نئے سال سے پہلے اس بات کا عہد کرلیں
انسانی زندگی کا ایک اور سال گزرنے کو ہے۔ ۔۔جاتے ہوئے اس سال میں بہت سارے دوست ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے بچھڑ گئے اور ہم اپنے دوستوں کوکندھا دے کر قبرستان چھوڑ آئے ہیں کہ اب جانے والا چلا گیا ہے، مجھے کبھی بھی اس چمک دمک کو نہیں چھوڑنا ۔میں ہمیشہ یہی رہوں گا لیکن ہمیں تب یقین آتا ہے جب ہم بھی اسی قبرستان کے مہمان بن چکے ہوتے ہیں اور اب یقین ہمارے کام نہیں آ سکے گا اور ہماری لاش پر کھڑے دوست احباب ،اعزہ اقارب اور گھر والے صرف بے بسی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں لیکن ہم ایک دوسرے کے لیے کچھ نہیں کر سکتے ہیں اور ہمیں کچھ پتہ نہیں ہو تا کہ قبر میں ہمارے ساتھ کیا سلوک روا رکھاجائیگا۔وقت برف کی طرح پگھلتا رہتا ہے۔۔
امام شافعی ؒ کے بقول کہ میں نے زندگی کا سبق ایک برف بیچنے والے سے سیکھا جو صدا لگا رہا تھا ’’ لے جاؤ میرا سرمایہ گھلا جا رہا ہے‘‘ بہت سے دوست عزیز اس سال آپ سے بچھڑے تو بہت سے ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے آپ کی زندگی میں قدم رکھا۔انسان کی زندگی برف کی طرح لمحہ بہ لمحہ پگھل رہی ہے۔
وقت کی قدر ہمارے اسلاف کے نزدیک کتنی تھی اس کا اندازہ معروف مصنف بشیر جمعہ کی اس تحریر سے لگائیں!
عامر بن قیس ایک زاہد تابعی تھے۔ ایک شخص نے ان سے کہا "آو بیٹھ کر باتیں کریں" انہوں نے جواب دیا’’ پھر سورج کو بھی ٹھہرالو‘‘
تاریخ بغداد کے مصنف خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ وہ کتاب فروشوں کی دکانیں کرایہ پر لے کر ساری رات کتابیں پڑھتے رہتے تھے۔
فتح بن خاقان خلیفہ عباسی المتوکل کے وزیر تھے۔ وہ اپنی آستین میں کوئی نہ کوئی کتاب رکھتے تھے اور جب انہیں سرکاری کاموں سے فرصت ملتی تو آستین سے کتاب نکال کر پڑھنے میں لگ جاتے۔
اسماعیل بن اسحاق القاضی کے گھر جب بھی کوئی جاتا تو انہیں پڑھنے میں مصروف پاتا۔
ابن رشد اپنی شعوری زندگی میں صرف دو راتوں کو مطالعہ نہیں کرسکے۔
امام ابن جریر طبری ہر روز چودہ ورقے لکھ لیا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی عمر عزیز کا ایک لمحہ بھی فائدے اور استفتادے کے بغیر نہیں گذارا۔
البیرونی کے شوق علم کا یہ عالم تھا کہ حالت مرض میں مرنے سے چند منٹ پیشتر وہ ایک فقیہ سے جو ان کی مزاج پرسی کے لیے آیا تھا ، علم الفرائض کا ایک مسئلہ پوچھ رہے تھے۔
امام الحرمین ابوالمعالی عبد الملک جو مشہور متکلم امام غزالی کے استاد تھے ، فرمایا کرتے تھے کہ میں سونے اور کھانے کا عادی نہیں۔ مجھے دن اور رات میں جب نیند آتی ہے سو جاتا ہوں اور جب بھوک لگتی ہے کھا لیتا ہوں۔ ان کا اوڑھنا بچھونا ، پڑھنا اور پڑھانا تھا۔
علامہ ابن جوزی کی چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد ایک ہزار ہے ، وہ اپنی عمر کا ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنی قلم کے تراشے سنبھال کر رکھ دیتے تھے چنانچہ ان کی وفات کے بعد ان تراشوں سے گرم کردہ پانی سے انہیں غسل دیا گیا۔ وہ اپنے روزنامچے "الخاطر" میں ان لوگوں پر کف افسوس ملتے نظر آتے ہیں جو کھیل تماشے میں لگے رہتے ہیں، ادھر ادھر بلامقصد گھومتے رہتے ہیں، بازاروں میں بیٹھ کر آنے جانے والوں کو گھورتے ہیں اور قیمتوں کے اتار چڑھاو پر رائے زنی کرتے رہتے ہیں۔
امام فخر الدین رازی کی چھوٹی بڑی کتابوں کی تعداد ایک سو سے کم نہ ہوگی۔ صرف تفسیر کبیر تیس جلدوں میں ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ کھانے پینے میں جو وقت ضائع ہوتا ہے میں ہمیشہ اس پر افسوس کرتا ہوں۔
