دہشت گردی کے خلاف جنگ :کن کی ہار ،کن کی جیت

دہشت گردی کے خلاف جنگ :کن کی ہار ،کن کی جیت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد کی بین المذاہب ہم آہنگی کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے صدرآصف علی زرداری نے دہشت گردی اور مذہب سے متعلق بعض اہم باتیں کہی ہیں ۔ انہوں نے یہ کہا کہ کسی کو اسلام کی مخصوص تشریح کی اجازت نہیں دیں گے،لیکن ان کی اپنی طرف سے اس اہم ترین موضوع پر کہی گئی باتیں تشریح طلب ہیں ۔ انہوں نے موجودہ حالات کے تناظر میں پاکستانی پالیسی کے مطابق جو باتیں کہیں ان کی حقانیت، تشریح اور وضاحت کے بعد ہی واضح ہوسکتی ہے۔ صدر زرداری کی تقریر کے اہم نکات یہ ہیں: 1۔دنیا دہشت گردی کے خلاف جنگ ہار رہی ہے۔ 2۔مذہب کو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ 3۔ انتہا پسندوں کو استعمال کرنے والے ان پر قابو نہیں رکھ سکتے، کیونکہ ان کا اپنا ایجنڈا ہے۔ 4۔عسکریت پسندوں کو اپنا ایجنڈا مسلط نہیں کرنے دیں گے۔ 5۔ پاکستان افغان جنگ سے بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ 6۔اسلام رواداری اور برداشت کا مذہب ہے خود کشی حرام ہے۔ 7۔جمہوریت کو فروغ دے کر چیلنجوں سے نمٹا جاسکتا ہے۔۸۔ہم آہنگی کے لئے کمیٹیاں بنائی جائیںگی، قومی کونسل قائم ہوگی۔
امریکہ نے نیویارک کے 11 ستمبر2001ءکے واقعہ کو بنیاد بنا کر جن بیان کردہ مقاصد کے لئے افغانستان پر اپنے اتحادیوں سمیت چڑھائی کی ، دہشت گردی کے خلاف ان مقاصد کے حصول میں اسے ایک لحاظ سے ناکامی کہا جاسکتا ہے ، لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ امریکہ کے افغانستان میں آنے کے مقاصد صرف دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے تک ہی محدود تھے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ میں دہشت گردی کا کوئی ایک واقعہ بھی نہیں ہوا۔ امریکہ اپنے مخالف دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے کے سلسلے میں مطمئن ہے۔ دوسرے مغربی ممالک میں بھی دہشت گردی کے اِکا دُکا واقعات کے علاوہ دہشت گردی کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ ان ممالک کی انتظامی مشینری کی مستعدی اور سیکیورٹی کے لئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے بھی دہشت گردی اور جرائم پر قابو پایا گیا ہے،لیکن بدقسمتی سے ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل نہیں ہو رہی اس کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں سرگرم دہشت گردوں کو ہمارے ان دشمنوں کی سرپرستی حاصل ہے، جو ہماری ملکی سالمیت کے درپے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری کی یہ بات درست ہے کہ وسیع تر سیاسی اتحااد اور مفاہمت اور امن کی سوچ اپنانے سے مسئلے کا حل تلاش کیا جانا چاہئے،لیکن صرف مفاہمت ہی سے کام نہیں چلتا، ہمیں اپنے اندر شروع کی گئی جنگ سے نمٹنے کے لئے اپنی پوری قوت کوبھی مجتمع کرنا ہے۔ یہ بھی ایک اہم حقیقت ہے کہ دشمن نے نہایت مکاری سے ہمارے خلاف مذہب ہی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔اسلام کا جذبہ ¿ جہاد اور اپنی آزادی اور قومی مفاد پر تن من دھن سب کچھ قربان کردینے کا ایمان مسلمانوں کی سب سے بڑی اور ناقابل شکست طاقت رہی ہے ، لیکن اسی طاقت کو (ایک دوسرے کی گلے کاٹنے کو جہاد کا نام دینے جیسے) مغالطے پیدا کرکے اور فرقوں کی تقسیم کے ذریعے مسلمانوںکے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔اس طرح دشمن نے ہماری طاقت کو ہماری کمزوری میں تبدیل کردیا ہے۔ مذہب کو اسلام دشمنوں نے پاکستان ہی میں نہیں دُنیا بھر میںمسلمانوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ دوسری طرف استحصالی طاقتیں بھی اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے مذہب ہی کی شکل بگاڑ کر اسے اپنی ڈھال بناتی ہیں۔ کرپٹ حکمران بھی مختلف طریقوں سے اپنی مذہب سے جعلی وابستگی اور والہانہ پن ظاہر کرکے پارسائی کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔
یہ صداقت بھی سب کے سامنے ہے کہ انتہا پسندوں اور عسکریت پسندوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے والے ان کو مال و دولت سے نوازنے اور مسلح کرنے کے بعد کسی حد تک تو ان سے کام لے سکتے ہیں، لیکن جن لوگوں کو مال ہی سے غرض ہو وہ ایک پارٹی سے مال لے کر مخالف پارٹی سے بھی رجوع کرلیتے ہیں ۔ مذہبی یا سیاسی تنظیموں کے ہاتھوں استعمال ہونے کے بجائے اپنی لوٹ مار کے لئے بالآخر آزادانہ رویہ بھی اختیار کرلیتے ہیں ۔ مقاصد یا نظریات کے چھوٹے موٹے اختلافات بھی ایسے دہشت گردوں کے اپنے اصل آقاﺅں سے علیحدگی اختیار کرنے کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس طرح سمجھوتوں اور تصفیوں کے ذریعے امن قائم ہونے کے بجائے معاشرہ ایسے لوگوں کی دہشت گردی اور لوٹ کھسوٹ کا مسلسل شکار رہتا ہے۔ یہ غیر حکومتی مسلح گروہ اس وقت دنیا کے ترقی پذیر معاشروں کا ایک بڑا روگ بن چکے ہیں۔ خود امریکہ نے بھی دُنیا میں جہاں ایسے دہشت گرد تیار کئے ، انہیں اپنا کام نکالنے کے بعد فوری طور پر خود ہی غیر مسلح یا ختم کرنے پر توجہ دی تاکہ اس کی دی ہوئی قوت کو وہ اپنے قومی مقاصد یا کسی دوسرے کام میں استعمال نہ کرسکیں۔ خود ہمارے ملک میں بھی مختلف مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی سرپرستی میں تیار ہونے والے مسلح لوگ ان جماعتوں کے مقاصد پورے کرنے سے زیادہ اغوا برائے تاوان اور چوری، ڈاکے وغیرہ کی وارداتوںمیں مصروف ہیں ،ان سے بعض نے مال بنانے اور جدید ہتھیاروں کے لئے یقینا بیرونی رابطے بھی کر رکھے ہیں۔ یہ سارے حقائق اِس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ انتہاپسندوں کو استعمال کرنے والے ان پر قابو نہیں رکھ سکتے۔
صدر آصف علی زرداری کی یہ بات بہت وضاحت طلب ہے جس پر قومی مباحثے کی ضرورت ہے کہ عسکریت پسندوں کو اپنا ایجنڈا مسلط نہیں کرنے دیا جائے گا۔ اس وقت پاکستان میں عسکریت پسندوں کا جو ایجنڈا بظاہر نظر آ رہا ہے وہ ہماری قومی سلامتی اور امن و امان کو ہر لحاظ سے نقصان پہنچانا اور دشمن کے سامنے جھکانا ہے۔ ظاہر ہے اگر خدانخواستہ دشمن دہشت گردی کی سرگرمیوں سے ہمیں زیادہ نقصان پہنچا نے میں کامیاب ہوجاتا ہے، تو پھر اپنے سامنے جھکانے کی توقع بھی کرسکتا ہے، لیکن اگر صدر آصف علی زرداری کی یہ بات اس تناظر میں ہے، جس میں ملک کے سیکولر اورآزاد خیال حلقے مذہبی لوگوں کو ہر طرح کی عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے الزامات دیتے ہیں تو اس پر بہت کچھ کہا جاسکتا ہے ۔ اس کے جواب میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ملک کے سیکولر حلقے ہر اچھے اور باعمل مسلمان کے لئے اپنے بغض اور عناد کی بنا پر ان سب پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام دیتے اور انہیں اپنا عقیدہ دوسروں پر ٹھونسنے کی سخت خواہش رکھنے والے قراردیتے ہیں۔