اک مردِ صفا: واصف علی واصف کی یاد میں
گزشتہ دنوں گوجرانوالہ میں بیادواصف علی واصف ایک سیمینار”اسلام .... امن ہے ، سلامتی ہے “ منعقد ہوا۔ جس کا اہتمام جہانگیر و احباب واصف خیال سنگت نے کیا۔ سیمینار کی صدارت صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان ممنون حسین نے کی ۔ مہمان خصوصی صاحبزادہ کاشف محمود تھے۔ نظامت کے فرائض جہانگیر میر نے انجام دیئے۔ مقررین میں خرم دستگیر خان(وفاقی وزیر صنعت و تجارت)، مجیب الرحمان شامی (چیف ایڈیٹر روز نامہ پاکستان)، خواجہ غلام قطب الدین فریدی (صدر مشائخ کو نسل پاکستان) اور سہیل عمر (ڈائریکٹر اقبال اکیڈمی پاکستان) بھی شامل تھے۔ جہانگیر میرنے نظامت کا آغاز” کرن کرن سورج “ کے اس اقتباس سے کیا.... ”آپ کا اصل ساتھی اور آپ کا صحیح تشخص آپ کے اندر کا انسان ہے ۔ اُسی نے عبادت کرنا ہے اور اسی نے بغاوت ، دہی دنیا والا بنتا ہے اور وہی آخرت والا۔ اسی اندر کے انسان نے آپ کو جز اوسز کا مستحق بنانا ہے ۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے ۔ آپ کا باطن ہی آپ کا بہترین دوست ہے اور وہی بدترین دشمن ۔ آپ خود ہی اپنے لئے دشواری سفر ہو اور خود ہی شادابی منزل.... باطن محفوظ ہوگیا تو ظاہر بھی محفوظ ہوگا“.... تلاوتِ قرآن کی سعادت قاری طالب حسین، جبکہ نعت بحضور سرورِ کونین کی سعادت صہیب احسان کے حصے میں آئی:
در مصطفےٰ پہ سوال ہے، درِ مجتبےٰ پہ سوال ہے
اسی شاہ کے در پہ سوال ہے جو کہ شمع بزم خیال ہے
بڑی دیرسے تھی یہ آرزو تیرا آستاں ہوروبرو
میری جستجو ہو سرخرو یہ تیری نظر کا کمال ہے !
اقبال اکیڈمی کے ڈائریکٹر سہیل عمر کا کہنا تھا کہ رحم دلی، مہربانی، اخوت اور محبت ایسی صفات ہمیشہ سے اسلامی تہذیب کا طرئہ امتیاز اور خاصہ رہیں۔ صفات خداوندی ، انسانی خوبیوں کا منبع ہےں۔ رسول خدا کی صفات قدرت الٰہیہ کاپر تو ہیں۔ خدا کی صفات کو عام کرنا، اس کا مظہر بننا عین امر الیٰہ ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کی ذات اقدس کو دنیا میں رحمتہ اللعالمین بنا کر مبعوث فرمایا۔ آپ سراپا رحمت بن کر دنیا میں تشریف لائے جو ہمارے لئے آخری شجر سایہ دار اور ہماری مغفرت کا باعث ہیں۔ آپ کے نقش قدم سے ہمیں ایسی نابغہ روزگار شخصیات ملیں، ان میں سے ہمارے مجلہ دماغ پر رقم ایک ایسے شخص واصف علی واصف کا نام بھی ملے گا”جواسلام.... امن ہے سلامتی ہے “ کے پرچارک رہے۔
جناب خرم دستگیر خان نے کہا گوجرانوالہ کی مردم شناس مٹی نے جن نامور ہستیوں کو جنم دیا ، ان میں مولانا ظفر علی خان، ڈاکٹر فقیر محمد فقیر، ندیم اسلم ( ناولسٹ)،میر خلیل الرحمان ودیگر شامل ہیں۔ انہوں نے کہاکہ واصف علی کے بارے میں میرا امپریشن زندگی کیسے گزارنی چاہئے؟ زندگی کون سی اچھی ہوتی ہے؟ زندگی گزارنے کے آداب کیا ہیں؟ جواب یہ کہ واصف علی کے پُر حکمت جملے اور پھر یہ جملے مجتمع ہو کر اقبال ؒ کی تفیسر بن رہے ہیں ۔ جو ”اپنی دنیا آپ پیدا کرا گر زندوں میں ہے“ کے مصداق ہیں۔ یہ جملے ہماری طاقت اور ہماری قوت کا ذریعہ، جیسا کہ ”پاکستان نور ہے ۔ نورکوزوال نہیں، آپ ہی کے فیض نظر سے اس کا قیام ممکن ہے ۔ پاکستان ہمارے ایمان کا حصہ ہے ، اپنے ملک کی خدمت دراصل اسلام کی خدمت ہے۔ ہمارے ملک میں اس شخص پر سکون قلب حرام ہے ، جسے اسلام اور پاکستان سے محبت نہیں، ہم عظیم قوم ہیں.... ہمیں عظیم تر ہونا چاہئے۔ یہ ملک خدا کا ہے ، خدا کے رسول کا ہے ، اسے ان کی منشاءکے مطابق ہی چلنا چاہئے“۔اگر ہمارا یقین یہ ہے کہ نور کوزوال نہیں تو ہمیں مایوس نہیں ہونی چاہئے۔ ہمیں اپنی کوشش اور محنت سے درست سمت کا تعین کرکے آگے بڑھنا ہے۔ اگر ہمارے ایمان وایقان درست ہوجائیں تو ہم اپنے وطن کی مٹی کو آج بھی سونا بناسکتے ہیں، جس سے پاکستان روز افزوں ترقی کرے گا۔
مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ حضرت واصف علی واصف 21سال قبل اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ اس وقت نواز شریف وزیر اعظم تھے۔ اسی روز وزیر اعظم کمیٹی کا اہم اجلاس تھا۔ مَیں کمیٹی کا رکن تھا۔ اجلاس میں میری شرکت انتہائی ضروری تھی۔ وزیر اعظم نواز شریف سے مَیں نے صاف صاف الفاظ میں کہہ دیا: ” مَیں واصف علی واصف کا جنازہ پڑھے بغیر لاہور سے باہر نہیں جاسکتا ۔ انہوں نے کہا واصف علی واصف سے میرا تعلق ایسا تھا کہ ہم نے انہیں پڑھا، سنا اور لوگوں کے سوالات کے جوابات دیتے دیکھا۔ ان کے جوابات سکون آور ہوتے ،لوگوں کی اصلاح کرتے اور اسلام کا واضح پیغام دیتے تھے۔ انہوں نے کہا جو کام اقبال ؒ کے اشعار نے کیا ،وہی فریضہ واصف علی کی نثر نے انجام دیا۔ مختصر الفاظ میں کہا جاسکتا ہے جو جامعیت واصف علی واصف کے کلام میں ہے، کوئی دوسرا اس کا سزا وار نہیں ہوسکتا ۔ ایک مرتبہ واصف علی واصف سے سوال کیا گیا کہ آدمی کب مرتا ہے ؟ انہوں نے فرمایا:” جب وہ دل سے اتر جاتا ہے اور زندہ تب ہوتا ہے، جب کوئی دل میں اتر جاتا ہے “۔ کسی نے پوچھا غم کیا ہے؟ فرمایا،” اپنی مرضی اور خدا کی مرضی کے درمیان فرق کانام غم ہے “۔
شامی صاحب نے کہا کہ اکثر لوگ مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ پاکستان کاکیا بنے گا؟ میرا جواب ہوتا ہے، ”بھئی ! تمہیں اس بات کی کیا فکر ؟ تمہاری مرضی اور خدا کی مرضی کے درمیان بڑا فرق ہے،لہٰذا تمہیں پاکستان کے بارے میں فکر مند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پاکستان کو کچھ نہیں ہونے جارہا ۔ اللہ تعالیٰ اربوں سال سے ایک کام کررہا ہے ۔ وہ دنیا کا نظام اپنی قدرت سے چلا رہا ہے اور وہ بڑا تجربہ کار ہے .... اس کو اپنا کام کرنے دو، تم اپنا کام کرو“.... جب ہم اپنا اپنا کام کریں گے تو پاکستان ترقی کرے گا!
انہوں نے کہامَیں بوسٹن میں تھا، وہاں بھی مجھ سے سوال ہوا۔ اگر پاکستان نہ ہوتا تو یہ ہوتا وہ نہ ہوتا.... مَیں نے انہیں ستر اسی سال کے بابے اور بابی کی مثال دی”بابی بابے سے میرے والدین نے نجانے تجھ ایسے نکھٹو سے کیوں بیاہ دیا؟ بابا! میرے والدین کا بھی صبر دیکھو!جنہوں نے تجھ ایسی بدطینت عورت میرے پلوسے باندھ دی! ان سے کوئی پوچھے کہ آئے روز کی اس کھٹ پٹ سے بھلا اب انہیں کیا فائدہ ۔ جو ہونا تھا وہ توہوچکا، صبر شکر،سے ایک دوسرے کی حیثیت کو تسلیم کرکے گزر اوقات کرو، کیونکہ ستر اسی سال کی عمر میں تم کوئی اور اقدام اٹھانے سے تورہے۔ کچھ یہی صورت حال پاکستان کو بھی درپیش ہے ۔ جسے کانگریس اور انگریز نے منصہ ءشہودپر نہ لانے کے لئے کئی جتن کئے، مگر پاکستان پھر بھی بن کے رہا۔ پاکستان تو بن گیا تھا، مگر ہندو بنئے کے سینے پر مونگ دلتی رہی اور مروڑاٹھتے رہے کہ پاکستان چھ ماہ نہیں چل سکے گا، پاکستان کے ساتھ یہ ہوجائے گا.... وہ ہوجائے گا۔ پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے 66 سال ہوچکے ہیں اور اللہ کے فضل وکرم سے پاکستان شاد ہے آباد ہے اور تاقیامت رہے گا۔
خواجہ غلام قطب الدین فریدی صدر مشائخ کونسل پاکستان نے اپنی تقریر کا آغاز علامہ اقبال ؒ مرحوم کی شہرہ آفاق غزل” میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں ، غلغلہ ہائے الاماں بتکدئہ حیات میں ! سے کیا۔ انہوں نے تقریر کے دوران جہانگیر میر کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا آج کی تقریب کے میزبان جہانگیر بھی ہیں اور میر بھی ۔ انہوں نے کہا واصف علی واصف نے ہمیشہ محبت کا درس دیا جس کی مثال آپکی سیرت اور صوفیائے کرام کی زندگیوں میں ملتی ہے ۔ محبت کے زور سے ہی لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے، کیونکہ انسان وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی ذات کی محبت میں ہرشے کو بھول جائے۔