10۔علامہ شہاب الدین محمود آلوسی مفسر قرآن نے اپنی رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کررکھا تھا۔ پہلے حصہ میں آرام و استراحت کرتے ، دوسرے میں اللہ تعالی کو یاد کرتے اور تیسرے میں لکھنے پڑھنے کا کام کرتے تھے۔
لائیو ٹی وی پروگرامز، اپنی پسند کے ٹی وی چینل کی نشریات ابھی لائیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
نیا سال جہاں بہت کچھ لے جاتا ہے وہاں بہت سے سپنے اور عزائم بھی لے کر آتا ہے۔انسان کی زندگی میں پانا اور کھونا لگا رہتا ہے۔نئے سال کی آمد پر کچھ فیصلے کیجئے اپنی زندگی میں کامیابی کے،اور صرف سوچنا نہیں ان کو لکھنا بھی ہے۔ایک تحقیق کے مطابق جو فیصلے لکھ لیئے جائیں ان فیصلوں کی نسبت جو نہیں لکھے جاتے ستر گناہ زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔
نئے سال پہ جو چیز بہت اہم ہے وہ یہ کہ آپ کی زندگی کا ایک سال کم ہو گیا ہے۔شعوری قدر کریں اس وقت کی جو آپ کے ہاتھ میں ہے کیونکہ جب تک سانسیں باقی ہیں آپ کا مشن باقی ہے جس کی تکمیل کیلیئے آپ کو دنیا میں بھیجا گیا ہے۔
لمحہ وقت کی قدر کیجئے،اس میں لطف اندوز ہونا سیکھئے۔۔اس میں کوالٹی ڈالیئے۔۔وقت ہی زندگی ہے۔سورہ العصر میں وقت کی قسم کھا کر اس کی اہمیت کا احساس اجاگر کیا گیا ہے۔کہتے ہیں جو وقت کی قدر نہیں کرتا ،وقت بھی اسے روندتا ہوا گزر جاتا ہے۔
سوچیئے کہ گزرے سال میں کون سی نعمتیں اللہ نے آپ پہ عنایت کیں۔۔ان کی قدر کریں اور شکرانے کے نفل ادا کریں۔۔کیونکہ شکر سے نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔کون سے لوگ تھے جنہوں نے آپ کی زندگی میں قدم رکھا تھا جن کے بغیر آج آپ آپ ہیں۔ان کا تہہ دل سے احترام اور محبت کا اظہار کیجئے۔۔
اللہ رب العزت وہ ذات جس پر انسانوں کا سب سے زیادہ حق ہے۔اس حق میں کہاں کہاں کوتاہیاں ہوئیں یاد کیجئے۔۔پھر اس اللہ سے سچے دل سے معافی مانگیئے۔۔نئے سرے سے اللہ سے تعلق استوار کیجئے۔۔اللہ کے ساتھ ساتھ اس کے بندوں کے بھی حقوق ادا کیجئے۔۔
زندگی کا نئے سرے سے جائزہ لیجئے اگر آپ اپنی زندگی سے مطمئن نہیں ہیں تو فوراً کاپی پین اٹھایئے اور لکھئے کہ آپ کی ناکامی کے پیچھے کیا کیا اسباب ہو سکتے ہیں۔نئے اہداف بنایئے۔۔اہداف واضح ہونے چاہئیں۔۔کون سا کام کتنے وقت میں کرنا یہ بھی لکھیں ۔۔ایسا مقصدبنایئے جو آپ کی زندگی میں سکون بھردے۔۔
ٹانی رابنس کا شمار امریکہ کے صف اوّل کے سپیکرز میں سے ہوتا ہے۔اس سے کامیابی کا راز پو چھا گیا تو اس نے بتایا کہ میں نے سالوں کا کام مہینوں میں اور مہینوں کا کام ہفتوں میں اور ہفتوں کا کام دنوں اور دنوں کا کام گھنٹوں میں کرنے کا عزم کیا اور یہی چیز میری کامیابی کا باعث بنی۔اپنے وقت اور کام کی رفتار کو بڑھایئے۔۔۔کامیابی کی وجہ یہ بتا دی گئی کہ آپ کا آج کل کی نسبت بہتر ہو۔یعنی آپ کا مقابلہ کسی اور سے نہیں بلکہ اپنے گزرے ہوئے کل سے ہے۔نیا سال نئے عزائم کا سال ہے۔۔خواب دیکھئے اور اس میں حقیقت کے رنگ بھریئے۔
بقول حسن البناءؒ شہید وقت ہی زندگی ہے، حقیقت بھی یہی ہے کہ انسان کی زندگی اس وقت سے عبارت ہے جسے وہ پیدائش کی گھڑی سے لے کر آخری سانس تک گزارتا ہے۔ جب وقت کی اتنی زیادہ اہمیت ہے یہاں تک کہ وقت ہی کو زندگی سے تعبیر کیا گیا ہے تو ایک مسلمان پر وقت کے اعتبار سے بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اس لئے اسے چاہئے کہ وہ ان ذمہ داریوں کو سمجھے اور ہمیشہ انہیں پیش نظر رکھے اور علم و ادراک کے دائرے سے آگے بڑھ کر انہیں عملی جامع پہنانے کی کوشش کرے۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