کیا مین لائن۔ ون منصوبہ ختم کیا جا رہا ہے؟
جب تک شیخ رشید احمد وزیر ریلوے تھے وہ ہر روز ایم ایل ون کی شروعات کی تاریخ دے دیا کرتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ بس اگلے ہفتے ٹینڈر کھولے جا رہے ہیں اور اس سے اگلے ہفتے پٹڑی بچھانی شروع کر دی جائے گی۔ کبھی کہا کرتے تھے کہ کراچی سے حیدرآباد کا حصہ پہلے شروع کیا جائے گا اور کبھی پشاور سے راولپنڈی کے حصے پر کام کے آغاز کی نوید سنایا کرتے تھے۔ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ ان کی زندگی کی بس دو تمنائیں باقی رہ گئی ہیں۔ ایک نالہ لئی (راولپنڈی) پر پل کی تعمیر اور دوسری ایم۔ ایل ون کی شروعات…… وہ اَن گنت بار وزیر رہے۔ بہت سے ادوار سے تمتع حاصل کیا۔ ان کے ٹی وی کے بیانات میں تیقّن کا عنصر ظاہر و باہر ہوا کرتا تھا۔ دیکھنے سننے والے یہ یقین کر لیا کرتے تھے کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں وہ عین مین صحیح ہے اور اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ دسمبر 2020ء تک ”جھاڑو پھرنے“ کی نوید بھی وہ متعدد بار دلاتے رہے لیکن نہ جھاڑو نظر آیا اور نہ جھاڑو پھیرنے والا۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ ان کی وزارت (ریلوے) پر جھاڑو ضرور پھر گیا…… وہ اب وزارتِ داخلہ کا چارج سنبھال چکے ہیں اور روزانہ بریفنگ کا مختصر شیڈول وزارتِ ریلوے کے ایام کی پیروی میں جاری و ساری ہے۔
لیکن کل وزیراعظم عمران خان نے یہ کہہ کر سب وزرائے کرام کے غبارے سے ہوا خارج کر دی کہ حکومت کے اب باقی صرف سوا دو برس رہ گئے ہیں۔ اس دوران جس وزیر نے بھی کارکردگی کا ٹھوس مظاہرہ نہ کیا اور صرف ”لارے لپے“ پر گزارا کرنے کی روش ترک نہ کی تو وہ گھر بھیج دیا جائے گا…… اس تناظر میں دیکھیں شیخ صاحب پر کیا گزرتی ہے!
وزیراعظم نے کل کی تقریر میں ایک اور ’پہاڑ‘ کا ذکر بھی کیا جو حکومت کی تدریجی ترقی کی راہ میں حائل ہے اور جس کا نام ’پنشن‘ ہے۔ یہ پنشن کا قضیہ کوئی نیا نہیں۔ البتہ اس حوالے سے سنجیدہ فکری کا متقاضی ہے کہ اس ’پہاڑ‘ کی بلندی میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن اس کوہستانی بلندی کی بھی ایک حد ہے۔ کوہ ہمالہ کی سب سے بلند چوٹی (ایورسٹ) کی اونچائی (29ہزار 29 فٹ) کی بھی ایک حد مقرر ہے۔ لگتا یہ ہے کہ ’پنشن ایورسٹ‘ اس سے آگے نکل جائے گی۔ اس کا علاج انہوں نے ملک کی برآمدات میں اضافے سے منسلک کیا ہے لیکن کیا پنشن اور برآمدات کی دوڑ میں آگے نکلنے کی بھی کوئی حد مقرر کی گئی ہے؟ پنشن کی اس مد میں ملک کی سیکیورٹی کے ادارے (فوج، پولیس، رینجرز وغیرہ) اور محکمہ ریلوے پیش پیش ہیں۔
اعظم سواتی نے ریلوے کا نیا نیا چارج سنبھالا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسے چالو رکھنے کے لئے ملکی خزانے کو ہر سال خواہ مخواہ ایک خطیر سبسڈی دینی پڑتی ہے۔ اس سے اربوں روپے کا خسارہ ہو رہا ہے جس سے باہر نکلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ بعض روٹ بند کر دیئے جائیں اور بعض کو نجی تحویل میں دے دیا جائے۔ ان کے یہ دونوں مشورے صائب ہیں۔ لیکن کیا حکومت اس پر عمل کر سکے گی؟