اس طرح ان سیکولرز کے حقائق سے نظریں چرانے سے دہشت گردوں اور ملک میں اسلامی نظام اور اسلامی اقدار کا فروغ چاہنے والوں میں فرق مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے، جو ملک و قوم کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردینے والے انتہائی سچے کھرے پاکستانیوں اور ملک دشمنوں میں فرق ختم کرنے والا معاملہ ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ ملک سے وفاداریاں صرف ان لوگوں کی مشکوک ہیں جن کو دین سے کچھ رغبت نہیں جو مذہب کو ملکی مسائل کا سبب قرار دیتے ہیں ، اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے ملک کے استحکام سے جنہیں کچھ خوشی نہیں ہوتی۔
صدر نے یہ بھی کہا کہ اسلام کی مخصوص تشریح کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔اس سے غالبا ان کی یہی مراد ہے کہ کسی کو اپنا مخصوص عقیدہ دوسروں پر ٹھونسنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ورنہ اسلام کی تشریح کرنے سے تو کسی کو کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ غیر مسلم اسلام کی اپنے ہی انداز میں تشریح کرتے ہیں ان کے نزدیک مسلمان ذہنی طور پرقدیم زمانے میں بسنے والے قدامت پرست اور شدت پسند لوگ ہیں ،جبکہ مسلمان اسلام کو جدید دور کے تقاضے پورے کرنے والا استحصال اور ظلم کا مخالف دین تصور کرتے اور اسلامی نظام کو دور حاضر کے تمام انسانی مسائل کا حل تصور کرتے ہیں ۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرکے ایک فرد اور پورا معاشرہ اپنی بھلائی اور بہتری کے لئے بہترین ماحول پیدا کرسکتا ہے۔ بلا شبہ اسلام میں خود کشی اور ہر طرح کی دہشت گردی حرام ہے۔ اسلام اپنے حقوق اور آزادی کے لئے مسلمانوں کو جہاد کی اجازت بھی دیتا ہے۔ اسلام صلح اور امن کا داعی ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ وسعت نظری، رواداری، اخوت اور عفو و درگذر کی روشن مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
افغانستان پر روسی قبضہ کے بعد ہمیں اس کی جنگ میں مسلمانوں کو آزاد کرانے کے لئے جہاد کے نام پر ملوث کیا گیا تھا لیکن امریکہ اور اتحادیوں کی وہاں آمد کے بعد ہمیں زبردستی اتحادی بنا کر اِس جنگ میں گھسیٹا گیا ہے ۔ ظاہر ہے جو جنگ نہ ہماری مرضی سے مسلط کی گئی ہے اور نہ جس میں ہم اپنے قومی مقاصد کے لئے حصہ لے رہے ہیں ، وہ جنگ ہمارے لئے نقصان ہی کا باعث ہوسکتی تھی اس سے کسی طرح کی منفعت کی امید رکھنے کو حماقت ہی قرار دیا جائے گا۔
بلا شبہ ملک میں حقیقی جمہوریت اور سچی، کھری مخلص سیاسی قیادت کے ذریعے دہشت گردی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں ملک میں اپنی اصل روح کے ساتھ جمہوریت قائم کرنے کا موقع مل سکے تو اس سے دہشت گردی ہی ختم نہیں ہوگی ۔ قوم کو درپیش تمام دوسرے مسائل بھی ایک کے بعد ایک حل ہوتے چلے جائیں گے۔
ملک میں مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے سلسلے میں ہمیں ایسے مسائل درپیش نہیں جتنے کہ مسلمان سیکولر طبقے اور اسلام پابند لوگوں کے درمیان حائل نظریاتی خلیج کو پاٹنے کے سلسلے میںہیں۔ یہ مسائل حل کرنے کی ضرورت بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے۔ اگر ہم بین المذاہب امن کے لئے کمیٹیاں بناتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی ساتھ بین المسالک ہم آہنگی کے لئے کمیٹیاں تشکیل دینے کی ضرورت بھی سب کے سامنے ہے۔ اس وقت دشمن مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کے لئے مشتعل کرنے کی جتنی کوششیں کر رہا ہے ان کے پیش نظر اس پہلو پر توجہ دینا اور اس کے بعد سیکولرز اور دین پابند لوگوں میں مباحث کا انتظام کرنا بھی ضروری ہے۔  ٭

مزید :

اداریہ -