صاحبزادہ کاشف محمود نے کہاحضرت واصف علی کی شخصیت، کسی تعارف کی محتاج نہیں ،ستراسی کی دہائیوں میں آپ کی محافل میں شامل ہونا دانشور طبقے کے لئے اعزاز ہوتا تھا ۔ آج بھی متلاشیان حق اپنی جستجو ئے حق میں آپ کی تحریروں اور اقوال سے استفادہ کرتے ہیں۔ مختلف یونیورسٹیوں میں آپ پرایم فل کے مقالہ جات اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کا اجراءکیا گیا، کیونکہ تعلیمات واصف ہمیں برداشت ، رواداری ، تحمل اور فراخ دلی کا درس دیتی ہیں اور ہمارے قلب و نظر میں دینی ، اخلاقی اور روحانی اقدار کو اجاگر کرنے کا باعث بھی ہیں۔ آخر میں انہوں نے صدر پاکستان سے مطالبہ کیا کہ ایوان اقبال کے طرز پر ایوان واصف کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ہم لاہور کے وسط میں حضرت واصف علی واصف کے مزار کے ساتھ چار کنال اراضی حاصل کرچکے ہیں، جس میں مزار کے ساتھ ساتھ مسجد ، لائبریری اور آڈیٹوریم کی تعمیر کے اعلان کے متمنی ہیں۔ آپ کی سعی جلیلہ تاریخ کا ایک سنہری باب ہوگا۔
صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان ممنون حسین نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ اسلام کے امن وسلامتی کے پیغام کو اجاگر کرتے ہوئے اسلام کے ابدی پیغام اور برگزیدہ ہستیوں کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر نہ صرف دہشت گردی سے بچا جاسکتا ہے ، بلکہ وطن عزیز کو امن و آشتی کا مسکن بھی بنایاجاسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا ،یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہم ایسے مذہب کے پیروکار ہیں جو نہ صرف اپنوں، بلکہ پوری انسانیت کے لئے امن و سلامتی کا داعی ہے اور دنیا بھر کے انسانوں کے درمیان امن و اخوت، ہم آہنگی اور آدمیت کے باہمی رشتوں کو مضبوط بنیادیں فراہم کرتا ہے ۔ اسلام نے نوع انسانیت پر جو احسانات کئے ،ان کا اعتراف غیر مسلم بھی کرتے ہیں کہ دین اسلام ایک ایسا مذہب ہے، جس نے انسانیت کو جہالت سے نکال کر روشنی کی شاہراہ پر گامزن کیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب آپ کوئی لشکر روانہ کرتے تو اسے تلقین فرماتے کہ دشمن کی بستیاں نہ اجاڑنا، بوڑھوں، بچوں اور خواتین کو قتل اور ان کی فصلیں تباہ نہ کرنا۔ انہوں نے کہا ،جن قوموں نے مشکل وقت میں غیر سے امیدیں لگانے کی بجائے اپنی ہی مٹی سے جنم لینے والی دانش سے استفادہ کیا، وہ سرخرو ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ واصف علی واصف کے قول کے مطابق ....”جب ہم اپنی غلطیوں پر دوسروں سے معافی مانگنا اور دوسروں کی غلطیوں پر انہیں معاف کرنا سیکھ جائیں گے تو ہمارے نوے فیصدمسائل خود بخود حل ہوجائیں گے.... سب سے بڑا منافق وہ ہے جو اسلام سے تو محبت کرے ، لیکن مسلمانوں سے اسے نفرت ہو“۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ ہمیں اپنے آپ کو پہچاننے کے لئے واصف علی واصف جیسے برگزیدہ لوگوں کی تعلیمات اور فکر کا بغور مطالعہ کرنا چاہئے،در حقیقت آج ہمیں ایسی تعلیمات کو اجاگر کرنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے ۔ قومی امید ہے کہ جب ہم اپنے بزرگوں کی تعلیمات پر سچے دل سے عمل پیرا ہوں گے تو دینی و دنیاوی کامیابیاں ہمارا مقدر ہوں گی۔ آخر میں انہوں نے صاحبزادہ کاشف محمود اور جہانگیر میر کو مبارک باددی اور کہا کہ واصف علی واصف کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے ، ان کی تعلیمات کو زندہ رکھنے اور انہیں ملک کے کونے کونے میں پھیلانے کے لئے کی جانے والی کوششیں قابل ستائش ہیں۔