تعلیم و ثقافت ڈاکٹر بالڈوک ہیوبر نے پاکستانی سفیر عبدالرحمن خاں کی موجودگی میں نصب کیا (22 اپریل 1964ئ) یہ وہی سفارت کار ہیں، جنہوں نے ہائیڈل برگ میں دریائے نیکر کے کنارے اقبالؒ کی رہائش گاہ کی بیرونی دیوار پر ایک پلاک لگوایا تھا۔
یہاں اس بات کی وضاحت مناسب ہو گی کہ اقبالؒ کے مقالہ برائے ڈاکٹریٹ بعنوان ”فلسفہ عجم“ (انگریزی) کو ان کے استاد ٹی ڈبلیو آرنلڈ کی سفارش پر قبول تو کر لیا تھا، لیکن زبانی امتحان کے لئے جرمن زبان کو لازمی قرار دیا، چنانچہ ایسا ہی ہوا، اقبالؒ کے اس مقالے کے بارے میں ممتحنین نے جن آراء(بزبان جرمن) کا اظہار کیا، وہ میونخ یونیورسٹی کے ریکارڈ میں اب بھی محفوظ ہیں۔ اس مقالے کے نگران اس دورکے مشہور شرق شناس فرتس ہومل تھے، جن کے نام اقبالؒ نے اپنی یہ کتاب معنون کی، لیکن بعد میں ہومل کا نام حذف کر دیا گیا۔ کچھ سال قبل راقم ٹیوینگن میں مقیم ہومل کے واحد زندہ فرزند (اب مرحوم) سے ملا تھا اور انہوں نے اپنے والد کی انتہائی نایاب تصویر اور اپنے خاندانی ریکارڈ پر مشتمل دستاویز کی نقل فراہم کی، جس کی بناءپر راقم نے تفصیلی مقالہ سپرد قلم کیا، جس میں میونخ یونیورسٹی میں محفوظ ریکارڈ کے مندرجات کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔ یہ مقالہ ”ماہ نو“ کے اقبالؒ نمبر (بابت 2002ئ) میں شائع ہو چکا ہے۔
پاکستان میں جانی پہچانی جرمن سکالر اور ماہر علوم شرقیہ این میری شمل اپنی زندگی کے تقریباً 50 برس اقبالؒ کی حیات و فکر پر کام کرتی رہیں اور بیسیوں کتب، مقالات اور تراجم کے ذریعے اپنے ملک میں مطالعہ اقبالؒ کی اعلیٰ روایت قائم کر دی۔ ان کی وفات (2003ئ) کے بعد بھی خوش قسمتی سے یہ روایت قائم ہے اور بعض نوجوان جرمن سکالرز اس کو آگے بڑھانے میں سرگرم عمل ہیں۔ ان میں ایک نام آکسل مونٹے کا ہے، جو میونخ میں مقیم ہیں اور تصنیف و تالیف ہی ان کا علمی مشغلہ ہے۔ گزشتہ چند سال میں وہ اقبالؒ کے انگریزی خطبات بعنوان ”فکر اسلامی کی تشکیل جدید“ اور اقبالؒ کے انگریزی روز نامچہ بعنوان ”شذراتِ اقبال“ (مترجم افتخار احمد صدیقی) کے جرمن تراجم مع حواشی شائع کرا چکے ہیں۔ وہ کچھ عرصے سے بیمار ہیں، اس لئے متذکرہ کانفرنس میں تشریف نہ لا سکے۔ چنانچہ مزاج پرسی کی غرض سے ان کے گھر جانا پڑا۔ اب بھی وہ زیر علاج ہیں، لیکن بیشتر وقت لکھنے پڑھنے ہی میں گزارتے ہیں۔ ان دنوں وہ محمد اسد پر کام کر رہے ہیں، پچھلے چند سال سے جرمنی میں محمد اسد کی ”شاہراہ مکہ“ اور ترجمہ و تفسیر قرآن کے جرمن تراجم شائع ہوئے ہیں، جن کی وجہ سے ان کا حلقہ قارئین خاصا وسیع ہو گیا ہے۔ مونٹے صاحب کو ایک معروف جرمن پبلشر کی جانب سے محمد اسد کی سوانح لکھنے کی دعوت موصول ہوئی ہے، جو ابھی ان کے زیر غور ہے۔(ختم شد )     ٭

مزید :

کالم -