آج کل کورونا کی وجہ سے ملک کی آبادی کے ایک طبقے کا باہر نکلنا بند ہو چکا ہے۔ لیکن گھر بیٹھے آن لائن کاروباروں کی بھی ایک حد ہے۔ ہماری طرح کے بزرگ گھروں پر محفلِ سخن سجانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ عشائیے اور ظہرانے دیئے اور لئے جا رہے ہیں۔ اور ان کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ٹیلی ویژن کے لایعنی ٹاک شوز سے ایک حد تک نجات مل چکی ہے۔ جس شب کوئی عشائیہ نہیں ہوتا اس شب اگر کوئی ٹاک شو دیکھنے کا ارادہ کیا جاتا ہے تو ڈھاک کے تین پات ہی نظر آتے ہیں۔ بعض موضوعات تو پورا پورا ہفتہ لے جاتے ہیں۔جب سے استعفوں کی گردانیں شروع ہوئی ہیں لگتا ہے ٹی وی مالکان / پروڈیوسرز / اینکرز وغیرہ اپنا اپنا ’گھنٹہ‘ پورا کرتے ہیں اور تنخواہ کے حقدار ٹھہر کر گھر کی راہ لیتے ہیں۔وہی موضوع…… وہی اینکرز، وہی شرکائے مباحثہ، وہی بیانیہ اور وہی بے نتیجہ اختتام…… یعنی ع:
وہی دیرینہ بیماری، وہی نامحکمی دل کی
نہ آبِ نشاط انگیز میسر آتا ہے اور نہ اس بیماریء دل کا علاج ہو پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے ان ٹاک شوز کی تکرار سے اکتا کر سوشل میڈیا کا رخ کر لیا ہے یا پرانی فلمیں دیکھ کر دل کو ڈھارس بندھائی جاتی ہے یا دوست احباب کو دعوتِ طعام دے دی جاتی ہے جہاں بیٹھ کر کم از کم ٹاک شوز کے موضوعات کی یک رنگی سے تو نجات مل جاتی ہے۔
کل شب ایک ایسی ہی دعوت میں چار لوگ اکٹھے ہوئے تو مین لائن۔ ون پراجیکٹ کا ذکر شروع ہو گیا۔ ایک صاحب نے کہا کہ شیخ رشید کے جانے سے کم از کم یہ فائدہ تو ہوا ہے کہ ان ”لاروں لپّوں“ سے نجات مل گئی ہے جو موصوف ہر تیسرے روز سکرین پر آکر پیش فرمایا کرتے تھے…… ایک اور صاحب نے یہ کہہ کر چونکا دیا کہ یہ پراجیکٹ شاید ختم ہی کر دیا جائے…… اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ کم از کم مستقبل قریب میں اس کا فیصلہ ممکن نظر نہیں آتا۔ وجہ یہ ہے کہ چین نے موجودہ شرائط کے تحت اس کے لئے 6ارب ڈالر قرضہ فراہم کرنے سے فی الحال معذوری ظاہر کر دی ہے اور کہا ہے کہ اسے ساورن گارنٹیوں کی علاوہ کچھ دوسری ”اضافی ضمانتیں“ بھی درکار ہیں۔ یہ اضافی ضمانتیں کیا ہیں ان کو بین السطور پڑھا، دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔
دعوت میں ماکولات و مشروبات سے لطف اندوزی کے ساتھ ساتھ شرکائے طعام کی طرف سے یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا گیا کہ چین کو شک ہے کہ پاکستان اپنی کمزور معاشی صورتِ حال کی وجہ سے شائد مجوزہ ایک فیصد سود بھی ادا نہ کر سکے۔ دس بارہ روز پہلے پاکستان اور چین کے درمیان اس سلسلے میں ہونے والی تیسری مشترکہ میٹنگ میں چین نے پاکستان سے قرض کی واپسی کے لئے ’اضافی ضمانتوں‘ کا تقاضا کیاہے۔ جنرل عاصم سلیم باوجوہ کو ٹیلی ویژن پر آکر وضاحت کرنی چاہیے کہ وہ اضافی ضمانتیں جو چین مانگ رہا ہے کیا ہیں۔ البتہ اس اجلاس میں یہ کہا گیا کہ اس ’ضمانتوں‘ والے موضوع کو فی الحال تحریری اور دستاویزی شکل نہ دی جائے، اور بات زبانی کلامی حدود تک محدود رکھی جائے۔
