دریا، فرقہ واریت اور جھنگ پولیس
جھنگ شہردو دریاؤں کے سنگم پر آباد ہے۔ اس تاریخی شہر کو ہمیشہ سے دو چیزوں سے ہی خطرہ رہا ۔ ایک ’’دریا ‘‘اور دوسرا ’’فرقہ واریت‘‘۔ ایک خطرے سے نبٹنے کے لئے انتظامیہ نے بند بنا ڈالا جبکہ دوسرے خطرے سے نبٹنے کے لئے ایک عرصہ لگ گیا۔
اس تاریخی شہر کی تاریخ امن کے حوالے سے زیادہ قابل تعریف نہیں۔ یہاں لگنے والے کرفیو کی تعداد شاید ملک بھر میں لگنے والے کرفیو سے کہیں زیادہ ہے۔ یہاں سے بوڑھے کندھوں نے جوان بچوں کی لاشیں اٹھائی ہیں۔
ماؤں نے بیٹو ں کو فرقہ واریت کے نام پر خون میں نہاتے دیکھا ہے۔ بہنیں بھائیوں کی منتظر گھر کی دہلیز پر کھڑی دیکھی ہیں۔ بیویاں اپنے خاوند کو کسی اندھی گولی کی آواز کے بعد ڈھونڈھتی نظر آتی تھیں۔
جہاں لاش اٹھانے والے خود کفن تلاش کرتے نظر آتے ۔ یہ حال اُس شہر کا تھاجسکا حصہ کبھی لیلپور (فیصل آباد) بھی رہا۔ اِسی فرقہ واریت اور بد امنی نے اسے اتنا پیچھے دھکیل دیا ،جہاں آج فیصل آباد اِس سے جد ا ہو کر ڈویژن اور چنیوٹ ضلع بن چکامگر جھنگ وہیں کا وہیں ہے۔
انڈسٹری تو دور یہاں سے لوگ ہجرت کو ترجیح دیتے تھے۔ یہ شہر اب سیلاب کا تو مقابلہ کر سکتا ہے مگر فرقہ واریت اور دہشت گردی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس شہر کے دَرو دیوارسیلاب کے بعد بھی آباد کئے جا سکتے ہیں مگر اُسی ماضی کی داستان دہرانے کے بعد نہیں۔
پاکستان آرمی اور انٹیلی جنس اداروں کی مشترکہ کاوشوں سے گزشتہ چند سال سے ضلع جھنگ کا امن بحال ہونے کو ہے۔یہاں بچوں کے چہروں پر رونق نظر آنے لگی ہے۔ جہاں گھروں میں ماتم کی جگہ خوشیاں ہیں۔ جہاں پارک آباد ہیں۔
جہاں تاجروں کا مال محفوظ ہے۔ اب شہر میں جھنگ یونیورسٹی پر تیزی سے کام جاری ہے ۔ شہر میں تعلیمی اداروں کا جال نظرآتا ہے۔ چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے حکومت پنجاب نے منصوبہ شروع کر رکھا ہے۔ اس شہر میں اب سڑکیں پررونق ہیں۔
جہاں مائیں رات کا کھانا بیٹوں کے ساتھ کھاتی ہیں۔ یہ وہی شہر ہے جہاں اب امن ہے۔ یہ وہی شہر ہے جہاں اب خوشیاں ہیں۔اب ایک بار پھر دن بدن بگڑتے ہوئے حالات ، خون کے آنسو روتی شاہراہیں، دن دھاڑے لٹتے شہری، ٹھنڈے فرش پر مرتے غریب اور دہشت گردی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔
ایک جانب جہاں پاکستان آرمی دہشت گردوں کی کمر توڑ رہی ہے ۔ دوسری جانب دہشت گردی کو لے کر محکمہ پولیس اور حکمران انتہائی غیر سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ پاکستان کا انٹیلی جنس سسٹم دنیا بھر میں نمبر ون تسلیم کیا جاتا ہے۔
یہاں دہشت گرد ی کے حملے سے کئی روز پہلے مقامی حکومتوں کو مطلع کر دیا جاتا ہے۔اب انہیں بتا بھی دیں کہ فلاں شہر کا فلاں علاقہ خطرے میں ہے تو آپکے پاس تو اسکی حفاظت کے لئے اہل پولیس اہلکار ہی نہیں۔سچ تو یہ ہے کہ آپکے پاس تو اس علاقے کو کارڈن آف کرنے کے لئے واک تھرو گیٹ ہی نہیں۔
کیونکہ وہ تو آپ وزیروں مشیروں اور پولیس کے اعلیٰ افسران کے گھروں اور دفاتر پر لگا چکے۔چند شہروں کے علاوہ ملک بھر میں ہسپتالوں کی حالت زار بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں۔
کسی بڑے حادثے کے بعد ہم اپنے پیاروں کی لاشوں کو کندھوں پر لیجانے پر مجبور ہیں یا انکو دھکا سٹارٹ ایمولینس میں سینکڑوں میل سفر کروا کر کسی تحصیل یا ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال پہنچاتے ہیں۔ جن میں سے دو فیصد میں بھی وینٹی لیٹر، ادویات، ڈاکٹرز، بیڈز، سٹی سکین، ایم آر آئی، برن یونٹ اور دیگر ضروری مشینری نہیں۔
جو دہشت گردوں کو آسان ٹارگٹ سے زیادہ جانی نقصان پہنچانے میں مجرمانہ طور پر سہولت کاری کی طرح کام کر رہی ہے۔ دہشت گردی اور جنوبی پنجاب کے تعلق کی بات کریں تو جھنگ شہر کا ذکر نہ کرنازیادتی ہو گی ۔نامورتنظیموں کی بنیاد اسی شہر میں پڑی ۔
وہ لوگ جو کبھی پیسوں کے لئے دوسرے مسلک کے لوگوں کو قتل کر دیتے تھے آج وہی لوگ شاید دشمن کے ہاتھوں بھی بک رہے ہیں۔ اسکی بنیادی ذمہ دار پولیس کلچر ہے۔ گاؤں میں کسی کو تھپڑ مار کر بھاگنے والا، شہر میں گولیاں چلانے لگتا ہے اور اسی کو جب کوئی سپانسر کر دے تو ملک کے لئے خطرہ بن جاتا ہے۔
جھنگ میں پولیس کی جانب سے جرائم کی سرپرستی اور منفی کارکردگی ملک بھر کے لئے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ ایک بار پھر گزشہ کچھ ہفتوں سے شہر میں ہونے والی سرگرمیوں سے لگتا ہے کوئی اِسکا امن پھر سے تباہ کرنا چاہتا ہے۔