مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:28
مراسوا لاکھ کا؛
میرے دادا کا نام پاکستان بننے کے بعد بھی محکمہ انہار میں نہایت عزت و تکریم سے لیا جاتا رہا۔ ابا جی نے جب 1970ء میں اپنی زمین”چک 295گ ب بیریاں والا“ میں باغ لگایا اور باغ کے پانی کی منظوری کے لئے درخواست دی تو متعلقہ انہار دفتر کے سپرنٹندنٹ رحمت صاحب کو اپنے والد کا تعارف کروایا تو وہ کرسی سے اٹھ کر کھڑے ہو کر والد سے ملے اور کہا؛”بیٹا! ان کو کون نہیں جانتا ہم مسلمان عمال نے تو نوکری ہی ان کے سر پر کی ہے۔تم سکون سے گھر جاؤ اور صبح آ کر مجھ سے اپنے باغ کے پانی کی sanction لے جانا۔“ایسا ہی ہوا۔کوئی شک نہیں آپ کی کی ہو ئی نیکی اور ماتحت سے محبت اور شفقت کا صلہ ضرور ملتا ہے بھلے آپ دنیا میں رہیں یا نہ رہیں۔ نیکی اور اچھائی کبھی رائیگاں نہیں جاتی ہیں۔مجھے اپنے دادا مرحوم کا ایک خط جو انہوں نے میرے والد کو انگریزی زبان میں سیاہی والے قلم سے لکھا تھا پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ کیا شاندار لکھائی تھی۔ نیلی روشنائی سے نب والے پن سے لکھے اس خط میں انہوں نے میرے والد کو کچھ مہمانوں کو سٹیشن سے لینے کی تلقین کی تھی۔ مجھے ایک بار پھوپھو محمودہ نے بتایا تھا؛”میری شادی پر بارات کو خوش آمدید کہنے کے لئے وزیر اعلیٰ پنجاب ملک خضر حیات ٹوانہ کے والد ملک عمر حیات ٹوانہ بھی موجود تھے۔ بارات کے کھانے کے لئے سو( 100)دیگ پکائی گئی تھیں اور مہمانو ں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ ان کی شادی نجم الدین یوسف(این ڈی یوسف) سے ہوئی تھی جو بعد میں ڈین زرعی یونیورسٹی لائل پور(فیصل آباد) رہے تھے۔ لوگ خوبصورتی کی وجہ سے انہیں یوسف ثانی کہتے تھے۔
احترام، محبت، نظم و ضبط؛
میرے دادا کے ساتھ ابا جی کی محبت اور دوستی بھی انتہا کی تھی اور ادب و احترام اور ڈر بھی انتہا کا تھا۔ دادا نہیں چاہتے تھے کہ آسودگی اور بے جا لاڈ پیار ان کے چہیتے بیٹے کی عادات خراب کر دے البتہ بابا جی کبھی کبھی اس ضبط میں ڈنڈی ضرور مار دیا کرتے تھے۔ ادب اور نظم و ضبط کے معاملے میں کوئی رعا ئیت نہ تھی۔ میرے دادا کے گھر میں کسی بھی ملازم کو اس کے عرفی نام یا آدھے نام سے بلانے کی اجازت نہ تھی۔ پورا نام لے کر بلانا پڑتا تھا۔ میرے دادا ایک بار شکار کے لئے گئے تھے۔ ابا جی اور دادا کے خاص ملازم چاچا رحمت بھی ساتھ تھے۔ میرے دادا نے شکار پر نشانہ لگایا۔ شکار کے قریب کوئی آدمی بھی تھا۔ گولی فائر ہوئی تو چاچا رحمت نے اس آدمی کو گرتے دیکھا تو میرے دادا سے کہا؛”صاحب! بندوق مجھے دیں اور گولی بھی میں نے چلائی ہے۔“ بندوق تھامی اور گرنے والے شخص کی طرف دوڑا۔ وہاں پہنچا تو وہ آدمی کھڑا ہو گیا۔ تب تک میرے دادا بھی وہاں پہنچ چکے تھے۔ دراصل وہ شخص بندوق چلنے کی آواز سے ڈر کر گرا تھا اور چا چا رحمت سمجھا کہ گولی اسے لگی تھی۔یہ تھی اس دور کے ملازمین کی اپنے مالک سے وفاداری اور محبت۔ یقیناً میرے دادا بھی ملازمین کو گھر کے فرد ہی سمجھتے ہوں گے۔ مجھے یاد ہے ایک بار ہمارے ماڈل ٹاؤن والے کرائے کے گھر(94 بی) میں میرے دادا کے ملازم خاص چاچا رحمت ابا جی سے ملنے آئے۔ میرے والد کے اصرار کے باوجود وہ ان کے سامنے نہ تو کرسی پر بیٹھے اور نہ برابر۔ بس یہی کہا؛”صاحب! میں آپ کے برابر بیٹھنے کا سوچ بھی سکتا ہوں۔“ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