معصوم جان کی قیمت بس ایک سرکاری نوکری ۔۔۔۔
کراچی میں وی وی آئی پی پروٹوکول کے باعث ایک ننھی جان ہسپتال دیر سے پہنچنے کے باعث دنیا سے رخصت ہو گئی ،ننھی بسمہ کی موت نے پورے ملک کو غمزدہ کر دیاہے ،بسمہ تو اب واپس نہیں آسکتی لیکن حکومت سندھ کی ڈھٹائی دیکھ کر ایسے معلوم ہوتاہے کہ جیسے ان کی کوئی غلطی ہی نہیں تھی ”اِن کا تو کاں ہی چٹاہے“،زرداری صاحب نے معمول کی طرح کمیٹی بنانے اور تحقیقات کا اعلان کر دیا جبکہ بلاول بھٹو نے کہا کہ انہوں نے کسی کو راستے بند کرنے کا کہا ہی نہیں ، انہیں بسمہ کی ہلاکت کا شدید صدمہ بھی پہنچا ہے اور وہ خود اس کی تحقیقات بھی کرائیں گے ۔حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے بھی اپنا پتہ کھیلا اور ننھی جان کے والد سے ملنے جانے کی بجائے انہیں ملنے کیلئے بلا لیا اور تعزیت کے ساتھ انہیں سرکاری نوکری بطور ’رشوت‘کی پیشکش کردی ۔اب سوال یہ اٹھتاہے کہ کیا ایک جان کی قیمت سرکاری نوکری یا کچھ روپے ہے؟کیا اس ”سرکاری نوکری“ ملنے سے بسمہ کے والدین کا دکھ اور اپنی ”معصوم کلی“کو کھونے کا غم کم ہو جائے گا ؟کیا وزیراعلیٰ کی یہ سرکاری نوکری ان کی بیٹی واپس دے سکتی ؟انہیںسکون فراہم کر سکتی ہے؟نہیںنہیں یہ سرکاری نوکری ان کو کچھ نہیں دے سکتی۔۔ ہاں اگر انصاف فراہم کر دیا جائے تو شائد بسمہ کے والدین کو کچھ سکون آجائے ۔ہم برطانیہ اورامریکہ کی مثالیں تو بہت دیتے ہیں لیکن شائد ان کے طرز زندگی اور ان کی اپنی عوام سے محبت ہمیں نظر نہیں آتی ۔مملکت خدادادمیں ویسے تو میرٹ کہیں نظر نہیں آتا ،آئے روز کرپشن ،جعلی بھرتیوں اور سفارش پر نوکریوں کے سکینڈل سامنے آتے رہتے ہیں ،جبکہ کراچی میں تو گھوسٹ ملازمین کی پوری فوج بھی پکڑی جاچکی ہے ۔ایسے میں کسی غریب شخص کو نوکری کیسے مل سکتی ہے اور اگر وہ نوکری حاصل کرنا چاہتاہے تو کیا پہلے اسے اپنے بچوں کی قربانی دینی ہو گی پھر شائد اسے بھی نوکری اور کچھ’ کاغذ کے ٹکروں‘ کی پیشکش آجائے ۔سابق وزیراطلاعات نثار کھوڑو نے یہاں تک کہہ دیا کہ انہیں ننھی جان کے ضیاع پر افسوس ہے لیکن بلاول بھٹو کی جان زیادہ عزیز ہے،جس ملک میں سیاستدانوں کی سوچ ایسی ہو ،وہاں عوام کے حقوق اور انصاف کیسے مل سکتاہے؟ہمارے سیاست دان ووٹ لیتے وقت تو عوام پر جان نچھاور کرنے کے بڑے بڑے دعوے اور جلسے جلوسوں میں نعرے لگاتے ہیں لیکن منتخب ہونے پر ایسے بیانا ت سننے کو ملتے ہیں کہ اللہ کی پناہ ۔۔ ۔وی وی آئی پی کلچر کی بھینٹ نہ جانے کتنی جانیں چڑھ چکی ہیں لیکن شائد یہ پہلا واقعہ ہے جس میں دس ماہ کی معصوم بچی نے عوام کو ہو ش دلانے کی کوشش کی اور اس کیخلاف آواز اٹھانے پر مجبور کیا ،لیکن یہ بھی زین قتل کیس کی طرح کہیںکسی کونے میں فائلوں میں دب کر رہ جائے گی اور اس پر اتنی مٹی جم جائے گی کہ شائد گورکن بھی اس مٹی کو ہٹانے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا ۔