اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 98
جلمیک اپنی محبوبہ کو نہ پاکر سخت آزردہ ہوگیا۔ میں نے اسے تسلی دی اور کہا کہ یقیناًچترالی کو ڈاکو قسم کے لوگ اٹھا کر لے گئے ہیں۔ ہم ان کا پیچھا کریں گے اور چترالی کو ان کے قبضے سے آزاد کرائیں گے۔چترالی کے پاس میری بہت ہی قیمتی شے میرے سانپ دوست قنطور کا دیا ہوا مہرہ بھی تھا جو مجھے ہر حالت میں حاصل کرنا تھا۔ رات کے وقت وہاں گھوڑوں کے سموں کے نشان نظر نہیں آرہے تھے۔ میں نے جھک کر دیکھا۔ گھاس پر گھوڑوں کے ہلکے ہلکے نشان تھے جو دریا کی طرف جارہے تھے۔ میں نے جلمیک سے کہا ’’ڈاکو دریا کی طرف گئے ہیں۔ ہمیں ادھر ہی چلنا ہوگا۔‘‘
ہم نے گھوڑے دریا کی طرف ڈال دئیے ، دریا کے کنارے ریت پر گھوڑے کے نشان دیکھ کر میں نے اندازہ لگایا کہ وہ چار ڈاکو تھے۔ یہ نشان دریا میں اتر گئے تھے۔ ہم نے بھی ان کے پیچھے گھوڑے دریا میں ڈال دئیے۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 97 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دریا کا پاٹ زیادہ چوڑا نہیں تھا۔برسات کا موسم گزرچکا تھا جس کی وجہ سے دریا سیلاب کی حالت میں نہیں تھا۔ شودر نوجوان جلمیک میرے ساتھ تھا۔ ہمارے گھوڑے دریا میں تیرتے چلے جارہے تھے۔ دوسرے کنارے پر نکل کر ہم نے اپنے گھوڑے ڈاکوؤں کی تلاش میں جنگل کی طرف ڈال دئیے۔ جنگل میں چلتے چلتے دن نکل آیا۔ چترالی کو ڈاکوؤں سے برآمد کرانے میں میرا ایک مفاد یہ بھی تھا کہ چترالی کے پاس وہ قیمتی سانپ کا مہرہ تھا جو مجھے میرے ناگ دوست قنطور نے دیا تھا۔
جنگل اب گھنا نہیں تھا۔ اونچا نیچا ویران میدان شروع ہوگیا تھا جہاں جنگلی جھاڑیوں اور سرکنڈوں کی کثرت تھی۔ مٹی اور پتھروں کے بنے ہوئے چھوٹے بڑے ٹیلے بھی نظر آنے لگے ت ھے۔ مجھے میدان میں ایک جگہ گھوڑوں کے سموں کے نشان دکھائی د ئیے۔ یہ ڈاکوؤں کے گھوڑوں کے نشان بھی ہوسکتے تھے۔ چنانچہ ہم ان کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے لگے۔ ایک ڈھلانی میدان سے اترے تو سامنے ایک قلعے کے کھنڈر دکھائی دئیے۔ قلعے کی بناوٹ سے صاف معلوم ہورہا تھا کہ قیدم زمانے میں کسی ہندو راجے کا قلعہ ہوگا لیکن اب بالکل کھنڈر بن چکا تھا۔ ہم نے ایک جگہ درخت کے نیچے گھوڑے روک لئے۔ جلمیک نے قلعے کے کھنڈ رکو دیکھ کر کہا کہ ڈاکو ضرور اسی قلعے میں چھپے ہوں گے۔ میری نگاہیں قلعے کی ٹوٹی پھوٹی دیوار پر جمی ہوئی تھیں جس کے بڑے بڑے پتھروں میں جگہ جگہ گھاس اگی ہوئی تھی۔ میں نے جلمیک سے کہا کہ وہ اس جگہ ٹھہرے۔ میں آگے جاکر کھنڈر میں دیکھتا ہوں۔ اس نے کہا’’تم اکیلے ہو۔ اگر ڈاکو وہاں ہوئے تو وہ تمہیں ہلاک کردیں گے۔‘‘
نادان اچھوت نوجوان میری طاقت سے بے خبر تھا۔ میں نے تلوار کے قبضے پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دی کہ میں اتنی آسانی سے مرنے والا نہیں ہوں۔ تم فکر نہ کرو۔ میں جاتا ہوں۔ میں نے گھوڑا قلعے کے کھنڈر کی طرف بڑھادیا۔ قلعے کا ایک کافی اونچا دروازہ بھی تھا۔ جو ٹوٹ پھوٹ چکا تھا۔ میں اس بوسیدہ دروازے کی اوٹ میں جاکر گھوڑے سے اتر پڑا۔ جھک کر اندر کو جاتے کچے راستے کو دیکھا۔ یہاں مٹی پر گھوڑوں کے سموں کے نشان صاف نظر آرہے تھے۔ میں نے گھوڑے کو ایک پتھر کے سایہ میں باندھا اور اینٹوں، پتھروں کے ڈھیروں پر سے گزرتا قلعے کے کھنڈر میں داخل ہوگیا۔ آگے ایک ڈیوڑھی آگئی جس کی چھت میں جگہ جگہ شگاف پڑے ہوئے تھے۔ دونوں جانب ٹوٹی ہوئی کٹھریاں تھیں جو خالی تھیں۔ آگے ایک راستہ میدان کی طرف چلا گیا تھا جس میں ملبے کے ڈھیر پڑے تھے۔ نصف دائرے میں ایک نیم تاریک برآمدہ بنا ہوا تھا جس کے ستون کا چونا اکھڑ چکا تھا۔