گزشتہ ہفتے ملتان سے سکھر تک موٹروے کا 392کلومیٹر کا طویل حصہ عام ٹریفک کے لئے کھول دیا گیا ہے۔ اس پر تقریباً 3ارب ڈالر لاگت آئی ہے۔ CPEC کا یہ منصوبہ اب تک کے منصوبوں میں سب سے بڑا منصوبہ کہا جا رہا ہے۔ اب کراچی سے پشاور تک موٹروے تعمیر ہو چکی ہے اور اگر ماضی کے منصوبوں کے مقابلے میں اسے رکھ کر دیکھا جائے تو یہ واقعی ایک بڑی کامیابی ہے۔ یہ موٹروے (از کراچی تا پشاور) ایک سٹرٹیجک اہمیت کا منصوبہ ہے لیکن ایم۔ ایل ون پراجیکٹ اس سے بھی بڑا اور اس سے بھی اہم تر سٹرٹیجک اہمیت کا منصوبہ ہے۔ ایک صاحب نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مین لائن ون کی جس قدر ضرورت پاکستان کو ہے، اس سے زیادہ چین کو ہے۔ یہ ڈبل لائن 1872کلومیٹر طویل ہے۔ یہ CPEC کے دوسرے مرحلے کا اہم ترین حصہ ہو گی جس کے طفیل لاہور سے کراچی تک کا سفر صرف سات گھنٹوں میں طے ہو جائے گا۔ اعظم سواتی کو ٹیلی ویژن پر آکر یہ بتانا چاہیے کہ اس کی شروعات اگر اگلے سال جنوری میں نہیں ہوں گی تو کیا 2022ء تک انتظار کرنا پڑے گا یا کیا اسے ختم سمجھا جائے؟ دوسری بات انہوں نے یہ بتائی کہ اگر معاملہ 6ارب ڈالر کا ہے تو کیا کوئی بیرون ملک رہنے والا پاکستانی اس میں سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ نہیں؟گزشتہ ہفتے ہونے والی اس تیسری کانفرنس میں اس بات پر بھی غور کیا گیا کہ چین کے علاوہ دوسرے سٹیک ہولڈرز کو بھی آگے آکر اس میں حصہ لینا چاہیے۔ چیئرمین CPEC اتھارٹی کو ان ممکنات کے بارے میں بھی قوم کو آگاہ کرنا چاہیے۔
پاکستان نے حال ہی میں G-20ممالک سے اپنے قرضوں کی ادائیگی میں مہلت طلب کرنے کی درخواست کی تھی جو اس کو مل چکی ہے۔ ایم ایل ون کے سلسلے میں چین نے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ یہ ’مہلت‘ انتہائی غریب ملکوں کو دی جاتی ہے اور اگر پاکستان نے یہ مہلت حاصل کر لی ہے تو وہ 6ارب ڈالر کے ایم ایل ون منصوبے کی ”بروقت ادائیگی“ کو کیسے ممکن بنائے گا؟…… ایک اور شرط جو G-20ممالک نے قرضوں کی واپسی کے لئے عائد کی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان IMFاور ورلڈ بینک کے علاوہ کسی تیسرے ادارے / ملک سے کمرشل قرضے کی درخواست نہیں کرے گا…… اور یہ 6.8 ارب ڈالر کا ایم ایل ون والا قرضہ اسی ذیل میں آ رہا ہے۔ اخباروں میں یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ یہ پاک چائنا اجلاس صرف 15،20منٹ جاری رہا اور اس میں کوئی حتمی (Final) فیصلے نہیں ہو سکے۔ پاکستان اس کمرشل قرضے پر ایک فیصد سود دینے پر راضی ہے جبکہ چین 2سے 3فیصد سود طلب کر رہا ہے۔ اس پراجیکٹ کی لاگت کا تخمینہ 6.8 ارب ڈالر لگایا گیا ہے جس میں سے 85%لاگت چین کی طرف سے ادا کی جائے گی اور قرضے کی واپسی کی مدت میں 15سے 20برس کی چھو ٹ بھی شامل ہوگی۔
اس ایم۔ ایل ون پراجیکٹ کی انجینئرنگ،کنسٹرکشن اور خام مال کی خریداری چینی فرموں کی طرف سے کی جائے گی جس کا مطلب یہ ہے کہ اس منصوبے کی 85%لاگت اگر چینی قرضے سے پوری ہو گی تو 85%ٹیکنیکل لیبر، تعمیراتی ساز و سامان اور مشاورت وغیرہ بھی چین سے آئے گی۔
ہمارے خیال میں درج بالا سطور میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے، اگر درست ہے اور اگر اگلے سال جنوری میں اس پراجیکٹ پر کام کی شروعات نہیں ہو سکیں گی تو یہ پی ٹی آئی حکومت کے لئے ناکامی اور ندامت کا سامان ہو گا جس کا ازالہ اگر جلد نہ کیا گیا تو حکومت کی ساکھ شدید متاثر ہو گی۔