میں ستونوں کی اوٹ لیتا برآمدے میں آگے بڑھنے لگا۔ یہاں ایک شکستہ ساگرد آلود سنگی زینہ نیچے جاتا تھا۔ میں نے یہاں کھڑے ہوکر کان نیچے لگادئیے کہ نیچے سے کسی انسان کی آواز تو نہیں آرہی۔ زینہ نیچے جاکر تاریک ہوگیا تھا اور وہاں سے کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔ میرا ہاتھ تلوار کے قبضے پر تھا۔ میں زینہ اترنے لگا۔ چھ سات سیڑھیاں اترنے کے بعد مجھے ٹھنڈی نیم تاریک فضا نے اپنی آغوش میں لے لیا۔ زینہ ختم ہوگیا۔ آگے اونچا نیچا تنگ سا پتھریلا راستہ ایک طرف کو گھوم گیا تھا۔ یہاں پہلی بار میں نے دو آدمیوں کی باتیں کرنے کی آواز سنی۔ یہ آواز دو چار قدم کے فاصلے پر دیوار کے پیچھے سے آتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ آگے بڑھ کر میں نے دیوار کو غو رسے دیکھا۔ یہاں ایک پرانا لکڑی کا بھاری دروازہ تھا جس میں سے کیل باہر کو ابھرے ہوئے تھے۔
دو آدمیوں کے آہستہ آہستہ باتیں کرنے کی آواز اسی دروازے کے پیچھے سے آرہی تی۔ وہ کیسی باتیں کررہے تھے؟ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ پھر مجھے ایسا لگا جیسے قدموں کی آواز دروازے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ میں تیزی سے دیوار کے ساتھ بائیں جانب گھوم کر اندھیرے میں ہوگیا۔ ایک ہلکی سی چرچراہٹ کے ساتھ دروازے کا ایک پٹ کھلا اور اندر سے دو انسانی سائے جنہوں نے اپنے سروں پر اس زمانے کے ہندو مرہٹوں جیسی پگڑیاں باندھ رکھی تھیں، باہر نکلے۔ ان کی کمر سے تلواریں لٹک رہی تھیں۔ وہ زینے کی طر ف چلے گئے جاتے وقت انہوں نے دروازے کو تالا وغیرہ نہیں لگایا تھا۔ جس سے یہ بات ظاہر ہوتی تھی کہ چترالی یہاں نہیں ہے۔ میں نے اپنا شک دور کرنے کے لئے دروازے کو تھوڑا سا کھول کر اندر جھانک کر دیکھا۔ اندر اندھیرے سے کسی نے آواز دی اور کہا ’’تم پھر آگئے؟ کیا بات ہے؟‘‘ میں فوراً سمجھ گیا کہ اندر تیسرا ڈاکو موجود ہے۔ ابھی میں باہر نکلنے یا اندر جانے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ کسی نے کوٹھری میں شمع دان روشن کردیا۔ اس کی روشنی میں مجھے مرہٹوں کے لباس میں ایک ڈاکو شمع دان ہاتھ میں لئے میری طرف بڑھتا رکھائی دیا۔
میری شکل دیکھتے ہی اس شخص نے چلا کر کہا ’’تم کون ہو؟‘‘ او رمیرے جواب دینے سے پہلے اس نے ایک خنجر پوری طاقت سے میری طرف اچھال دیا۔ خنجر میرے بائیں کندھے سے ٹکرا کر سنسناتا ہوا دوسری طرف نکل گیا۔ اس دوران میں نے آگے بڑھ کر اس شخص کو پکڑلیا۔ میری گرفت اتنی مضبوط تھی کہ وہ شخص دوہرا ہوگیا۔ میں نے شمع دان اس کے ہاتھ سے لے کر نیچے رکھ دیا اور اپنی تلوار نکال کر اس کی گردن کے ساتھ لگادی اور پوچھا کہ وہ لڑکی کہاں ہے جس کو تم لوگ اغوا کرکے لائے ہو۔ پہلے تو اس نے بے خبری اور لاعلمی کا اظہار کیا مگر جب میری تلوار کی نوک اس کی گردن میں چبھی تو وہ بول پڑا۔ اس نے مجھے بتایا کہ چترالی نام کی برہمن زادی اس کوٹھری کے پیچھے ایک دوسری کوٹھری میں بند ہے۔ میں نے اسے دوسری کوٹھری کو کھولنے کا اشارہ کیا۔ دوسری کوٹھری کا دروازہ بڑا چھوٹا سا تھا اور مجھے اس ڈاکو کے پیچھے پیچھے اس دروازے سے کافی جھک کر اندر جانا پڑا۔(جاری ہے )